مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ ’ہم انتخاب جیت کر اقتدار حاصل کرنا نہیں چاہتے بلکہ ہم ملک کو نقصان پہنچانے والے عناصر کا احتساب چاہتے ہیں‘ ۔ پارٹی کے پارلیمانی بورڈ سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے پاکستان کو مشکلات کے گرداب سے باہر نکالنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کی خواہش بھی ظاہر کی۔ انہوں نے پارٹی کے امیدواروں سے کہا کہ ’وہ عوام کی تقدیر بدلنے کا جذبہ لے کر عملی سیاست میں قدم رکھیں۔ خدمت کا جذبہ ہو گا تو ملک کی تقدیر ضرور بدلے گی‘ ۔
ایک طرف اقتدار ملنے کے بعد ملکی خوشحالی کے دعوے اور دوسری طرف یہ اصرار کہ مسلم لیگ (ن) اقتدار حاصل نہیں کرنا چاہتی بلکہ احتساب کو اہمیت دیتی ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’دوسروں کو چور کہنے والا خود سب سے بڑا چور نکلا‘ ۔ اس حوالے سے القادر ریفرنس کا حوالہ بھی دیا گیا۔ اس ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا ہے عمران خان نے وزیر اعظم کے طور پر برطانوی حکومت کی طرف سے ملک ریاض پر عائد جرمانہ کے 190 ملین پاؤنڈ سرکاری خزانے میں جمع کرنے کی بجائے، انہیں سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں ایڈجسٹ کرنے کی اجازت دی تھی تاکہ یہ وسائل بحریہ ٹاؤن پر عائد جرمانہ کی مد میں شامل ہوجائیں۔ اس کے بدلے میں القادر یونیورسٹی کے منصوبہ کے لیے فوائد و تحائف حاصل کیے گئے تھے۔
نواز شریف خود چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کے خلاف قائم مقدمات میں انہیں یکے بعد دیگرے مراعات مل رہی ہیں۔ اگرچہ سپریم کورٹ براہ راست ایک حکم میں نواز شریف کو سیاست میں حصہ لینے سے تاحیات نا اہل قرار دے چکی ہے لیکن اس کے باوجود نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کا خیال ہے کہ شہباز شریف کے دور میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے چونکہ اسمبلی سے نا اہلی کی مدت پانچ سال مقرر کی گئی ہے، اس لیے نواز شریف کے کاغذات نامزدگی قبول کرانے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوگی۔ تاہم کسی مشکل کی صورت میں اگر عدالتوں تک معاملہ جاتا ہے تو قیاس کیا جا رہا ہے کہ تبدیل شدہ ماحول میں اعلیٰ عدلیہ نواز شریف کے حق میں فیصلہ دے کر ماضی میں ان کے ساتھ ہونے والی ’نا انصافی‘ کی تلافی کرے گی۔
ملک میں انتخابی نتائج، مسلم لیگ (ن) کی سیاسی طاقت اور ممکنہ حکومت سازی کے حوالے سے بظاہر اور درپردہ اعانت کے بارے میں جو رائے عامہ بنائی جا رہی ہے، اس کی روشنی میں یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بھی اب اس راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں بنے گی۔ مسلم لیگ (ن) میں بہت عالی دماغ لوگ ہوں گے، خود شریف خاندان میں ایک سے ایک بڑا طرم خان موجود ہے لیکن نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم بنوانے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے، اگر عدالتی نظام سے قبل از وقت واضح فیصلہ لے لیا جاتا تو بعد از وقت پیش آنے والی خفت سے بچا جاسکتا تھا۔ یہ محض قیاس آرائی ہے کہ نواز شریف آسانی سے قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوسکتے ہیں۔ لیکن احتیاطاً یہ مان لینے میں کیا مضائقہ تھا کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت انہیں تاحیات نا اہل قرار دے چکی ہے۔ اس لئے تبدیل شدہ سیاسی ماحول کے باوجود ماضی کا یہ حکم نامہ ان کے راستے کی رکاوٹ بھی بن سکتا ہے۔
تاآنکہ نواز شریف یا مسلم لیگ (ن) کے اعلانات درپردہ منصوبوں کے بر عکس ہوں، یہ قیاس کر لینا عاقبت نااندیش حکمت عملی ہوگی کہ دو ماہ کی مدت میں ہونے والے انتخابات میں شرکت کے لیے نواز شریف کسی دقت کے بغیر چوتھی بار وزیر اعظم بن جائیں گے۔ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلوں میں دیے گئے ریمارکس اور احکامات کا چرچا کر کے خود کو مظلوم ضرور ثابت کیا جاتا ہے لیکن نواز شریف کو ان غلطیوں پر بھی غور کرنا چاہیے جو اس کیس کے حوالے سے ان سے سرزد ہوئیں۔ سب سے پہلے پاناما پیپرز اسکینڈل سامنے آنے کے بعد اس سے سیاسی طور سے نمٹنے کی بجائے، عدالت کو ’ثالث‘ بنانے اور مان لینے کی غلطی کرنا، سپریم کورٹ کی مقرر کردہ جے آئی ٹی کے سامنے بطور وزیر اعظم پیش ہو کر خود کو کمزور ظاہر کرنا یا ایون فیلڈ فلیٹس کے منی ٹریل کے بارے میں ٹھوس شواہد فراہم کرنے یا حقیقی صورت حال بیان کرنے کی بجائے قطری خط جیسے ڈھکوسلوں پر انحصار کر کے، یہ امید کر لینا کہ سپریم کورٹ اسے تسلیم کر لے گی۔ تاہم نواز شریف اور ان کے سیاسی و قانونی مشیروں کی یہ غلطی ناقابل فہم ہے کہ حکومت میں ہونے کے باوجود یہ اندازہ نہیں کیا جا سکا کہ اسٹبلشمنٹ بہر صورت نواز شریف سے گلو خلاصی کا فیصلہ کرچکی ہے اور سپریم کورٹ بھی اس خواہش کی تکمیل میں حصہ ڈالنے پر تیار ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ جرنیلوں یا ججوں نے نواز شریف پر ظلم کیا تو اس سچائی کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود نواز شریف حقیقی معاملات سے بے خبر رہے اور ان سے نمٹنے کے لیے عدالتی حکم آنے سے پہلے کوئی متبادل سیاسی راستہ اختیار نہیں کرسکے۔ مثلاً اگر سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے نواز شریف وزارت عظمی سے استعفی دے دیتے یا قومی اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کر دیتے تو انہیں شاید نہ تو گزشتہ پانچ برس کے دوران پیش آنے والی سیاسی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا اور شاید وہ جیل جانے سے بھی محفوظ رہتے۔ نواز شریف کے دشمن خواہ کیسے ہی عیار اور طاقت ور تھے لیکن اس بحران میں نواز شریف نے خود سیاسی ناپختگی کا ثبوت دیا۔
ایک بار پھر نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی خواہش میں حکمت عملی کی ویسی ہی غلطی کر رہے ہیں۔ عام شہری کے لیے یہ ناقابل فہم ہو گا کہ نواز شریف کو اگر ’کنگ میکر‘ بننے کا موقع مل رہا ہے تو وہ خود ہی کیوں اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہونا چاہتے ہیں۔ اور اپنے کسی ساتھی کو اس عہدے کے لیے نامزد کر کے سیاسی مخالفین کے الزامات کو ناکارہ کیوں نہیں بناتے؟ اسی طرح وہ پہلے 2017 میں اپنی حکومت کے خلاف کی جانے والی سازش میں شامل جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کی بات کرتے تھے۔ آج کی تقریر میں انہوں نے احتساب کا جو پیمانہ مقرر کیا ہے، اس میں صرف عمران خان کو سزا دلانا مطلوب ہے۔ عرف عام میں اسے احتساب نہیں انتقام کہا جائے گا۔
نواز شریف نے پارٹی کے پارلیمانی بورڈ سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کو ’مہا چور‘ کا خطاب دیا ہے اور ساتھ ہی دعوی کیا ہے کہ ’وہ عوام کی خوشحالی کا کام کرنا چاہتے ہیں، اقتدار ان کا مقصد نہیں ہے۔ بلکہ احتساب ان کا مطمح نظر ہے‘ ۔ اس بیان کو مسلم لیگ (ن) کا سیاسی منشور سمجھتے ہوئے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام اندازوں برعکس (بلکہ اپنے بیانات میں کیے گئے دعوؤں کے مطابق بھی) نواز شریف انتخاب جیتنے کے بعد قومی تعمیر کے مقصد سے تحریک انصاف سمیت سب سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مفاہمانہ طرز عمل اختیار کریں گے اور دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے۔ انتخابی نتائج کے بعد اگرچہ دھاندلی کے الزامات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن امید ہے کہ ملکی معروضی حالات میں تمام سیاسی پارٹیاں انتخاب میں واضح برتری حاصل کرنے والی مسلم لیگ (ن) کی طرف سے تعاون و مفاہمت کی پیش کش کو رد نہیں کریں گی۔
نواز شریف نے آج کے بیان میں ایسی تمام امیدوں کا خون کیا ہے۔ اب لگتا ہے وہ محض عمران خان سے انتقام لینے کے لیے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ اگرچہ وہ کہہ رہے ہیں کہ اقتدار ان کا مقصد نہیں ہے لیکن ان کی حکمت عملی واضح کرتی ہے کہ نواز شریف نہ صرف اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ اہم ترین عہدے یعنی وزارت عظمی کے لیے کسی دوسرے پر ’بھروسا‘ کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔ ایک بار پھر وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی خواہش ہوگی کہ عمران خان کو اپنے خلاف سیاسی گٹھ جوڑ کا حصہ بننے پر ’عبرتناک‘ سزا دلوائی جائے۔ اور انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے لیے نا اہل قرار دلوایا جائے۔ اب نواز شریف اپنے ’اصل‘ دشمنوں کو بھول چکے ہیں۔ اب ان کا ’نظریہ احتساب‘ عمران خان سے آگے سوچنے کی صلاحیت سے محروم دکھائی دیتا ہے۔
حالانکہ اس کے برعکس امید کی جا رہی تھی کہ نواز شریف نے طویل سیاسی سفر کیا ہے۔ وہ اقتدار میں بھی رہے اور انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ اس لیے اگر وہ ملکی اسٹبلشمنٹ کی طاقت و بالادستی کی وجہ سے سیاسی سازشیں کرنے والے ’جرنیلوں اور ججوں‘ کو سزا نہ بھی دلا سکے تو کم از کم سیاست دانوں کو وقار و احترام دلانے کے لیے ضرور کام کریں گے۔ اس طرح وہ ایک پارٹی کے قائد کی بجائے پورے ملک کا لیڈر بن جائیں گے۔ اور ان کی وسیع النظری اور وسیع القلبی ملک و قوم کو انتقام اور عداوت کی سیاست سے نجات دلانے میں کردار ادا کرے گی۔ حتی کہ یہ امید بھی کی جا رہی تھی کہ اس مرحلے پر نواز شریف کے پیش نظر اقتدار نہیں بلکہ تاریخ میں نام بنانے کی تمنا ہوگی۔
اس موہوم امید کے برعکس نواز شریف نے اقتدار ملنے پر ایک پارٹی بلکہ ایک خاص لیڈر کو تمام جرائم کا ذمہ دار سمجھ کر سزا دلانے کا عزم کیا ہے اور اسے ’احتساب‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ یہ بیان ملکی سیاست کو تصادم اور ٹکراؤ کے ایک نئے عہد میں داخل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ