اس سانحہ کو 38 برس بیت گئے۔ ایک نسل گزر چکی۔ وہ لوگ یا تو اللہ کو پیارے ہوئے یا زندگی کی آخری دہلیز پر سانس لے رہے ہیں، جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھا اور ان کے طرز سیاست اور حکومت کا تجربہ کیا تھا۔ بھٹو کے بارے میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے اور بہت کچھ کہا جاتا رہے گا۔ بہت سے لوگ ذوالفقار علی بھٹو کو غلطیوں سے پاک اور لازوال سچائی کا پیکر قرار دیتے رہیں گے اور بہت سوں کو ان کے متعدد فیصلوں میں سیاسی غرض و غایت بھی دکھائی دے گی۔ اختلاف رائے کا یہ فاصلہ پاٹا نہیں جا سکتا۔ اسے بہرطور برقرار رہنا ہے۔ قوم بمشکل اس مرحلے کو عبور کرنے کی کوشش کر رہی ہے جہاں فیصلے یا سیاسی وابستگی کا اعتراف کسی پروگرام یا منشور کے مطابق یا کسی سیاسی لیڈر سے تعلق کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ اس بنیاد پر ہوتا رہا ہے کہ کون بھٹو کا حامی ہے اور کون بھٹو کا مخالف ہے۔ بھٹو کا نام نسل در نسل لوگوں کے دلوں میں حرارت پیدا کرتا رہے گا لیکن ایسی نسلیں بھی پروان چڑھتی رہیں گی جو ان کی سیاسی غلطیوں کی گوشمالی کرتے ہوئے، ان کی خوبیوں کو ماننے سے انکار کرتی رہیں گی۔ اس اختلاف اوردوری کے باوجود ایک بات پر سب متفق ہیں کہ 4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ ناانصافی اور سنگدلی پر مبنی تھا۔ اب اس سنگدلی کو تسلیم کرنے والوں میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے بھٹو کی پھانسی کے بعد فوجی آمر ضیا الحق کی سرپرستی میں سیاسی میدان میں آگے بڑھنے کا موقع حاصل کیا۔ یا ایک مقبول لیڈر کے منظر نامہ سے غائب ہو جانے کے بعد فوجی حکومت کے ساتھ مل کر حکمرانی کا وہ خواب پورا کیا جو کسی بھی جمہوری عمل میں پورا ہونے کا امکان نہیں تھا۔ ملک کی پارلیمنٹ متفقہ طور پر ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دے چکی ہے۔ بھٹو کی مخالفت میں دفتر سیاہ کرنے والے صحافی بھی اب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ سیاسی تھا اور اس کا کسی جرم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ اندوہناک فیصلہ کرنے والے اکثر لوگ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اب اپنے رب کے حضور پیش ہو چکے ہیں اور ان کی سزا اور جزا کا فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن بھٹو کے ساتھ ہونے والے ظلم کو تسلیم کرنے کے باوجود اس کی تلافی کےلئے کوئی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔
کیا اہل پاکستان اور ان کے رہنماؤں کےلئے بھٹو زندہ باد کا نعرہ لگانا، اس کی برسی پر فاتحہ خوانی کرنا اور یہ تسلیم کرنا کافی ہے کہ ایک گمراہ فوجی حکمران نے ذاتی مفاد اور سیاسی حرص کی وجہ سے عدالتوں پر دباؤ ڈال کر بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کروایا اور پھر اس پر عمل کروا کے اپنے نامہ اعمال میں ابدی سیاہی کا اضافہ کیا۔ نہیں یہ نعرہ اور یہ اقرار کسی بھی زندہ قوم کےلئے ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے کےلئے کافی نہیں ہے۔ نہ اس ملک کے سیاستدان صرف عدالتی قتل کا عذر بتا کر اور بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہو سکتے ہیں۔ نہ دانشور اور صحافی ان حقائق اور واقعات کو سامنے لا کر اس کوتاہی کی تلافی کر سکتے ہیں جو ایک بے گناہ کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے کےلئے گھڑے گئے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نہ ہی ملک کی سب سے بڑی عدالت اس وقت تک انصاف کرنے اور قانون کا احترام کرنے کا اعلان کر سکتی ہے جب تک یہ تو مانا جاتا رہے گا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ناحق پھانسی دی گئی تھی لیکن اس بیان یا اقرار یا اعتراف کی حقیقت سیاسی نعرے سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اور جب تک عدالت خود ماضی میں کئے گئے انصاف کے خون کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کرے گی۔ دنیا بھر میں عدالتیں غلط فیصلے دیتی ہیں۔ بعض اوقات قتل جیسے اہم جرم میں غلط شخص کو نامزد کر دیا جاتا ہے۔ شواہد اور واقعات بھی بظاہر اس کے خلاف ہوتے ہیں اور اسے اس گناہ کی پاداش میں سزا بھی ہو جاتی ہے، جو اس نے کبھی کیا ہی نہیں۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ اتفاق سے یا کسی گناہ گار کا ضمیر جاگنے کی بدولت یہ سچ سامنے آتا ہے کہ اس جرم میں غلط شخص کو سزا دی گئی تھی۔ وہ شخص سزا بھگت کر جیل سے رہا ہو چکا ہوتا ہے یا بعض صورتوں میں زندگی کی گھڑیاں پوری کرکے داعی اجل کو لبیک کہہ چکا ہوتا ہے۔ لیکن معاشرہ کا نظام اور انصاف کو یقینی بنانے والے ادارے ، اسی معاملہ کو از سر نو عدالت کے سامنے لے کر آتے ہیں۔ نئے شواہد پیش ہوتے ہیں۔ بے گناہی ثابت کی جاتی ہے اور غلط الزام میں سزا پانے والے کو باعزت بری کیا جاتا ہے۔ عدالت یہ اعتراف کرتی ہے کہ ماضی میں بوجوہ غلط فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس پر شرمندگی کا اظہار کیا جاتا ہے اور ریاست تلافی کے طور پر ایسے شخص یا اس کے خاندان کو معقول معاوضہ ادا کرتی ہے۔ یوں ایک ناانصافی کا اعتراف باقاعدہ ریکارڈ کا حصہ بنتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ اس واقعہ سے سبق سیکھ کر آئندہ ویسی ہی غلطیوں کا ارتکاب کرنے سے گریز کیا جائے۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا اعتراف تو سب کرتے ہیں لیکن اس کے ازالے کےلئے کوئی اقدام دیکھنے میں نہیں آتا۔ اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہوگی کہ ملک کی پارلیمنٹ نے اس المناک قتل کے 30 برس بعد یہ تسلیم کرنے کا حوصلہ کیا کہ یہ عدالتی قتل تھا۔ اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی اپنی صاحبزادی دو مرتبہ ملک کی وزیراعظم رہیں لیکن اس خوف کی وجہ سے بھٹو کے ساتھ ہونے والے ظلم پر آواز اٹھانے کی کوشش نہیں کی گئی کہ اس طرح ملک کی اسٹیبلشمنٹ ناراض ہو جائے گی اور پیپلز پارٹی کو حکومت کرنے کا جو موقع ملا تھا وہ ضائع ہو جائے گا۔ یعنی سیاسی مصلحت کےلئے انصاف کے تقاضوں سے منہ موڑنا قبول کر لیا گیا۔ لیکن یہی پارٹی ہر دور میں بھٹو شہید کی قربانی کا نعرہ بلند کرتے ہوئے عوام سے ووٹ طلب کرتی رہی ہے۔ کیا اس پارٹی کو گزشتہ 30 برس کے دوران ملنے والے ہر ووٹ کا یہ تقاضہ نہیں ہے کہ اس بات کو عدالتی طریقہ کار سے طے کیا جائے کہ ذوالفقار علی بھٹو بے قصور تھا اور عدالتوں نے اصول قانون، شہادتوں اور دلائل سے گریز کرتے ہوئے ایک آمر کی خوشنودی کےلئے نہ صرف ایک انسان کا قتل کیا بلکہ انصاف کا خون بھی بہایا۔ لیکن وہ سب لوگ اس خوں ریزی میں شریک سمجھے جائیں گے جو بوجوہ اس ناانصافی کو ختم کروانے کےلئے کوئی قدم اٹھانے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ 2008 میں انتخاب جیتنے کے بعد ضرور پیپلز پارٹی نے بھٹو کے عدالتی قتل کے خلاف قرارداد منظور کروائی اور اس مقدمہ کو سپریم کورٹ میں دوبارہ اٹھانے کی کوششوں کا آغاز کیا تھا۔ لیکن کیا پیپلز پارٹی کی قیادت اس کا سارا بوجھ عدالتی نظام اور بے حس ججوں کے سر پر ڈال کر اپنے فرض سے عہدہ برآ ہو سکتی ہے؟ ملک کی موجودہ سپریم کورٹ نظریہ ضرورت کو دفن کرنے کی دعویدار ہے۔ 2007 کی بحالی عدلیہ تحریک کے بعد سے ایک کے بعد دوسرے چیف جسٹس نے یہ اعلان کیا ہے کہ عدالتیں آزاد ہیں۔ وہ صرف قانون کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کریں گی۔ انہوں نے ماضی کی طرح سیاسی مصلحتوں کا خیال رکھنے اور فوج کے دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ عوام کے مفادات اور قانون کی حفاظت کرنے کی ذمہ دار ہے اور کوئی فیصلہ ان اصولوں کے برعکس نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاناما کیس جیسے اہم معاملہ میں پوری قوم (باہمی اختلافات کے باوجود)اس بات پر متفق ہے کہ عدالت انصاف کرے گی۔ کسی کو یہ گمان نہیں ہے کہ حکومت کے دباؤ یا سیاسی حالات کی مجبوری کی وجہ سے سپریم کورٹ کوئی ایسا فیصلہ کرے گی جو انصاف اور قانون کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہوگا۔ لیکن کیا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور باقی ماندہ جج صاحبان نہیں جانتے کہ بے گناہ پھانسی پر جھول جانے والے ذوالفقار علی بھٹو کی روح بھی عدل کے ان ہی ایوانوں میں بھٹک رہی ہے۔ کیا ایک ایسی ناانصافی جس پر اب بلا التزام ملک و قوم کا ہر شخص متفق ہے کہ اس معاملہ میں لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے بدنیتی پر مبنی تھے ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تلافی کئے بغیر ملک کی سپریم کورٹ قانون کی بالادستی قائم کرنے کا دعویٰ کر سکتی ہے۔
ملک کے حکمران جو درحقیقت بھٹو کی پھانسی کے بعد پیدا ہونے والے خلا میں پروان چڑھے لیکن تیس برس کی سیاسی مشقت کے بعد یہ سمجھنے کے قابل ہوئے کہ حق حکمرانی عوام کے ووٹوں سے تفویض ہوتا ہے اور ملک کے کسی ادارے کو اس حق کو غصب کرنے کا موقع نہیں دیا جا سکتا۔ جو اب اس آواز میں آواز ملاتے ہیں کہ بھٹو کی پھانسی عدالتی قتل تھا۔ لیکن کیا وہ عوام کے مینڈیٹ کے تقاضے پورے کر رہے ہیں۔ کیا ان پر یہ فرض عائد نہیں ہوتا ہے کہ قانون بدلنا پڑیں یا نظام کی کمزوری دور کرنا پڑے اس بات کا بہرطور اہتمام ہونا چاہئے کہ 1979 میں ہونے والے ایک ایسی بے انصافی کا تدارک کیا جائے جس کا خمیازہ پوری قوم بھگتتی رہی ہے اور شاید اب تک بھگت رہی ہے۔
بھٹو کا نام لے کر سیاست چمکانے والے ہوں یا اسے شہید کہہ کر اپنی سیاسی وسیع الظرفی کا اعلان کرنے والے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ارکان ہوں یا سپریم کورٹ میں منصف کے عہدوں پر فائز صاحبان بصیرت ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ 4 اپریل کا ڈھلتا سورج ان سے ایک ہی سوال کرتا ہے کہ کیا وہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی تلافی کئے بغیر اپنے دعوؤں کو سچا اور اپنے مناصب کی ذمہ داریوں کو پورا کر سکیں گے۔ اس سوال کا جواب دیئے بغیر، بے گناہ کے ساتھ ہونے والے ظلم کا اعتراف اور ظالموں کا حساب کئے بغیر اس ملک میں عدل و انصاف اور قانون و آئین کی باتیں بے مقصد اور ناقابل اعتبار رہیں گی۔
(بشکریہ کاروان ۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ