پاکستان کی کتھک ڈانسر شیما کرمانی کو کراچی میں برطانیہ کے ڈپٹی ہائی کمیشن کی ایک تقریب کے دوران غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے پر باہر نکال دیا گیا۔اسرائیلی فوج کی بربریت اور حکومت کی ہٹ دھرمی کے سامنے امریکہ اور اس کے ہمنوا مغربی ممالک کی ہیکڑی نکل چکی ہے۔ 7 اکتوبر کو حماس کے حملہ کودہشت گردی قرار دیتے ہوئے ان ممالک کو 13 ہزار فلسطینیوں کی شہادت اور شہری آبادیوں پر مجرمانہ بمباری پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔
آزادی رائے اور بنیادی حقوق کے چمپئین ممالک نہایت ڈھٹائی اور بے حسی سے اسرائیل کو دہشت گردی کے مدمقابل ’مظلوم‘ ملک ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔ حتی کہ جنگ اور انسانوں کی ہلاکت کے خلاف معمولی آواز بلند کرنے کو بھی آداب مجلس کے خلاف قرار دیا جاتا ہے۔ اسی لئے کراچی میں برطانیہ کے مشن میں جب شیما کرمانی نے تقریب کے دوران میں ’جنگ بند کرو‘ کا نعرہ لگایا تو ان کی بات سننے یا مہذب طریقے سے انہیں مناسب وقت پر بات کرنے کا مشورہ دینے کی بجائے، ترش رو گارڈز نے ذبردستی انہیں باہر نکالنے کی کوشش کی ۔ شیما کرمانی کہتی ہیں کہ اس پر ’میں نے ان سے کہا کہ مجھے ہاتھ نہ لگائیں، میں خود ہی چلی جاتی ہوں‘۔
حیرت ہے کہ برطانوی مشن کے ترجمان نے اس وقوعہ پر کسی شرمندگی اور بدحواسی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے یہ دعویٰ کیا کہ’ شیما کرمانی کو چلانے سے منع کیا گیا تھا لیکن انہوں نے تقریب سے جانا مناسب سمجھا بلکہ بعد میں عملہ سے معذرت بھی کی‘۔ برطانوی مشن کا یہ دعویٰ حقیقی صورت حال سے لگا نہیں کھاتا۔ اگر پاکستانی فنکار کو معذرت ہی کرنا تھی تو انہیں بھری مجلس میں فلسطینیوں کے خلاف ظلم پر آواز اٹھانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ آخر تقریب میں موجود دوسرے درجنوں لوگ بھی تو خاموشی سے وہاں بیٹھے غیر متعلقہ تقریروں کو پوری انکساری سے سن ہی رہے تھے۔ ممکن ہے کہ باہر نکلتے ہوئے مہذب انداز میں شیما کرمانی نے سکیورٹی اہلکاروں سے کہا ہو کہ انہیں اس سانحہ پر افسوس ہے، جسے ترجمان نے بعد میں شیما کرمانی کی ’معذرت ‘ کے طور پر پیش کیا۔
جو ممالک اپنے مسلمہ جمہوری و انسانیت کے دعوؤں کے باوجود نہتے شہریوں، خواتین اور بچوں اور ہسپتالوں میں داخل مریضوں کے ساتھ روا رکھے گئے انسانیت سوز سلوک پر خاموش ہوں، ایسے کسی ملک کے پاکستان میں مشن سے سوائے جھوٹ اور فریب دہی کے کیا امید کی جاسکتی ہے۔ البتہ شیما کرمانی نے اس واقعہ کے بعد بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے اپنے احتجاج کی وجہ بیان کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ’ سب لوگ کھڑے ہوئے تھے۔ اس وقت برطانیہ کے سفارت کاروں کی تقاریر چل رہی تھیں۔ میں نے تقریر کے دوران میں ’سیز فائر ناؤ‘ (جنگ بند کرو) کا نعرہ لگایا۔ کیوں کہ مجھے ان کی تقریر میں دلچسپی نہیں تھی۔ بلکہ میں ان کی توجہ اس بات کی طرف دلوانا چاہتی تھی کہ آپ لوگ غزہ میں جاری نسل کشی کی بات تو کریں‘۔
برطانوی مشن میں منعقد تقریب ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے تھی۔ شیما کرمانی کا کہنا ہے کہ ’میں وہاں کہنا چاہ رہی تھی کہ آپ ماحولیاتی تبدیلی کی بات کیسے کر سکتے ہیں ، جب آپ نے جنگ کی صورت پیدا کی ہوئی ہے۔ وہاں (غزہ میں) آپ فاسفورس بھی پھینک رہے ہیں، آپ لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں تو آپ تو کلائمیٹ میں خون پھیلا رہے ہیں‘۔ ان کا کہنا ہے کہ میں یہ سب پہلے سے سوچ کر نہیں گئی تھی بلکہ یہ میرا فوری ردعمل تھا کہ ہم یہاں تقریب میں بیٹھے ہیں لیکن ایک ظلم کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا۔ شیما کا کہنا ہے کہ ’وہ سمجھتی ہیں کہ فلسطین کے مسئلہ پر خاموش نہیں رہا جا سکتا۔جس طریقے سے ہماری آنکھوں کے سامنے نسل کشی ہو رہی ہے، اس کو ہم کیسے خاموشی سے دیکھ سکتے ہیں۔ میں اس پر توجہ دلانا چاہتی تھی۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ نے سیز فائر کے خلاف ووٹ ڈالا جبکہ ان کے عوام سیزفائر کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جو بھی انسان دل رکھتا ہے وہ اس پر خاموش رہ ہی نہیں سکتا‘۔
البتہ سیاست اور عالمی سفارت کاری کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اسرائیلی حکومت اپنے ہی لوگوں سے اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے حماس پر سارا الزام ڈال کر غزہ پر وحشیانہ بمباری جاری رکھے ہوئے ہے۔ شمالی غزہ میں فوج کشی کے بعد وہاں کے سب سے بڑے ہسپتال الشفا پر یہ دعویٰ کرتے ہوئے قبضہ کرلیا گیا ہے کہ اس کے نیچے حماس نے سرنگوں کا جال بچھایا ہؤا ہے۔ اب کبھی چند صحافیو ں کو اسرائیلی فوجیوں کے نرغے میں لے جاکر یک طرفہ خبر عام کر وانے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی جعلی یا تحریف شدہ ویڈیو اور تصاویر جاری کرکے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے حماس کی سرنگوں کا سراغ لگا لیا ہے ۔لیکن نہ تو اس علاقے کو امدادی کارکنوں کے لیے کھولا جاتا ہے اور نہ ہی میڈیا کو آزادی سے موقع پر رپورٹنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ امریکی اور دیگر مغربی ممالک کے ہمدرد اور یک طرفہ طور سے اسرائیل کے ساتھ وفاداری نبھانے والے میڈیا کے سہارے البتہ دنیا بھر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ضرور کی جا رہی ہے۔ اسرائیل کی فراہم کردہ خبروں کا سچائی سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا کراچی کے برطانوی مشن میں جنگ بندی کی آواز بند کرنے کی کوشش کرنے والی حکومتوں کا آزادی رائے یا انسانی حقوق سے ہوسکتا ہے۔
ایک طرف دنیا بھر کے عوام کو یہ جھانسہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اسرائیل تن تنہا ایک خطرناک دہشت گرد گروہ حماس کے ساتھ نبرد آزما ہے ۔ اسی دعوے کی آڑ میں امریکہ نے بحیرہ روم میں اپنے بحری بیڑا پہنچا یا ہے۔ اور گولہ بارود اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہتھیار فراوانی سے اسرائیل کو فراہم کیے جارہے ہیں۔ اسرائیل غیرمشروط سفارتی حمایت اور کثیر جنگی امداد کے بل بوتے پر گزشتہ43 دن سے غزہ کے نہتے و مظلوم شہریوں پر گولہ و بارود کی بارش کررہا ہے۔ اس چھوٹے سے علاقے میں محصور پچیس لاکھ انسانوں کے لیے پانی، غذا اور توانائی کی سپلائی بند کردی گئی ہے اور عالمی برادری کی طرف سے امدادی کارروائیوں میں مسلسل رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یک طرفہ جنگ جوئی میں پہلے شمالی غزہ خالی کرنے کا حکم دیا گیا ۔ جب دس بارہ لاکھ لوگ کسی نہ کسی طرح جنوب کی طرف کوچ کرگئے تو اب انہیں خان یونس اور دیگر جنوبی علاقے خالی کرکے مغرب کی طرف جانے کا حکم دیا جارہا ہے۔ امریکہ ، برطانیہ اور ان کے ہمنوا ان تمام انسانیت سوز اقدامات کو اسرائیل کے حق دفاع کا نام دے کر برداشت کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ لیکن اسرائیل کے ظلم ، فلسطینیوں کی نسل کشی کی صورت حال اور امریکی و مغربی ممالک کی اصولوں سے عاری پالیسی کو صرف مسلمان ممالک یا غریب ملکوں میں ہی مسترد نہیں کیا جارہا بلکہ تمام چھوٹے بڑے مغربی ممالک میں تسلسل سے اس ظلم کو روکنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر احتجاج ہورہے ہیں ۔ سیاسی حکومتوں سے ہوش کرنے اور انسانوں کو بچانے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
شیماکرمانی نے بھی ایک سچے فنکار کے طور پر یہی بات برطانوی سفات کاروں کے گوش گزار کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اپنی حکومتوں کی ناجائز پالیسیوں کے ہاتھوں مجبور یہ سرکاری عہدیدار ایک نحیف خاتون کی طرف سے ’جنگ بند کرو‘ جیسا معصوم مطالبہ بھی خاموشی اور وقار سے سننے کا حوصلہ نہیں کرسکے۔ حالانکہ یہ آواز کسی ایک پاکستانی کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کے تمام انسان دوست لوگ اس ایک مطالبے پر متفق ہیں کہ جنگ بندی کے سوا اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے۔ امریکہ کے علاوہ سکیورٹی کونسل میں ویٹو اختیار رکھنے والے برطانیہ و فرانس سمیت سب ممالک کو یہ معلوم ہے کہ اسرائیل اپنی تمام تر جنگی صلاحیت استعمال کرکے بھی حماس یا دیگر شدت پسند گروہوں کو ختم نہیں کرسکتا کیوں کہ یہ جنگ بجائے خود شدت پسندی کو فروغ دینے کا سبب بن رہی ہے۔ امن و سلامتی کے لیے جنگ نہیں ، فراخدلانہ مفاہمت اور ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ فلسطینیوں پر اسرائیل مخالف ہونے الزام لگا کر ان کی نسلوں کو مٹادینے کا اقدام کرنے والی صیہونی ریاست البتہ خود فلسطینیوں کے علیحدہ وطن کا حق تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اوسلو معاہدہ میں دو ریاستی حل پر آمادگی ظاہر کرنے اور اپنے تمام حلیف ممالک کے واضح مؤقف کے باوجود اسرائیلی حکومت مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیاں بسانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اور آباد کاروں کو فلسطینیوں کے خلاف ہمہ قسم جرائم کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ آباد کار آئے دن فلسطینیوں کو ہلاک کرتے ہیں اور ان کی املاک پر قبضہ کرلیتے ہیں۔
ایک طرف حماس کو نیست و نابود کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے تو دوسری طرف قطر کے ذریعے حماس سے ہی یرغمالی لوگوں کی رہائی کے لیے جنگ بندی سمیت دیگر امور پر اتفاق رائے کے لیے مذاکرات ہورہے ہیں۔ اسرائیل کے علاوہ اس کے سہولت کار امریکہ کی اس پالیسی سے واضح ہوجاتا ہے کہ اصل مسئلہ حماس نہیں ہے بلکہ اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیاں ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ جمایا جاسکے۔ 7 اکتوبر کو اسرائیلی شہریوں کے خلاف حماس کی کارروائی ناجائز اور دہشت گردی تھی لیکن اب اسرائیل کس منہ اسی دہشت گرد گروہ سے کچھ باتیں منوانے کے لیے بہت سی شرائط ماننے پر آمادہ ہے۔
گولہ بارود کے شور، انسانوں کی آہوں اور بہتے خون کی صورت حال میں کوئی اسرائیل کی اس دوغلی حکمت عملی پر سوال نہیں اٹھاتا۔ اسرائیل کو فوری طور سے غزہ میں جنگ بند کرکے اس علاقے کو خالی کرنا چاہئے۔ شیما کرمانی کے اس مطالبے میں کرہ ارض کے تمام انسانوں کی آواز شامل ہے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ