مدینہ ریاست کے ہنگام میں خبر آئی ہے کہ ملک میں افراط زر کی شرح تمام تر معاشی اقدامات اور سختیوں کے باوجود خطرناک حدوں کو چھونے لگی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں یہ شرح سات اعشاریہ دو فیصد تھی جو حکومت کے مالی سال کے لئے تخمینہ سے ایک فیصد سے زیادہ ہے اور گزشتہ چار سال کی مدت میں بلندترین ہے۔ ایسے معاشی اشاریے سامنے نہیں آئے جن سے یہ امید باندھی جاسکے کہ آنے والے مہینوں میں حکومت افراط زر پر قابو پالے گی یا روپے کی گرتی ہوئی قدر کو سنبھالا دیا جاسکے گا۔ عام طور سے معاشی فیصلے پیچیدہ اور مشکل ہوتے ہیں اور عام لوگ ان کی تفصیلات کو پرکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے لیکن اس کے نتیجے میں ہر فرد کی جیب اور بجٹ پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ، اسے ہی کسی حکومت کی کامیابی یا ناکامی کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ فی الوقت تحریک انصاف کی حکومت عام لوگوں میں یہ اعتماد پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے کہ وہ ملکی معیشت کو سنبھال سکتی ہے اور اس کی قیادت کے پاس کوئی ایسا ٹھوس منصوبہ موجود ہے جس کی بنیاد پر شدید معاشی بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
معاشی بے چینی اور کساد بازاری کے اس بحران میں تحریک انصاف کی حکومت نے دو نعروں سے کام چلانے کی کوشش کی ہے۔ ایک یہ کہ اب سیاست دانوں کو لوٹ مار کی اجازت نہیں ہو گی اور سب لٹیروں سے حساب لیا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ عمران خان کی سحر انگیز شخصیت سے صرف پاکستانی عوام اور طاقت ور حلقے ہی متاثر نہیں ہیں بلکہ اب دوست ملکوں کے سربراہ بھی ان کے ’مداحین‘ میں شامل ہوگئے ہیں۔ بلکہ عمران خان کی خود اعتمادی کا جادو تو اب امریکہ کے منہ زور ، بد تہذیب اور علاقے میں پاکستانی مفادات کے برعکس منصوبے پر کام کرنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی چل چکا ہے۔ اس نے نہ صرف پاکستانی وزیر اعظم کو خط لکھ کر افغان مسئلہ کے حل کے لئے ان کے ’ویڑن‘ سے اتفاق کرلیا ہے بلکہ اب پاکستان کے تعاون سے افغان طالبان امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ کے قریب پہنچنے والے ہیں۔ امریکہ کو رام کرنے کے علاوہ عمران خان نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لئے پاکستان کی خود مختاری پر سودا کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس کے برعکس اپنی خیر سگالی کی بنیاد پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے قرض لے کر ملکی معیشت کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کردیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے دو روز قبل ’پاکستان بناو¿ سرٹیفکیٹ‘ کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ملکی معیشت انتہائی خطرناک صورت حال کا سامنا کررہی ہے لیکن اگلی ہی سانس میں انہوں نے وہی طرز عمل اختیار کیا جو معیشت کی بحالی کا کام کرنے والے کسی بھی سیاسی لیڈر کو اختیار کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عمران خان بدستور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سابقہ حکومتوں نے خزانہ خالی کردیا اور ملکی معیشت کا دیوالیہ نکال دیا تاہم ان کی حکومت کے اقدامات سے اب معیشت کی بحالی اور عوام سے کئے گئے وعدے کرنے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ یہ دونوں دعوے گمراہ کن ہیں۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حکومت سنبھالنے سے پہلے انہیں یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ ملکی معیشت کس قدر خراب حالت میں ہے۔ یہ تو حکومت ملنے کے بعد اندازہ ہو¿ا کہ حالات کس قدر دگرگوں ہیں۔
عمران خان کا یہ اعتراف، لاعلمی کا اعلان نامہ یا سابقہ حکومتوں کی عیاری کا ثبوت ہونے سے زیادہ تحریک انصاف اور خود وزیر اعظم کی سیاسی نااہلی کو واضح کرتا ہے۔ عمران خان گزشتہ دور میں ملک کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی کے لیڈر تھے اور قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ اگر انہوں نے سیاسی لیڈر اور رکن اسمبلی کے طور پر بجٹ دستاویزات اور سرکاری معلومات کا مطالعہ کیا ہوتا تو اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی تحریک انصاف کی قیادت کے پاس معاشی اصلاح کا ورکنگ پلان تیار ہوتا۔ لیکن اس کی بجائے اب وہ اپنی بے خبری کا ذمہ دار بھی سابقہ حکومتوں کو قرار دے کر یہ واضح کرتے ہیں کہ تحریک انصاف ملک کا اقتدار سنبھالنے کے لئے تیار نہیں تھی۔
یہ خوفناک صورت حال ہے۔ صرف تنقید کرنے والے یا تجزیہ نگار ہی یہ اندازے قائم نہیں کررہے کہ موجودہ سیاسی قیادت نے ملک کو درپیش سنگین معاشی چیلنجز کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے کے لئے ہوم ورک نہیں کیا تھا بلکہ وزیر اعظم خود یہ بتا رہے ہیں کہ انہیں تو خبر ہی نہیں تھی کہ ملکی معیشت کی حالت کس قدر خراب کی جاچکی ہے۔ کسی ریاست کی آمدنی اور مصارف کسی نجی ادارے یا گھر کا بجٹ نہیں ہوتا کہ وہ اسے خفیہ رکھ کر اپنی خوش پوشاکی کا بھرم رکھنے میں کامیاب رہے۔ ریاست کے حسابات سب کے مشاہدہ کے لئے دستیاب ہوتے ہیں۔ جو معلومات کسی خاص مقصد سے عوام کے لئے فراہم نہ کی جائیں ، وہ بھی قومی اسمبلی میں اراکین کے لئے فراہم ہوتی ہیں۔ ملکی معیشت میں دلچسپی رکھنے والوں سے یہ اعداد و شمار اور معاملات خفیہ نہیں رکھے جاسکتے۔ تاہم جب ان امور کو بھی سابقہ حکومتوں پر الزام تراشی کرنے کے لئے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جائے گا تو اس سے بحران اور بے چینی میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان کی معیشت اس وقت اسی صورت حال سے دوچار ہے۔
عمران خان اور ان کی حکومت اگر اپنے سیاسی ایجنڈے کو ملکی معیشت سے پرے رکھتی تو بھی حالات اس قدر دگرگوں نہ ہوتے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حکومت مختصر مدت میں دو بجٹ پیش کرچکی ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے بعد اب چین سے قرض ملنے کی خبر بھی سامنے آچکی ہے لیکن نہ افراط زر پر کنٹرول ہے اور نہ ہی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کا امکان پیدا ہو رہا ہے۔ سابقہ حکمرانوں کو قید کرکے یا ان پر مقدمے چلا کر ان سے یقیناً حساب مانگا جاسکتا ہے لیکن اسے اگر قانونی معاملہ رہنے دیا جاتا اور سیاسی نعرہ بنا کر اس کے ثمرات سمیٹنے کی کوشش نہ کی جاتی تو قومی اسمبلی کے علاوہ سیاسی سطح پر تصادم اور بد اعتمادی کی وہ فضا دیکھنے میں نہ آتی جس کی وجہ سے ملکی معیشت کے سارے اشاریے مسلسل دباو¿ کا شکار ہیں۔
حکومت ابھی تک یہ بتانے سے قاصر رہی ہے کہ اس کا معاشی پلان کیا ہے۔ وہ کون سا منصوبہ ہے جس پر عمل کرتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت معیشت کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنے کے قابل بنا سکتی ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف یا دوست ملکوں سے قرض لینے یا نہ لینے کی بحث بے مقصد ہے اور اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آتا۔ نہ ہی یہ جاننے سے کہ حکومت کس سے قرضہ لے رہی ہے، یہ پتہ چلتا ہے کہ کون سے معاشی منصوبہ پر عمل شروع کیا گیا ہے اور اس کے نتائج کس طرح اور کب تک سامنے آنے لگیں گے۔
حکومت کے نمائندے اور عمران خان کبھی مرغیاں بانٹ کر معیشت کو پائیدار کرنے کی بات کرتے ہیں ، کبھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات کو باقاعدہ چینلز کے ذریعے منگوا کر ملکی معیشت کے سارے دلدر دور کئے جاتے ہیں اور کبھی دو سو ملکوں کو آن لائن ویزا دینے کا اعلان کرنے سے ، سیاحت کے فروغ اور ملکی معیشت کے احیا کا خواب دیکھا جاتا ہے۔ یہ سارے اعلان خود کو دھوکہ دینے کے علاوہ اس بات کا اشارہ بھی بن رہے ہیں کہ حکومت ملکی معیشت کی حساسیات اور ضرورتوں کو سمجھنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ اس سے منڈیوں میں اعتماد کی بجائے بے یقینی فروغ پاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اٹھارویں آئینی ترمیم، صوبوں کے اختیار اور ملک میں صدارتی نظام کی ضرورت کے حوالے سے مباحث کا آغاز کرکے خود اپنے پاو¿ں پر کلہاڑی مارنے جیسے عمل کو دہرایا جارہا ہے۔
کسی بھی حکومت کی کامیابی کے لئے معیشت کا مستحکم ہونا بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ملک میں اگر اختلافی یا متنازع سیاسی مباحث اور ان کے نتیجے میں تبدیلیوں کی ضرورت موجود بھی ہو تو کوئی بھی نئی حکومت معیشت کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کئے بغیر اس قسم کے متنازعہ اور اختلافی معاملات کو چھیڑنے سے گریز کرتی ہے۔ لیکن تحریک انصاف کی قیادت نے یہ انوکھا رویہ اختیار کیا ہے کہ معاشی حالات کو بہتر بنائے بغیر سیاسی اختلافات کو اچھالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک میں روزگار پیدا کرنے کے متبادل مواقع فراہم کرنے سے پہلے ہی جاری ترقیاتی منصوبوں کو فنڈز کی فراہمی روک دی گئی ہے۔ نتیجتاً اکثر صورتوں میں کسی بھی منصوبہ پر صرف ہونے والے قومی وسائل ناکارہ ہو جاتے ہیں اور ان منصوبوں سے وابستہ لوگ بھی بے روزگار ہونے لگتے ہیں۔ اس سے بحران میں اضافہ لازمی سی بات ہے۔
مثال کے طور پر دوسرے ضمنی یا پہلے منی بجٹ میں وزیر خزانہ نے نیوز پرنٹ پر سے محصول ختم کرکے آزادی رائے کے لئے حکومت کے عزم کا اعلان کرنے اور مالکان کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن دوسری طرف صدر مملکت سے لے کر عام وزیروں تک میڈیا کو ملنے والے سرکاری اشتہارات کے بارے میں اظہار رائے کرکے ایسی بےیقینی پیدا کی ہے کہ اس وقت میڈیا ہاو¿سز بے دریغ صحافیوں کو نوکری سے نکال رہے ہیں یا ان کی تنخواہیں کم کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ ان میڈیا کارکنوں کی تعداد کا اندازہ کرنا تو ممکن ہی نہیں جو تنخواہوں کی امید پر کئی کئی ماہ تک مفت کام کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
عمران خان کو اب سمجھ لینا چاہئے کہ معاشی بحالی کا کام سیاسی ہتھکنڈوں سے ممکن نہیں۔ اس کے لئے پروفیشلنز کو خاموشی سے کام کرنے دیا جائے اور وہ خود اور ان کے ’عقاب نظر‘ ساتھی معیشت پر تبصرے کرنے اور اسے سیاست کا حصہ بنانے سے گریز کریں۔ ورنہ اپوزیشن بھی یہی ہتھکنڈا اختیار کرے گی جس کا اشارہ گزشتہ روز آصف زرداری نے دیا بھی ہے کہ ’میڈیا ہمارا ساتھ دے تاکہ تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ کیا جا سکے‘۔ معاشی حالات بگڑتے رہے تو اس قسم کے نعروں کو زبان خلق بنتے دیر نہیں لگے گی۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)