سعودی عرب سے تین ارب ڈالر فکسڈ ڈیپازٹ کے طور پر ملنے کی خوشی اور کامیابی کا اعلان کرنے کے لئے وزیراعظم عمران خان نے کل رات قوم سے خطاب کرتے ہوئے جو باتیں کی ہیں، وہ ایک روز پہلے سعودی دارالحکومت ریاض کی سرمایہ کاری کانفرنس میں کی گئی تقریر سے مختلف نہیں تھیں۔ البتہ یہ خطاب چونکہ اہل پاکستان سے براہ راست کیا جا رہا تھا اس لئے اس میں زیادہ پر زور طریقے سے اپوزیشن پر کرپشن کا الزام عائد کرتے ہوئے یہ اعلان کرنا ضروری سمجھا گیا ہے کہ حکومت کسی صورت میں کسی بدعنوان لیڈر کو ’این آر او‘ نہیں دے گی۔ بدعنوانی کے خلاف پرانے بلند بانگ دعوے کرنے کے علاوہ ملک کے لگ بھگ دو ماہ پرانے وزیراعظم کے پاس کوئی نئی بات نہیں تھی۔ قرض لینے اور ملک کو حائل مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے وہ صرف اپوزیشن پر الزام تراشی کرنے اور کرپشن کا راگ الاپنے کو ہی اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کابینہ کے تین ارکان، وزیر خزانہ اسد عمر، وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر توانائی عمر ایوب خان نے بھی اپنی حکومت کی کسی نئی حکمت عملی کا اعلان کرنے یا کئے گئے فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے یہ اصرار کرنا ضروری سمجھا ہے کہ بجلی ٹیرف میں اضافہ سے اس حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ سابقہ حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح وزیر اطلاعات نے اپنے لیڈر عمران خان کی طرح ’چوروں‘ کو پکڑنے کے لئے نیب کے افسروں کو ’آفیشل پاسپورٹ‘ دینے کا اعلان کیا۔ وزیر اعظم کے بعد ان وزرا کی گفتگو سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت ایک نکاتی ایجنڈےکے تحت سیاسی مشکلات سے نکلنے کے لئے کرپشن کا نعرہ لگا کر لوگوں کو مصروف رکھنا چاہتی ہے۔ عمران خان اور ان کے رفقا کو موجودہ اقتصادی اور سفارتی مشکلات سے نکلنے کے لئے اس نعرے بازی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہوگی۔
ملک کی معیشت کے ساتھ سیاست کا کھیل کھیلنے سے حالات مزید سنگین ہو ں گے۔ پاکستان کو معیشت کی بحالی کے لئے سوچ سمجھ کر ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن میں حکومت کی آمدنی میں اضافہ کے علاوہ افراط زر پر کنٹرول، برآمدات میں اضافہ اور ملک میں سرمایہ کاری کا ساز گار ماحول پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر موجودہ حکومت واقعی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اور پارلیمنٹ کو ہی اپنی سیاسی قوت کا اصل منبع سمجھتی ہے تو اسے یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ تحریک انصاف کو تن تنہا تو پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہے۔ تمام اہم فیصلے کرنے کے لئے وہ چھوٹی بڑی سیاسی حلیف پارٹیوں کی محتاج ہے۔ ان میں کوئی بھی پارٹی کسی بھی لمحہ پر ناراض ہو کر حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کرسکتی ہے۔
کسی بھی ملک کی معیشت کی بہتری کے لئے سیاسی استحکام بے حد ضروری ہوتا ہے۔ اگر کسی ملک میں جمہوری طریقہ سے حکومت بنانے اور چلانے کا طریقہ بھی مروج ہو تو اس میں پارلیمنٹ کی قوت فیصلہ کو قبول کرنا حکومت اور اپوزیشن کے لئے یکساں طور سے اہم ہوتا ہے۔ عمران خان کو اگر دعویٰ ہے کہ وہ جولائی میں ہونے والے انتخابات میں سب سے مقبول لیڈربن کر ابھرے ہیں اور ان کی پارٹی کو اکثریت نے ووٹ دیا ہے تو انہیں اس بات کا احترام بھی کرنا چاہئے کہ اپوزیشن پارٹیوں کو بھی اس ملک کے عوام نے ہی ووٹ دے کر پارلیمنٹ میں نمائیندگی عطا کی ہے۔ وزیر اعظم کے طور پر عمران خان اپنی اکثریت کا راگ الاپتے ہوئے اپوزیشن کی نمائیندگی کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔
کل قوم سے خطاب میں عمران خان کے پاس کہنے کے لئے کوئی نئی بات نہیں تھی ۔ وہ صرف سعودی عرب سے وقتی اقتصادی ریلیف ملنے پر آپے سے باہر ہو رہے تھے ۔ تاہم پاکستان کو سعودی عرب کی طرف سے اس قسم کا ریلیف نہ تو پہلی مرتبہ ملا ہے اور نہ ہی اس بات کا امکان ہے کہ ایسی اقتصادی امداد کی ضروت آخری بار پیش آئی ہے۔ اس لئے عمران خان کو اپنے دعوؤں اور بے بنیاد خوش فہمیوں کو اس وقت کے لئے بچا کر رکھنا چاہئے جب ان کی حکومت کو یہ پانچ برس پورے ہونے کے دوران کاسہ گدائی لے کر بار بار مختلف ملکوں اور اداروں کے پاس جانا پڑے گا۔
قوم سے خطاب کا بنیادی مقصد سعودی عرب سے امداد کے وعدہ سے ملنے والے وقتی ریلیف پر خوشی کا اظہار کرنا اور اسے اپنی حکومت کی بڑی کامیابی قرار دینا تھا۔ وزیر اعظم واضح طور سے اس دوران پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین آصف زرداری کے اس بیان پر برگشتہ تھے کہ اپوزیشن کو مل کر حکومت کی نااہلی کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد لانا چاہئے۔ لگتا ہے سعودی امداد کے وعدہ نے عمران خان کے اعتماد میں اس قدر اضافہ کردیا تھا کہ انہوں نے اس بے ضرر بیان پر قوم کے نام خطاب کا بیشتر وقت صرف کرنا ضروری سمجھا۔
عمران خان کی یہ پریشانی تو بجا ہے کہ ان کی حکومت معمولی اکثریت کی بنیاد پر قائم ہے اور اس کے خلاف قومی اسمبلی میں کوئی ہلچل ان کے اقتدار کے لئے کسی بھی وقت بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ لیکن اس خطرہ سے نمٹنے کے لئے قوم سے خطاب میں اپوزیشن لیڈروں کے خلاف دھؤاں دار نعرے بازی کرنا مناسب طریقہ نہیں ہو سکتا۔ اس طرح وہ مشکل میں پھنسے ہوئے ملک کے ایسے رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں جسے حالات کی سنگینی کا قطعی اندازہ نہیں اور جو یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ اپوزیشن کو خوفزدہ اور ہراساں کرنے میں کامیاب رہا تو اس کے سارے مسئلے حل ہوتے رہیں گے۔ عمران خان کو اس غلط فہمی سے باہر نکلتے ہوئے سیاسی حقیقت حال اور ملک کو درپیش اقتصادی و سفارتی مشکلات کا سامنا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں نے عمران خان سے استفسار کیا ہے کہ وہ سعودی عرب سے ملنے والے قرض کی شرائط سے قوم کو آگاہ کریں۔ کیوں کہ کوئی بھی امداد کوئی قیمت ادا کئے بغیر نہیں ملتی۔ پاکستان جیسے ملک کی بد قسمتی ہے کہ انتظامی نااہلی، سیاسی انتشار اور اداروں کی بار بار مداخلت کی وجہ سے ٹھوس حکمت عملی بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ بلکہ الزام تراشی کی سیاست کو تمام مسائل کا حل سمجھ لیا جاتا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم نے صحافی جمال خشوگی کے استنبول میں قتل کے معاملہ میں پھنسے ہوئے سعودی عرب کو سنگین بحران میں سفارتی مدد فراہم کی ہے۔ اب وہ سعودی پیکج کو ملک کے مسائل کا حتمی حل قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی صورت میں غریب عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ لیکن یہ بتانے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ بہت ہی عزیز دوست ملکوں سے لئے گئے قرضوں کی کون سی اور کتنی سیاسی اور سفارتی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ پاکستان کو اپنی جغرافیائی صورت حال اور مسلم دنیا میں اہمیت کی بنا پر سعودی عرب یا کسی بھی ملک سے معاملات کرتے ہوئے ایران اور ترکی کے ساتھ وابستہ پاکستان کے مفادات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
پاکستانی وزیر اعظم کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ سعودی عرب ہی کو موجودہ بحران میں پاکستان کی ضرورت تھی جس کی بنا پر عمران خان کو شاہ سلمان نے خصوصی دعوت پر ریاض آنے کی دعوت دی۔ یہی عمران خان ایک ماہ پہلے خالی ہاتھ سعودی عرب کے دورہ سے لوٹے تھے۔ اس لئے اگر جمال خشوگی کے معاملہ میں حکومت پاکستان کوئی اصولی مؤقف اختیار کرنے کا حوصلہ نہیں بھی کرتی تو اسے یہ بھولنے کا بھی حق حاصل نہیں کہ سعودی عرب نے ایک سال کے اقتصادی ریلیف کی کیا قیمت وصول کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں اپوزیشن پر برسنے کی بجائے یہ بتانا چاہئے کہ سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ کی باقی جزیات کیا ہیں۔ عمران خان شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے مزید کون سی سفارتی اور سیاسی مراعات کا وعدہ کر کے آئے ہیں۔
عمران خان نے اس تقریر میں یمن میں سعودی عرب کی مسلط کردہ جنگ میں ثالثی کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ کوئی ثالث اسی وقت کردار ادا کرسکتا ہے جب دونوں فریق کسی معاملہ میں اس قسم کے تعاون کی درخواست کریں۔ یمن کی جنگ میں پھنسےہونے کے باوجود سعودی عرب نے ابھی تک پاکستان سے اس مسئلہ میں ثالثی کی درخواست نہیں کی۔ نہ جانے پاکستانی لیڈروں کو یہ غلط فہمی کیوں ہوجاتی ہے کہ وہ ملت اسلامیہ کا نعرہ لگائیں گے اور سعودی حکمرانوں کے دل پسیج جائیں گے۔
پاکستانی وزیر اعظم کو خبر ہونی چاہئے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے یمن جنگ میں عملی فوجی مدد دینے کا مطالبہ کیا تھا اور سابقہ قومی اسمبلی نے اس خواہش کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔ ابھی تک سعودی عرب کی اس پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ پھر پاکستان کس بنیاد پر یمن جنگ ختم کروانے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس قسم کی کوشش سابق وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف نے ایران کے ساتھ سعودی عرب کا تنازعہ حل کروانے کے لئے بھی کی تھی لیکن انہیں منہ کی کھانا پڑی تھی۔ بہتر ہو گا کہ عمران خان ماضی کی غلطیاں دہرانے کی بجائے ان سے سبق سیکھنے کی کوشش کریں۔
وزیر اعظم سعودی عرب سے چھ ارب ڈالر کا وقتی ریلیف پیکج لے کر آئے ہیں اور اتنی ہی مالیت کی امداد آئی ایم ایف سے لینے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی موجودہ شرح کے حساب سے یہ امداد ملنے کے بعد پاکستان کے اس قرض میں مزید پونے دو سو ارب روپے کا اضافہ ہوجائے گا جس کی مقدار عمران خان نے 30000 ارب روپے بتائی ہے۔ اس کے باوجود وہ عوام کو مشکل مالی فیصلوں اور صورت حال کے لئے تیار کرنے کی بجائے یہ دعویٰ کرنے پر اصرار کیا جارہا ہے کہ جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے جب پاکستان دوسرے ملکوں کو قرض دینے لگے گا۔ ایک طرف ڈیفالٹ ہونے کی باتیں اور دوسری طرف اس قسم کے بے بنیاد دعوے، مقبولیت پسندی کی یہ سیاست ملکی معیشت کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہوگی۔
وزیر اعظم بدعنوان لیڈروں کو جیلوں میں ڈالنے کے جوش میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اس ملک میں کرپشن کے خلاف کام کرنے کے لئے احتساب بیورو قائم ہے اور عدالتیں ان امور پر فیصلے کرنے کی مجاز ہیں۔ اگر یہ ملک قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہے تو عمران خان کو یہ بھی جاننا چاہئے کہ وہ جن سیاسی لیڈروں کو اپنا حریف سمجھ کر انہیں کرپشن کا بادشاہ یا چور قرار دیتے ہیں ، ان میں سے ابھی تک کسی کو کسی عدالت سے ایسے کسی الزام میں سزا نہیں دلوائی جا سکی۔ وزیر اعظم اگر سیاسی حساب برابر کرنے کے لئے احتساب اور عدل کے معاملات خود اپنے ہاتھوں میں لینے کا شوق رکھتے ہیں تو وہ اسی نظام کو تہ و بالا کرنے کا سبب بنیں گے جس کے سہارے وہ وزیراعظم منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یوں بھی بدعنوانی کے خلاف سیاست کرنے سے عمران خان یا تحریک انصاف کو ہی فائدہ ہوگا۔ ملکی معیشت ان نعروں سے بہتر ہونے کی بجائے دباؤ کا شکار رہے گی۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ