وفاقی کابینہ نے کورونا اخراجات میں چالیس ارب روپے بے قاعدگیوں اور گھپلے کے بارے میں آڈٹ رپورٹ کو مسترد کردیا ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ وزارت خزانہ کی طرف سے اس رپورٹ کو پہلے ہی مسترد کیا جاچکا ہے اور احساس پروگرام کی نگران وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بھی اپنے ادارے کی پوزیشن واضح کردی ہے۔
واضح رہے کہ وزارت خزانہ نے امدادی پروگرام کے سلسلہ میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کی وجہ سے آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا تھا جس کے بعد یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ کورونا کے امدادی پروگرام کے تحت ہونے والی خریداری اور اخراجات میں وسیع پیمانے پر بے قاعدگیاں موجود تھیں۔ خریداری کے لئے مقررہ طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا یا مارکیٹ سے کہیں زیادہ قیمت پر خریداری کی گئی حالانکہ مارکیٹ میں وہ اشیا کم قیمت پر دستیاب تھیں۔ عمران خان کی حکومت شفافیت اور دیانت داری کے ساتھ مالی معاملات چلانے کا دعویٰ ضرور کرتی ہے لیکن کورونا اخراجات پر آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کو آئی ایم ایف کے مطالبہ کے بعد ہی پبلک کیا گیا تھا۔
مالی معاملات کی نگرانی اور انتظام ضرور وزارت خزانہ اور حکومت کے دائرہ اختیار میں ہوتا ہے لیکن یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ مصارف مقررہ طریقہ کار کے مطابق کئے جائیں اور سرکاری عمال سرکاری فنڈز میں خوردبرد اور بدعنوانی کے مرتکب نہ ہوں، تمام سرکاری اخراجات کا آڈٹ کروانا بھی طریقہ کار کا حصہ ہے۔ کوئی بھی حکومت نہ صرف ایسی آڈٹ رپورٹ سے سبق سیکھتی ہے بلکہ اگر ان میں کسی بڑی بے قاعدگی کی نشاندہی کی جائے تو انتظامی معاملات پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تاکہ قومی خزانے کے وسائل کو پوری ذمہ داری اور دیانت کے ساتھ صرف کیا جاسکے۔ تاہم جب کوئی حکومت اپنے اخراجات کے بارے میں آڈیٹرز کی رپورٹس کو چھپانے کا اہتمام کرے اور کسی عالمی ادارے کے دباؤ پر ہی اسے سامنے لانے پر مجبور ہو تو اسی سے ایسی حکومت کی بدنیتی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں جن بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی ہے، وہ وہی طریقے ہیں جنہیں سرکاری مشینری سرکاری فنڈز میں خرد برد کے لئے استعمال کرتی ہے ۔ یعنی خریداری کے لئے مقررہ طریقہ پر عمل کرنے کی بجائے ایسی کمپنیوں سے مال خریدا جائے جن کے ساتھ پہلے ہی کمیشن طے ہو۔ یا مارکیٹ میں جس قیمت پر اشیا دستیاب ہوں، ان سے کہیں زیادہ قیمت پر خریداری کی جائے۔ اس مقصدکے لئے عام طور سے ٹینڈر طلب کرنے یا کم قیمت والے ٹینڈر کو کسی تکنیکی عذر کی بنیاد پر مسترد کرنے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ ہتھکنڈا اختیار کرنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ ایسے افراد یا کمپنیوں سے سپلائی کا کام لیا جائے جن سے کمیشن کی وصولی پہلے سے طے کرلی جاتی ہے اور اسے مختلف طریقوں سے وصول کرلیاجاتا ہے۔ آڈیٹر جنرل نے کورونا مصارف کے 350 ارب روپے کے اخرجات کے بارے میں جو رپورٹ تیار کی ہے، اس میں 40 ارب روپے کی بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں۔ عرف عام میں اسے کرپشن کہا جائے گا کیوں کہ ضرورت سے زائد صرف ہونے والی رقم سے کسی کو تو فائدہ پہنچتا ہے۔
پاکستان جیسے ملکوں میں کرپشن سرکاری نظام کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ اسی لئے رشوت عام ہے اور کسی سرکاری ادارے میں شفافیت اور مستعدی دکھائی نہیں دیتی۔ بڑے پیمانے پر سرکاری مصارف میں بے قاعدگیاں صرف متعلقہ افسروں کی لاپرواہی یا نالائقی کے سبب دیکھنے میں نہیں آتیں۔ عام طور سے نوٹ کیا گیا ہے کہ بدعنوانی میں ملوث سرکاری عہدیدار اپنے کام میں طاق ہوتے ہیں اور متعلقہ طریقہ کار کو ناجائز سہولت یا خرد برد کے لئے استعمال کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ طریقہ حکومتی سیاسی قیادت کی باقاعدہ سرپرستی کے بغیر کامیاب نہیں ہوتا۔ یعنی اگر350 ارب روپے کے کورونا مصارف میں 40 ارب روپے کا گھپلا نوٹ کیا گیا جو کل اخراجات کا بارہ فیصد بنتا ہے تو سرکاری افسر تن تنہا اتنی خطیر رقم خرد برد نہیں کرسکتے۔ مروجہ طریقہ کے مطابق ہر عہدیدار کوجن میں محکمہ کے سیاسی نگران بھی شامل ہوتے ہیں، اس کے عہدہ و اختیار کے مطابق حصہ تقسیم ہوتا ہے۔ چونکہ سب لوگوں کو اپنی ’محنت شاقہ‘ کا پھل مل رہا ہوتا ہے، اس لئے سب ہی اس پر پردہ ڈالنا اور اسے عوام کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا بھی فرض منصبی کا حصہ سمجھتے ہیں۔
احساس پروگرام کے تحت متعدد منصوبوں میں سامنے آنے والی بے قاعدگیوں میں بدعنوانی کے یہ سب اشاریے موجود ہیں۔ پہلے تو آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں ہی واضح کیا ہے کہ متعقلہ شعبوں نے تمام معلومات فراہم نہیں کیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ مالی معاملات میں حقیقی گڑ بڑ سامنے آنے والی بے قاعدگی سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ حکومت نے معمول کے مطابق کورونا مصارف کی آڈٹ رپورٹ جاری کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی بلکہ اسے خفیہ رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی تاآنکہ عالمی مالیاتی فنڈ نے اس رپورٹ کے اجرا اور تمام اخراجات کے مکمل آڈٹ کو امدادی پیکیج کی اگلی قسط ادا کرنے سے مشروط نہیں کردیا۔ پھر ہر چھوٹے بڑے معاملہ پر پریس کانفرنس کرکے حکومت کی اعلیٰ صلاحیت کی دھاک بٹھانے والے حکومتی نمائیندوں نے اس رپورٹ کے بارے میں کوئی بات کرنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ اسے وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر شائع کرکے یہ تصور کرلیا گیا کہ آئی ایم ایف کی شرط پوری کردی گئی ہے۔
حکومت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ آئی ایم ایف سے ہونے والا معاہدہ پاکستانی عوام کی طرف سے کیا گیا ہے۔ اس معاہدہ کے لئے ہونے والے مذاکرات میں پاکستانی حکومت اپنے ملک کے عوام کی نمائیندہ تھی اور آئی ایم ایف کو وسائل فراہم کرنے والے ممالک یا اداروں کے مفادات پر نگاہ رکھنا ہوتی ہے۔ تاہم اس معاملہ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آئی ایم ایف ایک خاص شعبہ کا آڈٹ کروانے پر اصرار کرتا ہے جبکہ پاکستانی حکومت کے نمائیندے باامرمجبوری اس شرط کو قبول کرتے ہیں۔ درست تناظر میں دیکھا جائے تو درحقیقت آئی ایم ایف پاکستانی نظام میں کرپشن کی نشاندہی کرتے ہوئے پاکستانی عوام کے مفادات کا تحفظ کرتا دکھائی دیتا ہے جبکہ ملک کی ایماندار سیاسی حکومت کے نمائیندے اس سے اغماض برتنا چاہتے تھے۔ اس رویہ سے عوامی نمائیندوں کی اپنے ملک کے عوام کے ساتھ شیفتگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور دیکھا جاسکتا ہے کہ حکومت کس حد تک عوامی مالی مفادات کو عزیز رکھتی ہے اور نظام کی بدعنوانی اور کجی کو دور کرنے میں از خود سرگرم ہونے کی بجائے اس کی پردہ پوشی کا طریقہ اختیار کرنا ضروری سمجھتی ہے۔
اس پس منظر میں احساس پروگرام میں سنگین بے قاعدگی یا کرپشن کی معلومات مجبوراً ہی سہی سامنے آنے کے بعد بھی وزیر اعظم سے لے کر کسی بھی سطح کی سیاسی قیادت نے کوئی وضاحت دینے یا اپنی کوتاہی کو تسلیم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ وزیر اعظم عمران خان تو دو روز پہلے بھی القادر یونیورسٹی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابقہ حکمرانوں کی بدعنوانی اور ملکی معیشت ، سماج و سیاست پر اس کے اثرات کا مرثیہ پڑھتے ہوئے اخلاقیات پر طویل لیکچر نما تقریر کرتے سنائی دیے تھے۔ حالانکہ اس وقت تک ان کی اپنی حکومت کے ایک شعبہ میں چالیس ارب روپے کے ناجائز مصارف کی معلومات آڈٹ رپورٹ کی صورت میں سامنے آچکی تھیں۔ اس صورت حال سے اس ملک کا عام شہری کیا نتیجہ اخذ کرسکتا ہے۔ اگر کوئی عمران خان کی اندھی محبت و عقیدت میں مبتلا ہوکر شخصیت پرستی کے سبب اس کوتاہی کو نہیں دیکھ سکتا تو علیحدہ بات ہے لیکن متوازن رائے بنانے والا ضرور سوال کرے گا کہ وزیر اعظم سابقہ حکومتوں کی آنکھ کا تنکا تلاش کرتے ہوئے اپنی آنکھ کا شہتیر دیکھنے میں کیوں ناکام رہتے ہیں؟
اب وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آڈٹ رپورٹ کو یہ کہتے ہوئے مسترد کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اپنی پوزیشن واضح کردی ہے یا متعلقہ شعبوں سے اس بارے میں تفصیلی رپورٹ مانگ لی گئی ہے۔ کیا وزیر اعظم اور ان کی کابینہ میں شامل نورتن یہ سمجھنے کے اہل بھی نہیں ہیں کہ ’متعلقہ شعبوں‘ کی رپورٹ اور فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر ہی آڈیٹر جنرل نے وہ رپورٹ ترتیب دی تھی جس میں ان شعبوں کا کیا دھرا اب عوام کے سامنے لایا گیا ہے۔ حکومت نے تو اسے چھپانے کی پوری کوشش کی تھی لیکن آئی ایم ایف آڑے آگیا۔ رپورٹ میں کوتاہیوں یا خرد برد اور بدعنوانی کی نشاندہی ہوچکی ہے۔ اب حکومت کو ان کی وضاحت کی بجائے ان کے تدارک کے لئے کام کی ضرورت تھی۔ لیکن حسب معمول عمران خان کی حکومت اپنی غلط کاریوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کررہی ہے۔
عمران خان کی باتوں سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ وہ آئیندہ انتخاب بھی سابقہ حکمرانوں کی بدعنوانی اور اخلاقی کمزوریوں کو نمایاں کرکے جیتنا چاہتے ہیں۔ ساڑھے تین سال حکومت کرنے کے بعد بھی ان کے نامہ اعمال میں دکھانے کے لئے کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو درست بتانے کے لئے دوسرے ملکوں سے اشیائے صرف کی قیمتوں کے اعداد و شمار فراہم کئے جاتے ہیں یا محکمہ شماریات کو افراط زر کا ماہانہ جائزہ پیش کرنے سے روکا جاتا ہے۔ منگل کو محکمہ اعداد و شمار نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ نومبر کے دوران قیمتوں میں اضافے کی شرح ساڑھے گیارہ فیصد رہی لیکن راتوں رات اس رپورٹ کو پی بی ایس کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا ۔ اور بدھ کی صبح پریس کانفرنس میں وزیر اطلاعات ٹماٹر پیاز کی قیمتوں کا جائزہ پیش کرکے عوام کو یقین دلا رہے تھے کہ حکومتی کوششوں سے مہنگائی پر قابو پایا جارہا ہے۔
مہنگائی کا یہ ’خاتمہ‘ ویسا ہی ہے جیسا کہ دوسروں کی بدعنوانی کے ذکر سے اپنی چوری کو چھپانے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن حکومت مالی بے قاعدگیوں کو مسترد کرکے سرخرو نہیں ہوسکتی۔ اسے ان کوتاہیوں کا حساب دینا ہوگا۔ صرف نعرے لگانے سے معاملات کی خوشنما تصویر بہت دن تک قائم نہیں رہ سکتی۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ