شکایتیں تو سب پرانی ہیں اور مقصد بھی صرف ایک ہی ہے۔ البتہ اب تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اپنے ’مطالبات ‘ براہ راست آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام ایک کھلے خط میں بیان کیے ہیں جن کے بارے میں چئیرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی کا کہنا ہے کہ یہ خط جلد ہی عوام کے لیے جاری کردیا جائے گا۔ عمران خان نے خط میں دعویٰ کیا ہے کہ فوج اور عوام میں دوری پیدا ہوچکی ہے اور اسے ختم کیے بغیر ملک کو بچایا نہیں جاسکتا۔
خط میں افواج پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’ یہ فوج اور ملک ہمارا ہے۔ ہم انتشار نہیں چاہتے‘۔ اس وعدے کے ساتھ جو شکایتیں آرمی چیف تک پہنچائی گئی ہیں، ان میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ فوج اس وقت غیر نمائیندہ حکومت کی حمایت کررہی ہے جس کی وجہ سے عوام میں بے چینی پیدا ہوئی ہے اور فوج کے بارے میں بدگمانیاں جنم لے رہی ہیں۔ اس لیے ملک و قوم کے بہترین مفاد میں سابق وزیر اعظم اور ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے بانی کے طور پر وہ یہ اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ فوجی سربراہ کو صورت حال کی سنگینی سے آگاہ کریں تاکہ حکمت عملی تبدیل کی جاسکے۔
اس خط کے جو مندرجات بیرسٹر گوہر علی اور عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری کے حوالے سے میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں، ان سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ تحریک انصاف کے بانی اور اپنے تئیں ملک کے سب سے مقبول لیڈر عمران خان یہ بیان کررہے ہیں کہ ملک میں صرف فوج ہی ایک طاقت ہے اور ا س کی مرضی کے بغیر سیاسی، عدالتی اور انتظامی معاملات میں پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ انہوں نے اس خط میں فوج کو طاقت کا منبع وسرچشمہ قرار دیتے ہوئے یہ درخواست کی ہے کہ فوج کو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنی پالیسی تبدیل کرلینی چاہئے تاکہ ملک میں انتشار و بے چینی کی کیفیت ختم ہوسکے۔
اگرصرف اس ایک نکتہ پر غور کرتے ہوئے اس خط کا جائزہ لینے اور اس کے اثرات سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ طویل عرصہ تک ملک میں آئینی جمہوریت کے لیے جد و جہد کا دعویٰ کرنے اور اپنے کارکنوں کے علاوہ عوام کو یہ جھانسہ دینے کے بعد کہ عمران خان ’جبر کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں‘ اور ’حقیقی آزادی‘ سے کم پر کبھی راضی نہیں ہوں گے خواہ اس کے لیے انہیں اپنی جان ہی کیوں قربان نہ کرنی پڑے۔ یا ساری زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی کیوں نہ گزارنا پڑے۔ البتہ اب کوئی ایسی انہونی رونما ہوئی ہے کہ اتنے ’عزم و استقلال‘ کا دعویٰ کرنے والا لیڈر آرمی چیف سے دست بستہ درخواست کررہا ہے کہ انہوں نے ملک کی قیادت کے لیے جو وزیر اعظم ’چنا‘ ہے، وہ درست فیصلہ نہیں ہے۔ وہ ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے اور عوام اس ’غلطی ‘ پر فوج سے ناراض ہورہے ہیں۔ عمران خان چونکہ فوج کے حقیقی مداح و خیر خواہ ہیں لہذا وہ اس صورت حال میں خاموش نہیں رہ سکتے اور آرمی چیف کو ایک خط کے ذریعے وہ معلومات فراہم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں جو شاید کسی وجہ سے ان کی خدمت میں پیش نہ کی گئی ہوں۔
عمران خان اس خط میں یہ تاثر دیتے دکھائی دیتے ہیں جیسے وہ کسی آزاد ملک کے باشندے نہیں ہیں بلکہ برطانوی عہد میں جی رہے ہیں اور شاہ کی وفا پرستی کا اعتراف کرتے ہوئے ’وائسرائے‘ کو خط کے ذریعے رحم کرنے اور داد رسی کی اپیل کررہے ہوں۔ اگرچہ تحریک انصاف کے وفادار عمران خان کو سیاسی لیڈر نہیں بلکہ ’مرشد‘ مانتے ہیں جو کبھی کوئی غلطی نہیں کرسکتا، اس لیے یہ گمان تو نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک انصاف کا کوئی لیڈر، کارکن یا پارٹی کا کوئی ادارہ اس خط کے بارے میں پریشانی ، تشویش اور دکھ کا اظہار کرے گا ۔ یااسے عمران خا ن کی ذاتی رائے قرار دے کر واضح کرے گا کہ تحریک انصاف جمہوریت پر یقین کرنے والی ایک سیاسی پارٹی ہے جس نے دگرگوں حالات میں بھی سیاسی جد جہد کی ہے اور مستقبل میں بھی وہ کسی غیر قانونی یاغیر آئینی طریقے سے اقتدار تک پہنچنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ اس کی بجائے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یکے بعد دیگرے تمام لیڈر اور سوشل میڈیا پر مورچے سنبھالے پی ٹی آئی یا عمران خان کے ’جنگجو‘ اس درخواست نما خط کو اپنے لیڈر کی جرات و بہادری کے ایک نئے ثبوت کے طور پر پیش کریں گے۔ حالانکہ خط کا مکمل متن سامنے نہ ہونے کے باوجود پارٹی کے لیڈروں نے جو معلومات فراہم کی ہیں، ان پر منت سماجت اور اپیل کے الفاظ تو صادق آتے ہیں لیکن اسے کسی قسم کی دھمکی یا سیاسی وارننگ کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
عمران خان اور ان کے عالی دماغ مشیروں کو بھی خبر ہوگی کہ آرمی چیف کی طرف سے اس خط کا کوئی جواب موصول نہیں ہوگا اور نہ ہی پاک فوج اپنے طرز عمل میں تبدیلی کرے گی۔ نظر بظاہر فوج نے جو پالیسی اختیار کی ہوئی ہے اس کے مطابق وہ آئین کی پابند ہے اور اسی کے تحت اس پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، انہیں پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ انہی آئینی فرائض میں حکومت وقت کے احکامات کی پابندی اور اس کے فیصلوں کو نافذ کرنے میں معاونت کرنا شامل ہے۔ البتہ دو روز پہلے چیف جسٹس پاکستان کو اسی نوعیت کا خط لکھنے کے بعد اب آرمی چیف کے نام خط لکھنے کا ایک ہی فوری مقصد سمجھ آتا ہے کہ عمران خان کسی بھی طرح خبروں میں رہنا چاہتے ہیں تاکہ یہ تاثرقوی کیا جاسکے کہ ان کے سوا اس ملک کی سیاست میں کوئی نام یا کام قابل ذکر نہیں ہے۔
یوں بھی عمران خان نے چند روز پہلے ہی 18 صفحات پر مشتمل ایک خط چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو روانہ کیا تھا جس کے ساتھ تحریک انصاف پر ہونے والے مظالم کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے 300 صفحات پر مشتمل دستاویزات بھی لف کی گئی تھیں۔ ایسے طویل خط اور سنگین الزامات کے بعد کسی بھی معقول درخواست گزار پر لازم تھا کہ وہ اس پر غور کا مناسب وقت دیتا۔ تاہم اب اسی عنوان اور مقصد سے آرمی چیف کو خط لکھ دیا گیا ہے۔ گویا چیف جسٹس سے رحم اور انصاف مانگنے کے بعد دو تین دن بعد ہی عمران خان نے طے کرلیا کہ انہیں انصاف کی نہیں ’حکم نامے‘ کی ضرورت ہے جو عدالت سے نہیں بلکہ آرمی چیف کی طرف سے جاری ہوسکتا ہے۔ اسی لیے اب آرمی چیف کو مخاطب کیا گیا ہے۔ اس خط کے بعد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو سمجھ لینا چاہئے کہ انہیں لکھا گیا خط اب ’غیر ضروری‘ ہوگیا ہے کیوں کہ درخواست دہندہ نے طاقت کے ’اصل و حقیقی‘ مرکز سے رجوع کرنے کا ارادہ باندھ لیا ہے۔
کوئی جج یا عدالت عمران خان اور تحریک انصاف سے اسی کی زبان میں گفتگو کرنا چاہے تو آرمی چیف کے نام خط کے بعد ان سے یہ استفسار کیا جاسکتا ہے کہ کیا وہ یہ اعلان کررہے ہیں کہ فیصلوں کا مرکز درحقیقت جی ایچ کیو ہے اور عدالتیں محض زیلی داروں کی حیثیت رکھتی ہیں؟ قانونی و آئینی طور سے تو ملک میں ابھی تک یہ صورت حال موجود نہیں ہے۔ عدالتیں نہ صرف 26 ویں آئینی ترمیم بلکہ پیکا قانون میں ترامیم کے معاملہ پر بھی غور کررہی ہیں اور ان کے بارے میں ابھی کوئی عدالتی حکم سامنے نہیں آیا۔ تاہم عمران خان کے تازہ خط کے مندرجات کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ یقین کرنا پڑے گا کہ کوئی عدالت فوج کے اشارے کے بغیر کوئی حکم صادر نہیں کرسکتی۔ اسی لیے اب عمران خان نے آرمی چیف سے براہ راست اپیل کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے۔
یوں تو ملکی سیاست دانوں نے آئین و قانون کی بھد اڑانے اور ذاتی مفاد پانے کے لیے ہر آسان راستہ اختیار کیا ہے لیکن ایک آئینی انتظام میں جب پارلیمنٹ بھی کام کررہی ہے جس میں تحریک انصاف کے اراکین بھی بظاہر فعال دکھائی دیتے ہیں، عدالتیں بھی کام کررہی ہیں، سیاسی ادارے بھی اسی طریقے سے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں جو کہ عمومی آئینی طریقہ ہے ، ایک سابق وزیر اعظم فوج اور عوام میں پیدا ہونے والے نام نہار فاصلے پر اس حد تک دل گرفتہ ہوگیا کہ وہ اسی آرمی چیف کے سےدست بستہ درخواست گزر ہونے پر مجبور ہے جس کی تقرری رکوانے کے لیے اسلام آباد پر دھاوا بول کر محاصرہ کرنے کا عزم و ارادہ کیا گیا تھا۔ ذبردست عوامی مقبولیت کے دعوؤں کے باوجود عمران خان بھی اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے اور بعد میں تحریک انصاف کی متعدد ایسی کوششیں بھی ناکام رہیں۔ اس ناکامی کی ایک ہی قابل فہم وجہ بیان کی جاسکتی ہے کہ عمران خان یا تحریک انصاف پر زور اپیلوں، پروپیگنڈے اور زور آزمائی کے باوجود کسی موقع پر عوام کی بڑی تعداد کو گھروں سے نکل کر سیاسی احتجاج پر آمادہ نہیں کرسکے۔ عمران خان البتہ اس سچ کو ماننے سے انکار کریں گے۔
ملک میں سب اچھا نہیں ہے۔ نہ شہباز شریف کی حکومت مثالی ہے اور نہ ہی اس کا طرز حکمرانی جمہوریت و آئین کے بنیادی اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی سیاسی پارٹی ملک کے اداروں کو اس حکومت کا تختہ الٹنے اور یک طرفہ طور سے نظام تبدیل کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے۔ ایسا کوئی بھی طریقہ درحقیقت ملک میں جمہوریت کی رہی سہی امید بھی ختم کرنے کا موجب بنے گا۔ سیاسی طریقوں سے گریز کرتے ہوئے تحریک انصاف نے نہایت بھونڈے انداز میں حکومت سے مذاکرات ختم کیے اور اس کے بعد عمران خان نے پہلے چیف جسٹس اور اب آرمی چیف کو امداد کے لیے پکارا ہے۔ فوج اور عوام کے درمیان کمزور تعلق پر آنسو بہانے سے پہلے عمران خان کو یہ بتانا چاہئے تھا کہ فوج اور آرمی چیف کے خلاف سوشل میڈیا پر جھوٹ اور نفرت پر مبنی مہم چلانے والے کون سے عناصر ہیں۔ اگر یہ تحریک انصاف کے کل پرزے نہیں ہیں تو یہ کون لوگ ہیں۔ عمران خان کو بتانا چاہئے کہ ان کا اداروں، اور اہم افراد کے خلاف ہتک آمیز نفرت پھیلانے والوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ ان عناصر کو ویسے ہی ملک و قوم کا دشمن سمجھتے ہیں جیسا کہ آرمی چیف اور پاک فوج کے ترجمان بیان کرتے رہتے ہیں۔
عمران خان کو انصاف ملنا چاہئے، تحریک انصاف کے خلاف ریاستی جبر ختم ہونا چاہئے، عدالتوں کو زیادہ مؤثر طریقے سے مقدمات کے فیصلے کرنے چاہئیں ۔ لیکن عمران خا ن کوبھی باور کرنا چاہئے کہ صرف وہی فیصلہ انصاف نہیں ہوتا جو عمران خان کی مرضی کے مطابق تحریر کیا جائے۔ اسی طرح امپائر کی انگلی اٹھنے اور فوج کے ساتھ ایک پیج پر آنے کا زمانہ اب بیت چکا ہے۔ اب انہیں جو بھی حاصل کرنا ہے ، وہ فوج کو راضی کرنےسے نہیں بلکہ عوام کی حمایت سے ملے گا۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ مقبولیت کے دعوؤں اور سب سے بڑی پارٹی ہونے کے اعلانات کے باوجود تحریک انصاف نئے انتخابات کرانے کی بات نہیں کرتی۔ اس بوالعجبی کی بھی کچھ وجوہات تو ہوں گی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ