آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی بار بار یقین دہانی کے باوجود آج پاکستان لہولہان ہے۔ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں عید میلادالنبی کے جلوس میں شرکت کے لیے جمع ہونے والے سینکڑوں لوگوں پر خود کش بمبار کے حملہ میں کم از کم 53 افراد جاں بحق ہوگئے۔ خیبر پختون خوا کے علاقے ہنگو میں دو علیحدہ خود کش بم دھماکوں میں پانچ افراد شہید ہوئے۔ دونوں مقامات پر زخمی ہونے والوں کی تعداد کئی درجن بتائی جاتی ہے۔ ایک خبر کے مطابق تحریک طالبان پاکستان نے ان دھماکوں سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے لیکن داعش نے ان کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
یہ المناک سانحات ایک ایسے وقت دیکھنے میں آئے ہیں جب قوم پیغمبر آخرالزمان ﷺ کا یوم ولادت منارہی تھی۔ صدر عارف علوی اور وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے قومی یک جہتی اور اسوۃ حسنہ پر چلنے کے گرمجوش بیانات جاری کیے تھے اور قومی لیڈر اس موقع پر اتحاد و ہم آہنگی کا سبق یاد کرنے کی تلقین کررہے تھے۔ ان دہشت گرد حملوں کے علاوہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی اطلاع کے مطابق گزشتہ رات دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے بلوچستان میں ژوب کے مقام پر پاک فوج کے 4 جوان شہید ہوگئے۔ اس مقابلہ میں تین دہشت گرد بھی مارے گئے۔ البتہ سکیورٹی فورسز کی اس قربانی کے باوجود بعض دہشت گرد مستونگ میں انتہائی خوفناک خود کش حملہ کرنے میں کامیاب ہوگئے جو ژوب سے 300 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کی حکومت کے دور میں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ جب تک اتحادی ممالک کی افواج امریکہ کی سرکردگی میں افغانستان میں سرگرم عمل تھیں تو پاکستانی حکام کا یہی مؤقف تھا کہ کابل حکومت پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کرتی ہے اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستان میں عدم استحکام کے لیے ان عناصر کی مدد کرتی ہیں۔ کبھی ان الزامات کا کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آسکا البتہ پاکستان کی سرکاری پوزیشن یہی تھی۔ پاک فوج نے دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کے بعد متعدد دہشت گرد گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کی تھی اور آپریشن ضرب عضب کے بعد آپریشن ردالفساد کے ذریعے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملک میں دہشت گردوں کے تمام ٹھکانے ختم کردیے گئے ہیں اور ان کی تنظیمی صلاحیت کو کچل دیا گیا ہے۔
اگست 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے اور عبوری حکومت قائم ہونے سے پہلے اگرچہ پاکستان دہشت گردی سے مکمل طور سے محفوظ نہیں ہوپایا تھا لیکن بڑی حد تک دہشت گردی پر قابو پالیا گیا تھا اور پاکستانی عوام کو اطمینان ہوگیا تھا کہ اب دہشت گرد گروہوں کا قلع قمع کردیا گیا ہے اور وہ اپنے ملک میں اطمینان سے گھوم پھر سکتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں سیاسی اور عسکری قیادت نے گہرے سکھ کا سانس لیا اور عوام کو یہ تاثر دیا گیا کہ اب ہمسایہ ملک میں ایک دوست گروہ کی حکومت قائم ہوگئی ہے جس کے بعد پاکستان کو اس طرف سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ پاکستانی انٹیلی جنس آئی ایس آئی کے سربراہ تو طالبان حکومت قائم ہونے کے ایک ہفتے کے اندر کابل گئے اور ایک بڑے ہوٹل میں صحافیوں کے سوال پر بتایا کہ وہ ’افغانستان میں امن و سلامتی‘ کی خواہش لے کر آئے تھے۔
اس دورہ کے بارے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں ہؤا تھا لیکن عام طور سے یقین کیا جاتا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید طالبان کی قیادت سے بات چیت کرنے اور پاکستان کی طرف سے خیر سگالی کا پیغام لے کر وہاں گئے تھے۔ عام طور سے کسی انٹیلی جنس ایجنسی کی اعلیٰ قیادت کے دوروں کو خفیہ رکھا جاتا ہے لیکن یوں لگتا تھا کہ جنرل فیض حمید کی کابل میں موجودگی کو جان بوجھ کر عام کرنے اور اس کی تشہیر کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اسی لیے وہ کابل کے سیرینا ہوٹل کی لابی میں پاکستانی سفیر منصور علی خان کے ہمراہ چائے نوش کرتے ہوئے دکھائی دیے۔ انہوں نے غیر ملکی صحافیوں سے خیرسگالی کے پیغامات کا تبادلہ بھی کیا اور ایک آدھ سوال کا جواب بھی دیا۔ دو سال بعد پاکستانی آئی ایس آئی کے سربراہ کی کابل کے ہوٹل میں موجودگی کا جائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی فوج اور انٹیلی جنس ادارے دنیا اور خاص طور سے ہمسایہ ملک بھارت کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ کابل پر طالبان حکومت کی صورت میں پاکستان کی دفاعی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے ۔ اس لیے دوست دشمن چوکنا رہیں۔
البتہ تھوڑے عرصے بعد ہی، پہلے سرحد پر لگائی گئی باڑ پر طالبان جنگجوؤں کے حملوں اور پھر تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گرد کارروائیوں میں اضافے سے پاکستان کی یہ خوش فہمی کم ہونے لگی۔ صورت حال پر قابو پانے کے لیے اسلام آباد اور راولپنڈی کے لیڈروں نے افغان طالبان کی تجویز مان کر تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات کا آغاز کیا۔ اس دوران ٹی ٹی پی کے چند ہزار سرگرم کارکنوں کو معافی دے کر پاکستان واپس آنے اور پر امن زندگی گزارنے کا موقع بھی دیا گیا۔ لیکن نہ تو افغان طالبان نے پاکستانی قیادت کے ساتھ اپنے وعدوں کا پاس کیا اور نہ ٹی ٹی پی نے پاکستان کی طرف سے عام معافی کی فراخدلانہ پیش کش کو قبول کرتے ہوئے پاکستانی آئین و قانون کا احترام کرنے اور پرامن شہریوں کے طور پر زندگی گزارنے کا عہد پورا کیا۔ اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس عرصے میں جن عناصر کو پاکستان واپس آکر آباد ہونے کی سہولت دی گئی تھی، انہوں نے اپنے تباہ شدہ ٹھکانے دوبارہ آباد کرلیے اور نئے عناصر کو دہشت گردی کی طرف مائل کرکے پاکستان کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کردیا۔ اب پاکستان ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری کابل حکومت پر ڈالتا ہے اور کابل میں طالبان حکومت کے ترجمان پاکستانی الزام کو مسترد کرکے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ معاہدہ کے مطابق افغان سرزمین پر کسی دہشت گروہ کو منظم ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن اب ان دعوؤں کا کھوکھلا پن پوری دنیا پر عیاں ہوچکا ہے۔
دنیا اور خاص طور سے امریکہ اور مغربی ممالک چونکہ اس وقت افغانستان میں پروان چڑھنے والے دہشت گرد گروہوں کا نشانہ نہیں ہیں ، اس لیے بڑی حد تک پاکستان میں دہشت گردی کے احیا کو پاکستان کا مسئلہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان اور اس کی افواج کو اب اس اندوہناک سچائی کا بھی سامنا ہے کہ دو دہائیوں سے بھی زائد عرصہ کے بعد پہلی بار پاکستان کو اپنے ملک میں دہشت گردی کا تن تنہا مقابلہ کرناہے اور اسے اس حوالے سے کسی دوسرے ملک سے عسکری یا انٹیلی جنس مدد حاصل نہیں ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے دو افغان جنگوں میں پاکستان کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کے بعد اب اسے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ اب مذمت کے اکا دکا بیانات اور اظہار یک جہتی کے لئے دہشت گردی کی مذمت جیسے مصنوعی بیانات تو سننے کو مل جاتے ہیں لیکن ہر آنے والے دن کے ساتھ یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ اس علاقے میں چین کے ساتھ برپا ہونے والی اسٹریٹیجک اور معاشی لڑائی میں امریکہ اور مغربی ممالک کا اصل حلیف بھارت ہے ۔ تعاون و اشتراک کے سب منصوبے اب نئی دہلی کے ساتھ طے پارہے ہیں۔ مغربی ممالک کے عرب حلیف ممالک چین کے مقابلے میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے تیزی سے بھارت میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ اور بھارتی حکومت کے انسانیت کے خلاف جرائم کے باوجود ، عالمی سفارت کاری میں اس کی مذمت سننے میں نہیں آتی ۔ حتی کہ جی20 کے اجلاس میں نئی دہلی آنے والے امریکی صدر جو بائیڈن کو بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ انسانی حقوق کے حوالے سے بات کرنے کا حوصلہ نہیں ہؤا۔
عالمی سیاسست و سفارت میں بھارتی اثر ورسوخ اور طاقت کا اندازہ کینیڈا میں ایک سکھ لیڈر ہردیپ سنگھ نجر کی ہلاکت کے معاملہ پر بھارت کی دیدہ دلیری اور کینیڈا کی بے بسی سے لگایا جاسکتا ہے۔ امریکہ کے پاس یہ سب معلومات موجود ہیں کہ خالصتان کے حامی سکھ لیڈر کی کینیڈا میں ٹارگٹ کلنگ میں بھارت ملوث ہے اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ بھارت اس قتل کی تحقیقات میں تعاون کرے اور اس بات کا جائزہ لے کہ اس کی انٹیلی جنس ادارے کیوں کر ایک کینیڈین شہری کو اسی کے وطن میں قتل کروانے میں ملوث ہوئے۔ لیکن امریکہ اس معاملہ پر کینیڈا کے جائز مؤقف کی کھل کر حمایت کرنے اور ڈٹ کر بھارتی دہشت گردی کی مذمت کرنے کی بجائے مسلسل مفاہمانہ طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہے اور نئی دہلی سے دوستانہ انداز میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس بارے میں کینیڈا کی شکایات سن لے۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے امریکی وزیر خاجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات سے پہلے محض اتنی ’رعایت‘ دی ہے کہ اگر کینیڈا کوئی ٹھوس ثبوت فراہم کرتا ہے تو نئی دہلی حکومت ان پر غور کرے گی۔
یہ صورت حال پاکستان کے لیے لمحہ فکر ہونی چاہئے کیوں کہ امریکی نگاہوں میں پاکستان اسی چین کا حلیف ہے جس کے خلاف بھارت کو ساتھ ملاکر معاشی و اسٹریٹیجک محاصرہ کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو یہی خبر نہیں کہ اسے امریکہ کے ساتھ چلنا ہے یا حقیقی معنوں میں چین کا حلیف بن کر اپنی بارگیننگ پوزیشن کو مستحکم کرنا ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ دار ہونے کی وجہ سے پاکستان نے نہ صرف اپنے ملک میں دہشت گردی گروہوں پنپنے کا موقع دیا بلکہ اس کے نتیجے میں پروان چڑھنے والی مذہبی انتہاپسندی کے منفی اثرات کا سامنا بھی اس وقت پاکستان ہی کو ہے۔ ملکی معیشت اس جنگ کی وجہ سے کھوکھلی ہوچکی ہے۔ عسکری قیادت امریکی امداد کے سہارے ملکی سیاست پر حاوی رہنے کی عادی بن چکی ہے ۔ اور ملک میں گروہی تقسیم مذہبی منافرت کے علاوہ ، اب سیاسی بنیادوں پر معاشرے کو تقسیم کررہی ہے۔ امریکی امداد بند ہونے کے بعد اب ملکی دفاع کا انحصار بھی آئی ایم ایف کی اعانت اور دوست ممالک کی فراخدلی پر ہے۔ تاہم حکمران یہ طے کرنے میں ناکام ہیں کہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی موجودہ صورت میں اس وقت جو سنگین خطرہ درپیش ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کون سا نظام حکومت ضروری ہے۔ اور وہ کون سا پلیٹ فارم ہو جس پر تمام ادارے اور سیاسی و مذہبی گروہ مل بیٹھ سکیں اور ملکی مسائل حل کرسکیں۔
اس کے برعکس انتشار، نفرت، ٹکراؤ اور تعصب کا کھلا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ پاکستان مالی لحاظ سے دیوالیہ اور سفارتی طور سے تنہا ہے۔ قوم قیادت سے محروم ہے اور فوج کو عوام میں اپنی پزیرائی ثابت کرنے کے لیے گیلپ سروے کے اعداد و شمار کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ایسے میں کیا مستونگ میں دہشت گردی کا واقعہ قومی قیادت کی آنکھیں کھولنے اور کسی ٹھوس حکمت عملی کی طرف پیش قدمی کا موجب بن سکے گا؟ یہ ممکن ہے لیکن اس کے لیے ہر سطح اور ہر شعبہ کی قیادت کو فراخدلی سے کام لے وسیع تر قومی جذبے سے ایک دوسرے کے ساتھ احترام کا رشتہ استوار کرنا ہوگا تاکہ ملک اور عوام کے دشمنوں کا مل کر مقابلہ کیا جاسکے۔ یہ عیاں ہے کہ قومی یک جہتی صرف نعروں سے حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے لیے اپنے اپنے خول سے باہر نکل کر ایک بڑے مقصد کے لیے کام کرنا ہوگا۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ