اسرائیل جس راہ پر گامزن ہے اس کے خود اسرائیل کی بقا کے لیے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اسرائیلی فیصلہ ساز اور تجزیہ کار اس بابت کیا کہتے ہیں ؟ آج ان ہی کی نگاہ سے دیکھا جائے۔
اسرائیل میں ایک انتہا پسند مذہبی لابی صاف صاف کہتی ہے کہ دریاِ اردن سے بحیرہ روم تک کی جس زمین کا وعدہ ہم سے خدا نے ہزاروں برس پہلے کیا اس زمین میں کسی بھی غیر یہودی کا وجود گوارا نہیں۔اس لابی کا صیہونیوں سے واحد اختلاف یہ ہے کہ صیہونی ایک بین الاقوامی سرحد کے اندر جدید سیکولر قومی اسرائیلی ریاست چاہتے ہیں جب کہ مذہبی لابی سرحدوں سے بالا وہ تمام خطہ چاہتی ہے جس کا آسمانی وعدہ کیا گیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ صیہونیت میں بھی دایاں اور بایاں بازو پیدا ہو گیا۔کسی زمانے میں بائیں بازو کی لیبر پارٹی ہی سیکولر صیہونیت کی علمبردار تھا اور انیس سو اڑتالیس سے انیس سو ستتر تک مسلسل اسی کی حکومت رہی۔
مگر انیس سو ستتر میں لیخود پارٹی پہلی بار اقتدار میں آئی اور برطانوی نوآبادیاتی ریکارڈ کے مطابق سابق دھشت گرد مینہم بیگن اور ان کے دھشت گرد ساتھی ایتزاک شمیر یکے بعد دیگرے وزیرِ اعظم بنے۔ان کے بعد ایریل شییرون اور بنجمن نیتن یاہو کا دور آتا ہے۔
لیخود بھی صیہونی نظریے کو اسرائیل کی بنیاد کے طور پر مانتے ہیں مگر بائیں بازو کے برعکس ان کا جھکاؤ انتہائی دائیں بازو کے متشدد گروہوں کی جانب زیادہ ہے۔اس کی مثال موجودہ حکومت ہے جو خود اسرائیلی تجزیہ کاروں کے نزدیک پچھتر برس میں برسرِ اقتدار سب سے انتہا پسند مذہبی و سیاسی مخلوط حکومت ہے۔
اگرچہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق مقبوضہ علاقوں کی زمینی ہیت میں کوئی بھی رد و بدل غیرقانونی ہے۔تاہم مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کے عمل کو روکنے کے بارے میں سوچنا کسی بھی اسرائیلی حکومت کے لیے خودکشی کے برابر ہے۔
خود اسرائیلیوں کی اکثریت کا جھکاؤ بھی مشرقی یورپ سے یہودیوں کی مسلسل آمد کے سبب وقت کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے بجائے دائیں بازو کی جانب ہوتا چلا گیا۔
اس کا ایک ثبوت انیس سو پچانوے میں لیبر وزیرِ اعظم ایتزاک رابین کا ایک یہودی انتہاپسند کے ہاتھوں قتل ہے۔کیونکہ قاتل فلسطینیوں سے امن سمجھوتہ کرنے والے رابین کو قوم کا غدار سمجھتا تھا۔لیخود اور دیگر مذہبی جماعتیں اور اسرائیلی آباد کار تنظیمیں بھی قائل ہیں کہ فلسطینیوں کو ایک انچ زمین بھی واپس کرنا غداری ہے۔بلکہ فلسطینیوں نے اس زمین پر قبضہ کر رکھا ہے جو دراصل ہماری ملکیت ہے۔
اس پس منظر میں مٹھی بھر اسرائیلی صاحب الرائے خبردار کرتے رہتے ہیں کہ اپنے ہی سحر میں مبتلا ہو کے آنکھیں بند کیے توسیع پسندی اور مسلسل جابرانہ پالیسیوں پر چلتے چلتے ایک دن اسرائیل اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ گہری کھائی میں جا گرے گا۔عربوں کے پاس تو زمین چھننے کے باوجود آس پاس رہنے کی جگہ ہو گی مگر اسرائیلی یہاں سے کہاں جائیں گے ؟
اسرائیلی بحریہ کے ایک سابق کمانڈر انچیف اور انیس سو پچانوے تا دو ہزار داخلی سلامتی کے ذمے دار ادارے شن بیت کے سربراہ ایمی عائلون ریٹائرمنٹ کے بعد سے موجودہ اسرائیلی پالیسیوں کے سرکردہ ناقدوں میں شمار ہوتے ہیں۔انھوں نے اکتوبر دو ہزار انیس میں شکاگو میں امریکی یہودیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا،
’’ ہم اسرائیل کے اندر ایک ایسے ماحول میں رہتے ہیں جو اردگرد کے معروضی حالات کو شفاف انداز میں دیکھنے سے قاصر ہے۔فاصلے سے چیزیں زیادہ واضح نظر آتی ہیں۔لہٰذا آپ (امریکی یہودی) پر بطور اسرائیل کے مخلص حمائیتیوں کے یہ ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اسرائیلی قیادت کو برابر ان خطرات سے آگاہ کرتے رہیں جو آپ یہاں بیٹھ کے بہتر طور پر دیکھ سکتے ہیں۔
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اگر اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو آنکھیں بند کر کے آگے بڑھاتی رہی اور ایک آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی تو کبھی دشمنی و مخاصمت سے چھٹکارا ملے گا اور نہ ہی اسرائیل کو سکون نصیب ہو گا۔
ایک وقت ایسا آئے گا کہ اسرائیل انھی پالیسیوں کے بوجھ سے زمیں بوس ہو جائے گا۔ایک نسلی و مقامی گروہ ( فلسطینی ) کو مسلسل دبا کے رکھنا اسرائیلی بقا اور اس کی جمہوریت کے لیے سنگین ترین خطرہ ہے۔یہ پالیسی نہ صرف ہمیں علاقائی و بین الاقوامی طور پر بتدریج تنہا کر دے گی بلکہ عالمی سطح پر یہود دشمنی کو مزید بڑھائے گی۔
ہم نے اب تک بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔مثلاً متعدد عرب ممالک بشمول پی ایل او ہمارا وجود تسلیم کر چکے ہیں اور عرب لیگ کے دیگر ارکان بھی ہمیں انیس سو سڑسٹھ سے پہلے کی سرحدوں کے اندر تسلیم کرنے پر تیار ہیں۔ہم نے انیس سو اناسی میں مصر سے اور انیس سو چورانوے میں اردن سے امن سمجھوتہ کیا۔فلسطینی اتھارٹی ہم سے مکمل تعاون کر رہی ہے۔مگر ہم ہیں کہ مسلسل مقبوضہ علاقوں میں آبادکار بستیاں بڑھائے چلے جا رہے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا رویہ اور سخت ہوتا چلا جا رہا ہے۔اگر ہم نے جلد راستہ نہ بدلا تو آگے اندھیرا ہے اور وقت تیزی سے گذر رہا ہے ‘‘۔
سرکردہ اسرائیلی مصنف اور صحافی آری شاویت کے بقول ’’ صرف انسان ہی نہیں بعض اوقات ریاستیں بھی خودکشی کر لیتی ہیں۔بطور اسرائیلی بچپن سے مجھے خوف کی گھٹی پلائی گئی۔یعنی اگر ہم نے آنکھیں کھلی نہ رکھیں تو ہمارے وحشی ہمسائے تکا بوٹی کر دیں گے اور آگے بس سمندر ہے وغیرہ وغیرہ۔
جوں جوں وقت گذرتا گیا امن سمجھوتوں کے باوجود خوف کم ہونے کے بجائے بڑھتا گیا۔ہمیں اپنی تعداد ہمیشہ کم لگی اور ہم اسے بڑھاتے چلے گئے۔
اگر ہم نے اب بھی کچھ دیر تھم کر تنقیدی جائزہ لینے کا آخری موقع بھی گنوا دیا تو دو ہزار پچیس تک مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادکاروں کی تعداد ساڑھے سات لاکھ ہو جائے گی۔پھر یہ ممکن ہی نہ ہوگا کہ اتنی زمین بچ جائے جس پر ایک قابلِ عمل فلسطینی ریاست بن سکے۔پھر ہماری بقا کی دو ہی صورتیں ہوں گی۔ یا تو ہم ایک خالص اپارتھائیڈ ریاست بن جائیں اور جمہوریت کو الوداع کہہ دیں یا پھر ایک دو قومی ریاست بن جائیں۔
دوسری صورت میں ایک وقت ایسا آئے گا کہ اسرائیل میں عرب اکثریت میں ہوں گے اور پھر ہمیں وہی جمہوریت بری طرح کاٹے گی جس کو آج ہم اپنے سینے کا تمغہ بنائے پھرتے ہیں۔یہ وقت آنے سے بہتر ہے کہ ابھی ہم دو قومی ریاست کا فارمولا دل سے مان لیں۔جب دونوں ممالک کی اقتصادیات آپس میں جڑیں گی تو پشتینی دشمنی کا زہر بھی کم ہوتا چلا جائے گا۔باقی سب راستے تباہی کی طرف جاتے ہیں ‘‘۔
سابق اسرائیلی وزیرِ خارجہ آنجہانی ابا ایبان کا مقولہ ہے ’’ اسرائیل نے کبھی بھی موقع ہاتھ سے جانے کا موقع ضایع نہیں کیا ‘‘۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ