پاکستانی سیاست کے حوالے سے کسی بھی قسم کا مؤقف رکھنے والے اس بات پر بہر حال متفق ہوں گے کہ 25 جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات ملک کی انتخابی تاریخ میں اہم ترین واقعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس بار پہلی بار یہ انتخابات دو جماعتوں یا سیاسی قوتوں کی بجائے تین پارٹیوں کے درمیان ہوں گے۔ دوسرے اس بار ووٹر سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کے معاملہ پر اپنی رائے ظاہر کرے گا۔
سیاست میں تین بڑی سیاسی قوتوں کی موجودگی متوازن اور صحت مند جمہوری ارتقا کے لئے یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ روائیتی طور پر ماضی کے انتخابات میں دو ہی سیاسی قوتیں آمنے سامنے ہوتی رہی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے کے دور سے بھٹو مخالف اور حامیوں کی شروع ہونے والی تقسیم ضیاالحق کے آمرانہ دور حکومت اور پالیسیوں کی وجہ سے زیادہ مستحکم ہوئی ۔ بھٹو مخالف سیاست کی نمائندگی کرنے کے لئے نواز شریف ابھر کر سامنے آئے جنہوں نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور پھر ملک کے وزیر اعظم کےطور پر بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہر قسم کا مناقضہ کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ اس رویہ سے 90 کی دہائی میں تصادم اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی سیاست نے جنم لیا تاہم جب نواز شریف اور بے نظیر کو پرویز مشرف کی آمریت میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑا تو دونوں لیڈروں نے مئی 2006 میں چھ نکاتی میثاق جمہوریت پر متفق ہو کر پاکستان کی سیاست میں مفاہمت اور باہمی احترام کی سیاست کی بنیاد رکھنے کی کو شش کی ۔ بد قسمتی سے بے نظیر بھٹو کو دسمبر 2007 میں شہید کردیا گیا ۔ ان کے جانے کے بعد 2008 میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں سامنے آنے والی پارلیمنٹ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مخلوط حکومت بنا کر میثاق جمہوریت کی روح کو زندہ رکھنے کی وقتی کوشش ضرور کی۔ لیکن ججوں کی بحالی کے سوال پر ہونے والے اختلافات کے باعث دونوں پارٹیوں کی راہیں جدا ہو گئیں۔ اس کے بعد میمو گیٹ اسکینڈل میں نواز شریف کے کردار نے آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان جو سیاسی اور ذاتی فاصلہ پیدا کیا، میثاق جمہوریت میں کئے گئے وعدے اور دعوے بھی اس کو پاٹنے میں ناکام رہے۔ تاہم اس دوران پیپلز پارٹی اپنی متعدد پالیسیوں اور 2008 سے 2013 کے دوران اقتدار میں رہنے کے باوجود سیاسی نتائج دینے میں ناکامی کے سبب اپنی مقبولیت سے محروم ہوتی چلی گئی۔ پیپلز پارٹی کا یہ ’زوال‘ اب تک جاری ہے اور متعدد تجزیہ نگار جولائی میں ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی سے کسی بڑی کامیابی کی توقع نہیں کرتے۔ اس کے باوجود اس بات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی آئیندہ انتخابات میں 2013 کے مقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
پیپلز پارٹی اگر انتخابات میں 50 سے زائد نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اسے مستقبل کی قومی اسمبلی میں اہم سیاسی پارٹی کی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔ یہ نمائندگی اس کی سابقہ کاکردگی کے مقابلہ میں تقریباً دو گنا ہو گی۔ اس طرح یہ قیاس کرلینا ور کہنا کہ پیپلز پارٹی نے 2013 میں زوال کا جو سفر شروع کیا تھا وہ مسلسل ڈھلوان کی طرف جاری ہے درست نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری سال رواں کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر سامنے آکر پیپلز پارٹی کے پارلیمانی گروپ کی قیادت کرسکتے ہیں۔ اس طرح پارٹی کو ایک مستعد نوجوان لیڈر کی قیادت میں کام کرنے کا موقع ملے گا جو اس کے لئے امکانات کے نئے مواقع پیدا کرسکے گا۔ تاہم آصف علی زرداری نے نواز شریف کے ساتھ سیاسی حساب برابر کرنے کے لئے بلوچستان میں اکثریتی پارٹی کی حکومت گرانے اور پھر سینیٹ اور اس کے چئیر مین کے انتخابات کے موقع پر جس طرح اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دینے اور ’اسکرپٹ ‘ کے مطابق حکمت عملی اختیار کرنے کا جو رویہ اختیار کیاہے اس سے پیپلز پارٹی کی سیاسی نمائیندگی بہتر ہونے کے باوجود اسے انقلاب پسند حامیوں اور اینٹی اسٹبلشمنٹ ووٹ کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لیڈر ضیا الحق کے دور سے اسٹبلشمنٹ کی سیاست کا نمائیندہ بنا ہؤا تھا، اب وہی ملک میں جمہوریت اور اسٹبلشمنٹ مخالف سیاست کا قائد بن چکاہے۔ نواز شریف کے حوالے سے یہ کہنا ضرور عجیب لگتا ہے کہ وہ سیاست میں فوج کی مداخلت اور اداروں کی طرف سے منتخب سویلین حکومت کے اختیار کو چیلنج کرنے کے رویہ کے خلاف تحریک کی قیادت کر رہے ہیں ۔ لیکن پاکستان میں گزشتہ ایک برس کے دوران رونما ہونے والے واقعات نے نواز شریف کو یہ کردار تفویض کیا ہے اور اسے انہوں نے اپنے سیاسی نعروں ’ مجھے کیوں نکالا‘ اور ’ ووٹ کو عزت دو ‘ کے ذریعے عوام میں تسلیم بھی کروالیا ہے۔ اس لئے اس بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ جولائی میں ہونے والے انتخاب میں اینٹی اسٹبلشمنٹ ووٹ جو روایتی طور پر پیپلز پارٹی کو ملتا تھا ،اب نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) حاصل کرسکتی ہے۔
تاہم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مناقشت سے قطع نظر گزشتہ 5 برس کے دوران عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی جماعت نے مقبولیت اور اہمیت حاصل کی ہے۔ عمران خان نے سیاسی جد و جہد کا آغاز صاف ستھری سیاست متعارف کروانے اور ملک کو متبادل قیادت فراہم کرنے کے نعرے کے ساتھ کیا تھا جسے وہ ’نیا پاکستان‘ تعمیر کرنے کا نام دیتے رہے ہیں۔ لیکن طویل سیاسی جد و جہد اور 2013 کے انتخابی نتائج سے غیر ضروری طور پر وابستہ کی جانے والی توقعات میں ناکامی کی وجہ سے ان کی سیاست نظریاتی سے زیادہ اسی موقع پرستی کی علامت بن گئی ہے جس پر عمل کرتے ہوئے ملک کے باقی سیاست دان اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ عمران خان کسی نئے سیاسی ایجنڈا کو سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوئے لیکن انہوں نے ذاتی دیانت کے حوالے سے ضرور ایک خاص مزاج ترتیب دیا ہے اور ملک کے باقی ماندہ سیاست دانوں کے مقابلے میں انہیں دیانت دار شخص مانا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کو ابھی تک حکومت میں آنے کا موقع نہیں ملا۔ ایک بار اقتدار ملنے کے بعد ان کی ذات کے حوالے سے یہ تصور تبدیل ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ عمران خان کی سیاست میں اہم تبدیلی پارٹی میں الیکٹ ایبلز کو قبول کرنے کے علاوہ انہیں انتخابات جیتنے کے لئے اہم ترین ہتھکنڈا سمجھنے کی غلطی ہے۔ پارٹی کا نظریاتی اور پرجوش ورکر آنے والے انتخابات میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم پر احتجاج کررہا ہے جس کے مناظر بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر مظاہرہ کرنے والوں کی صورت میں دیکھے بھی جاسکتے ہیں۔ اس کے باوجود عمران خان کی سیاسی قوت اور مقبولیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ تحریک انصاف کو کنگز پارٹی سمجھا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود ملکی سیاست میں ایک تیسری بڑی سیاسی قوت کا سامنے آنا طویل المدت جمہوری پراجیکٹ کے لئے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ تحریک انصاف 2018 کے انتخابات میں کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے اور اس کامیابی کے بعد اس کی قیادت کا سیاسی رویہ کیا ہوگا۔ عام قدامت پسندانہ اندازوں کے مطابق تحریک انصاف 60 سے80 کے درمیان نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔ جبکہ عمران خان 2013 کی طرح سیاسی سونامی برپا کرنے اور مخالف پارٹیوں کو شکست فاش دینے کے دعوؤں کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔ دیکھنا ہو گا کہ وہ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں بہتر سیاسی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد سیاسی مہارت اور مصالحانہ حکمت عملی کا مظاہرہ کرسکیں گے یا بار گزشتہ کی طرح دھاندلی اور مختلف بہانوں سے احتجاج کی سیاست جاری رکھیں گے۔ انتخابات کے بعد عمران خان کے طرز عمل اور تحریک انصاف کے اشتراک یا انتشار سے ہی یہ طے ہو سکے گا کہ ملک میں دو پارٹیوں کی بجائے مستقل طور سے تین سیاسی قوتیں وجود میں آرہی ہیں یا مقابلہ بدستور دو سیاسی دھڑوں کے درمیان ہی رہے گا۔ اس صورت میں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اب ملک میں بھٹو کے حامی اور مخالف ووٹر کی تقسیم ختم ہو چکی ہے اور جولائی کا انتخاب نواز شریف مخالف یا حامی ووٹر کی نئی تقسیم کا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔
جولائی میں منعقد ہونے والے انتخابات کے حوالے سے البتہ دوسری اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کو انتخابات میں اہم نعرے کی حیثیت حاصل ہوگی۔ اس وقت تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی اپنی حکمت عملی کے اعتبار سے اسٹبلشمنٹ کی حامی سیاسی پارٹیوں کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں اور نواز شریف آئین کی بالادستی اور منتخب سویلین حکومت کو اختیار دلوانے کی تحریک کی قیادت کررہے ہیں۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے مسلسل یہ خبریں سامنے آتی ہیں کہ شہباز شریف کی قیادت میں یہ پارٹی اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کی بجائے مفاہمت کے ذریعے مستقبل کے سیاسی اقتدار میں حصہ لینے کی کوشش کررہی ہے۔ اس بارے میں بھی شبہات موجود ہیں کہ نواز شریف اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کے لئے کس حد تک جاسکتے ہیں۔
یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اسٹبلشمنٹ کیا مسلم لیگ (ن) کو سیاست سے باہر کرنے کا تہیہ کرچکی ہے یا پارٹی اور قومی سیاست میں صرف نواز شریف کے کردار کو محدود کرنے کی خواہاں ہے۔ اس حوالے سے البتہ شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) میں نواز شریف مخالف دھڑے کا المیہ یہ ہے کہ ووٹر اب بھی نواز شریف کے ساتھ ہے اور ان کا احتجاجی لب و لہجہ ان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ کا سبب بھی بن رہا ہے۔ ایسی صورت میں شہباز کی بجائے مریم نواز ووٹر کو اپیل کرنے اور اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست کے حوالے سے اپنے باپ کی اصل سیاسی جانشین کے طور پر سامنے آئیں گی۔ 37 روز بعد منعقد ہونے والے انتخابات طے کریں گے کہ مستقبل کی سیاست میں اداروں کی مداخلت محدود ہوگی یا اس میں اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ اسی طرح یہ انتخابات نواز شریف سے زیادہ مریم نواز کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔
(بشکریہ: کاروان ۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ