آج صبح لاہور میں مردم شماری کرنے والی ٹیم اور ان کی حفاظت کے لئے متعین فوجی دستے پر خود کش دھماکہ میں چھ افراد جاں بحق اور 20 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ یہ حملہ لاہور کینٹ کے علاقے بیدیاں روڈ پر ہوا ہے ۔ اس علاقہ میں فوجی تنصیبات کی وجہ سے سکیورٹی غیر معمولی طور پر سخت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گرد اس علاقے میں بھی حملہ کرنے اور خوف و ہراس پیدا کرنے کا مقصد پورا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ حملہ کے بعد بھی حسب معمول مذمت کے پیغامات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے اور انتہا پسندوں سے ہار نہ ماننے کے اعلانات سامنے آ رہے ہیں۔ مرنے والوں کو ایک عظیم مقصد کے لئے جام شہادت نوش کرنے والے بھی قرار دیا جا رہا ہے لیکن اس بات کا جواب کہیں سے موصول نہیں ہوتا کہ دہشت گردوں کو ختم کرنے کے دعووں کے باوجود یہ کون لوگ ہیں جو تسلسل سے حملے کرنے اور اپنے موجود ہونے کا پیغام عام کر رہے ہیں۔ تو آئیے ہم بھی مل کر ایک اور مذمت کرلیں۔
پاکستانی قوم کے پاس اس کے سوا چارہ ہی کیا ہے کہ وہ اپنے مرنے والوں کی لاشوں پر بین کرے اور باقی ماندہ لوگ حملہ کی مذمت کریں اور یہ دعا کریں کہ اس سانحہ میں ہمارا کوئی بھائی بند یا عزیز شامل نہ ہو۔ حکومت اس بات کا احساس کرنے سے قاصر نظر آتی ہے کہ یہ حملے لوگوں میں خوف پیدا کررہے ہیں اور ہر نئے حملہ کے ساتھ یہ شبہ یقین میں بدلنے لگا ہے کہ ریاست کے تمام ادارے اور پوری قوت بھی مل کر ان عناصر کا خاتمہ کرنے سے قاصر ہے جو لوگوں کی زندگیوں کے لئے مسلسل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ کسی ایک واقعہ کی سنگینی کا اندازہ صرف اس میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اسے سمجھنے کے لئے اس بے یقینی اور خوف کو شمار کرنا ہوگا جو ایسے سانحات عام کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ دہشت گردوں کا مقصد بھی یہ واضح کرنا ہے کہ وہ موجود ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق جہاں چاہیں وار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حکومت اور فوج مسلسل دعووں اور کثیر تعداد میں لوگوں کو ہلاک کرنے کے باوجود نہ تو دہشت گردوں کی قوت کو کم کرسکے ہیں اور نہ ہی ان کے حوصلے پست کئے جا سکے ہیں۔ اس سال کے شروع میں لگاتار حملوں میں ایک سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ ملک کا کوئی علاقہ دہشت گردوں کی دسترس سے دور نہیں رہا تھا۔ ایک حملہ لاہور میں مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے سامنے جمع ہونے والے اجتماع میں ہوا تھا۔ ان حملوں کا الزام افغانستان میں موجود ایسے گروہوں پر عائد کیا گیا جو بہر صورت پاکستان میں انتشار اور تباہی پھیلانے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ اسی لئے افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد کو کئی ہفتے تک بند رکھا گیا۔ اس کا مقصد افغانستان کو سزا دینا تھا۔ لیکن اس سے بھی دہشت گردی کو روکنے کا مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔ کوئی وجہ تو ہوگی کہ دہشت گرد کامیاب اور ریاست ناکام ہو رہی ہے۔ ایک الزام بھارت کی ایجنسیوں اور افغانستان کے راستے پاکستان کے خلاف تخریب کاری کو منظم کرنے کے بارے میں لگایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کچھ شواہد بھی سامنے لائے گئے ہیں اور عالمی اداروں میں آواز بلند کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت اور افغانستان بھی پاکستان پر ایسے ہی الزامات عائد کرتے ہیں اور اس حوالے سے شواہد بھی پیش کرتے ہیں۔ پاکستان ان الزامات کو اسی شدت سے مسترد کرتا ہے جس سختی سے بھارت یا افغانستان، پاکستان میں دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ ملک میں آپریشن ضرب عضب کے بعد آپریشن ردالفساد جاری ہے۔ مقصد دہشت گردوں کی سرکوبی ہے لیکن وہ ہر آپریشن کے بعد اسی توانائی سے سر اٹھانے اور ریاست کی قوتوں کو زچ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس تب حرف مذمت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
کہا : اب تک کئے گئے اقدامات کا جائزہ لیا جائے۔
دست بستہ عرض کیا: ان غلطیوں کا جائزہ لے کر ان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جائے جو ماضی میں ہمارے پاؤں کی زنجیر بنی تھیں۔
گزارش کی: اپنے اسٹریجک اثاثوں کو پرکھ لیا جائے کہ یہ واقعی ملکی مفاد میں کارآمد ہیں یا اب ہمارے لئے بوجھ بن چکے ہیں۔
دیوار پر لکھا ہے: دوسروں کے آنگن میں چنگاریاں پھینکنے سے اپنا گھر بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
کیا اب ہم نوشتہ دیوار پڑھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔
فیس بک کمینٹ