اُن دنوں میں پریمیر ٹیکسٹائل ملز میں ملازم تھا ۔ صبح چھ بجے اُٹھ کر پیدل چلتا سات بجے مل میں پہنچ جاتا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی لائل پور کے صدر میاں محمد اقبال پریمیر ٹیکسٹائل ملز کی ٹریڈ یونین کے بھی صدر تھے جس کی وجہ سے مل میں مجھے تھوڑی بہت سہولت میسر تھی ۔ لہذا میں چار بجے کی بجائے دو بجے ہی چھٹی کرکے مقامی اخبار روزنامہ پیغام میں کام کرنے چلا جاتا، جس کے ایڈیٹر میرے بہت ہی عزیز دوست غلام نبی پرویز تھے۔ پنجاب میں سیلاب نے تباہی پھیلائی ہوئی تھی ۔ اور شہزاد احمد کے اس شعر کی تصویر بنا ہوا تھا:
میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر
کانپ اُٹھتا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر
ایک ہفتے سے خبریں مل رہی تھیں کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب لائل پور میں سیلاب کی لائی ہوئی تباہی کا جائزہ لینے آ رہے ہیں ۔ ایک رات میں خبرنامہ سے خبر بنا رہا تھا کہ غلام نبی پرویز نیوز روم میں داخل ہوئے اور کہا ”مسعود کل بھٹو صاحب شہر میں آ رہے ہیں تم کو صبح 11 بجے ائیر پورٹ جانا ہے۔ کوریج کے لئے“۔۔ میں کچھ پریشان ہو گیا ۔ کیونکہ اس ماہ میں نے مل سے کافی چھٹیاں کی تھیں۔ اب مزید چھٹی نہیں لے سکتا تھا ۔۔ بہر حال میں نے رات گیارہ بجے گھر آکر اپنی سفید قمیض کو دھو کر سکھانے کے لئے ڈال دیا ۔ صبح استری کو گیس کے چولہے پہ گرم کرکے قمیض کو پریس کیا اور ملز میں ڈیوٹی کے لئے نکل پڑا ۔۔ ابھی میں نے دروازے کی دہلیز ہی پار کی تھی کہ باہر بندھی بھینس کے جی میں نہ جانے کیا آئی کہ اس کی دُم نے انگڑائی لی اور گوبر سے بھری تھکن میری سفید قمیض پہ اُتار دی ۔
میں یہی داغ سجا کے بزم یار چلا جاتا مگر اس بدبو کا کیا کرتا جو گوبر سے آ رہی تھی ۔ میں نے فوری گھر پلٹ کر کپڑوں کی الماری کھولی مگر کوئی شرٹ ، قمیض دھلی ہوئی نہیں تھی ۔ بس مجھے ایک ہی بلیک کلر کی ٹی شرٹ نظر آئی میں نے وہی پہن لی۔ جب پہننے لگا تو دیکھا وہ بائیں بازو سے پھٹی ہوئی تھی ۔ اب میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ میں امی جی سے کہوں کہ اس کی سلائی کر دیں۔ میں نے سوچا مسعود ، پاکستان میں بایاں بازو ہمیشہ ہی پھٹا رہا ہے لہذا میں بازو سے پھٹی ہوئی ٹی شرٹ ہی پہن کر مل کی جانب چل پڑا ۔ میں نے آٹھ بجے ہی پیٹ پکڑ کر درد کا ڈرامہ رچانا شروع کر دیا تاکہ فورمین سے چھٹی کا کہہ سکوں۔ اتنے میں میں نے دیکھا میاں محمد اقبال آ رہے تھے۔ میں ان کے پاس گیا اور صورت حال بتائی۔ انہوں نے فورمین کو ہاتھ کا اشارہ کیا اور میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ باہر جا کر پتہ چلا کہ میاں صاحب دو بسیں لے کر آئے ہیں تاکہ مل کے مزدور بھٹو صاحب کے استقبال کے لئے ائیرپورٹ جا سکیں ۔ ائیر پورٹ جا کر مزدور تو ائیر پورٹ کی چھت پہ چڑھ گئے اور میں صحافیوں کے ساتھ اندر رن وے پہ چلا گیا جیاں پیلپز پارٹی کے مقامی راہنما، ایم این اے، ایم پی اے، صحافی اور کچھ وزیر بھٹو صاحب کے انتظار میں قطار میں کھڑے تھے ۔ بھٹو صاحب ماؤ کیپ پہنے پنجاب کے وزیر اعلی غلام مصطفی کھر، حنیف رامے، شیخ رشید، کوثر نیازی اور کچھ اور احباب کے ساتھ جہاز سے اُترے۔ میاں محمد اقبال ان کا جہاز کے دروازے پر استقبال کرکےاُن کو قطار میں کھڑے لوگوں کو ملانے کے لئے قطار کے پاس لے آئے ۔ میں کوئی دس بارہ لوگوں کے بعد کھڑا تھا۔ جب بھٹو صاحب میرے پاس آئے اور میں نے مصافحہ کے لئے اپنا دائیاں ہاتھ آ گے کیا تو بھٹو صاحب کی نظر میری ٹی شرٹ کے بائیں بازو پہ پڑ گئی، جو کہ پھٹی ہوئی تھی ۔ بھٹو صاحب نے پھٹی ٹی شرٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میاں اقبال کو کہا ”دیکھو میاں پہلے پھٹی ہوئی قمیض والوں کو لوگ ائیر پورٹ کے باہر بھی نہیں کھڑے ہونے دیتے تھے، یہ عوامی حکومت ہے جس کی وجہ سے پھٹی قمیض والے لوگ ائیر پورٹ کے اندر رن وے تک آ جاتے ہیں“۔ انہوں نے مجھے قطار سے باہر نکال کر اپنے پاس کھڑا کیا۔ میاں اقبال کو بھی ساتھ کھڑا کیا اور نزدیک کھڑے محروم آغا حمید فوٹو گرافرکو فوٹو کے لیے اشارہ کیا۔
ابھی وہ چند اور لوگوں سے ملے ہی ہوں گے کے کسی جیالے نے گیٹ پھلانگ کر اندر سے گیٹ کا دروازہ کھول دیا اور ہزاروں جیالے اندر رن وے پہ آ گئے۔ ایک جیالے نے بھٹو صاحب کو اپنی بانہوں میں لے لیا جب اس نے ایک منٹ بعد بھی بھٹو صاحب کو نہ چھوڑا تو سیکورٹی والوں نے آ گے بڑھ کر اس جیالے کو بھٹو صاحب سے الگ کیا اور بھٹو صاحب کو ہجوم سے نکال کر گاڑی میں بٹھا دیا۔ سیلاب کی وجہ سے جھنگ روڈ جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی لہذا انتظامیہ نے ان کو ریلوے لائین کے ساتھ والی سڑک سے لے جانے کا انتظام کیا تھا ۔ گاڑیوں کا قافلہ چل پڑا مگر پانچ منٹ بعد ہی گاڑیا ں رک گئیں۔ دیکھا تو گاڑیوں کا رُخ جھنگ روڈ کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ بعد میں پتہ چلا بھٹو صاحب نے پوچھا کہ آج اپ کس راستے سے جا رہے ہیں ۔ تو ان کو بتایا گیا کہ پہلے والے راستے کی سڑک بہت ٹوٹی ہوئی ہے اس لئے دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔ بھٹو صاحب نے کہا اگر عام لوگ اب بھی اسی ٹو ٹے راستے سے آ جا رہے ہیں تو بھٹو کیوں اس راستے سے نہیں جا سکتا۔ چلو اسی راستے سے چلتے ہیں۔
یوں تو بھٹو صاحب سے بیسوں مرتبہ ملاقاتیں ہوئی ہیں لاہور کے گورنر ہاؤس میں، وزیر اعظم ہاؤس میں، لائل پور کے سرکٹ ہاوس میں، مگر یہ ملاقات اج بھی پھٹی ٹی شرٹ سمیت میری انکھوں اور دل میں موجود ہے۔ بھٹو صاحب پہ بہت کچھ لکھا گیا ہے ان کے سیاسی کردار پر، ان کی ذاتی شخصیت پر اور مزید لکھا جاتا رہے گا ۔ ضیا الحق ایک آدم خور مگر مچھ تھا جس نے اس ملک کو نگل لیا ہے۔ وہ جب بد ہضمی کا شکار ہو جاتا تو کسی سیرت کانفرنس میں یا کسی مسجد میں جا کر مذہبی ڈکار مار دیتا تھا۔ مگر وہ بھٹو صاحب کو نگل کر بھی ہضم نہ کر سکا۔ بھٹو صاحب بارہ سھنگے تھے جو ضیا الحق کو اندر سے زخمی کر کے مارتے رہے ہیں اور اب بھی مار رہے ہیں۔
(بشکریہ:کاروان۔ناروے)
فیس بک کمینٹ