مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے اندوہناک حملہ کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات تصادم کی سطح تک پہنچ گئے ہیں۔ واشنگٹن میں مقیم ایک تبصرہ نگار کی رائے میں آئندہ اڑتالیس گھنٹے سخت مشکل ہوں گے کیوں کہ اس دوران کوئی بھی واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔ یہ انتباہ گزشتہ روز ضلع پلوامہ میں ایک شاہراہ پر فوجی قافلے پر خود کش حملہ کے بعد بھارتی قیادت کے سخت اور اشتعال انگیز بیانات کے بعد زیادہ معنی خیز ہو گیا ہے۔ امریکہ نے بھی بھارتی احتجاج اور مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرے اور ہر قسم کے انتہا پسند گروہ کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے پلوامہ حملہ کو بزدلانہ اور نفرت انگیز قرار دیتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی دھمکی دی تھی۔ بھارتی کابینہ نے فوری طور پر پاکستان سے پسندیدہ تجارتی ملک کی حیثیت واپس لے لی ہے اور حکومتی نمائندوں نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کو سفارتی طور سے تنہا کرنے کی کوششیں تیز کی جائیں گی۔ بھارت نے اسلام آباد سے اپنے ہائی کمشنر اجے بساریا کو مشاورت کے لئے نئی دہلی طلب کر لیا ہے جبکہ بھارتی سیکرٹری خارجہ وجے گوکھلے نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سہیل محمود کو طلب کر کے حکومت پاکستان کے لئے احتجاجی مراسلہ دیا ہے جس میں اس حملہ میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس وقت ایک سیکورٹی کانفرنس میں شرکت کے لئے جرمنی گئے ہوئے ہیں جہاں انہوں نے جرمن میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حملہ کی مذمت کی اور ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا لیکن انہوں نے اس سانحہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کے بھارتی الزامات کو شدت سے مسترد کیا ہے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان پر امن بقائے باہمی پر یقین رکھتا ہے اور مذاکرات کے ذریعے بھارت کے ساتھ تمام معاملات طے کرنا چاہتا ہے۔ لیکن بھارت بات چیت سے انکار کر رہا ہے۔ اس سے پہلے اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے ایک بیان میں بھارتی حکومت اور میڈیا کے ان الزامات کو مسترد کیا تھا کہ حملہ کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی تھی یا پاکستان کا پلوامہ کی دہشت گردی سے کسی قسم کا کوئی تعلق ہے۔
انتخابات سے دو ماہ قبل پلوامہ بم دھماکہ کا وقوعہ بھارتی حکمران پارٹی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے پاکستان دشمنی کو سیاسی نعرے کے طور استعمال کرنے کا سنہری موقع فراہم کرتا ہے۔ انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو کڑے مقابلے کا سامنا ہے اور نریندر مودی کو دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے لئے سخت محنت کرنا پڑے گی۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران نریندر مودی گزشتہ انتخابات میں عوام سے کیے گئے متعدد وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے لئے زیادہ سے زیادہ ہندو انتہا پسندی اور پاکستان دشمنی پر انحصار کرنا ضروری ہوگیا ہے۔
پاکستان میں تحریک انصاف کی نئی حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد بھارت سے مفاہمت کی ہر ممکن کوشش کی ہے لیکن بھارتی حکومت نے کسی مثبت پیش کش کا حوصلہ مندانہ جواب نہیں دیا۔ پاکستان کے آرمی چیف اور نئی حکومت نے بابا گرونانک کے 550 ویں جنم دن کے موقع پر کرتار پور راہداری کھولنے کی پیش کش کرکے دونوں ملکوں کے درمیان سرد مہری کی برف کو پگھلانے کی کوشش کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی امن پسندی اور بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی کھلاڑیوں اور لوگوں کے ساتھ تعلقات کا حوالہ دینے کے علاوہ یہ بھی کہا ہے کہ بھارت امن کے لئے اگر ایک قدم آگے بڑھائے گا تو پاکستان دو قدم آگے بڑھے گا۔ لیکن بھارت نے ایسی کسی پیشکش کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔
پاکستان میں بھارتی حکومت کی سرد مہری کو اپریل میں ہونے والے انتخابات کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ متعدد تجزیہ نگاروں اور سیاست دانوں کا خیال ہے کہ ہندوستان میں عام انتخابات سے قبل دونوں ملکوں کے درمیان کسی قسم کی مصالحت کا امکان نہیں ہے۔ اسی پس منظر میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی یہ امید ظاہر کی تھی کہ انتخابات کے بعد نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان نئے دور کا آغاز ہو سکے گا۔ تاہم اب پلوامہ بم دھماکہ میں 44 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت اور جیش محمد کی طرف سے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد یہ کہنا آسان نہیں کہ انتخابات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور کشیدگی کی صورت حال کم ہونے میں کتنا وقت صرف ہو گا۔ کل شام ایک فوجی قافلہ پر کشمیر کی تاریخ کے سنگین ترین حملہ کے فوری بعد جیش محمد نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اس کے ساتھ ہی خود کش حملہ آور 20 سالہ عادل ڈار کی ویڈیو بھی جاری کی تھی جس میں وہ حملے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ ’آپ جب یہ ویڈیو دیکھیں گے تو میں جنت تک پہنچ چکا ہوں گا‘ ۔
جیش محمد پاکستان میں مقیم مولانا مسعود اظہر نے قائم کی تھی اور لشکر طیبہ کی طرح اس گروہ پر بھی بھارت میں متعدد دہشت گرد حملے کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ جنوری 2016 میں پٹھان کوٹ ائیر بیس پر حملہ کا الزام بھی اسی گروہ پر عائد کیا گیا تھا۔ اس حملہ سے چند روز پہلے ہی نریندر مودی ماسکو سے نئی دہلی جاتے ہوئے اچانک لاہور رکے تھے اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کی تھی۔ اس طرح یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے سیاسی قیادت متفق ہو رہی ہے۔ تاہم پٹھان کوٹ حملہ نے بھارت کو دوبارہ الزام تراشی اور پاکستان کے خلاف شدت پسندانہ بیان بازی پر آمادہ کیا۔ اور پاکستان میں نواز شریف کے خلاف ’مودی کا یار‘ ہونے کی مہم کے ذریعے دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان مفاہمت کے ہر امکان کو ختم کیا گیا۔
پاکستانی حکومت نے پٹھان کوٹ حملہ کے بعد جیش محمد کے خلاف کارروائی بھی کی تھی اور اس کے متعدد دفاتر سیل کردیے تھے۔ اس کے لیڈر مولانا مسعود اظہر کو بھی انہیں دنوں میں گرفتار کرکے منظر نامہ سے غائب کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے مسعود اظہر کا نہ تو کوئی بیان سامنے آیا ہے اور نہ ہی انہیں کسی نے دیکھا ہے۔ البتہ اس اقدام کے باوجود پاکستانی حکومت نے کسی بھی الزام میں جیش محمد کے قائد کے خلاف کوئی مقدمہ قائم کرکے انہیں سزا دلوانے کا اہتمام نہیں کیا۔
بھارت کے خلاف سرگرم حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بھی ممبئی حملوں کے الزام میں کی جانے والی قانونی کارروائی کسی انجام کو نہیں پہنچی تھی۔ اس لئے اگر یہ سچ ہے کہ بھارتی حکومت اور نریندر مودی پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان بھی کبھی ان عناصر سے مکمل طور سے دست کش نہیں ہؤا جنہیں بھارت دہشت گرد اور اپنے ملک میں ہونے والے حملوں کا ذمہ دار اور ماسٹر مائنڈ قرار دیتا ہے۔ لیکن وہی عناصر پاکستان میں ’اثاثہ‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پٹھان کوٹ حملہ کے بعد البتہ یہ تبدیلی ضرور آئی تھی کہ حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کی بھارت مخالف بیان بازی کو لگام دی گئی۔ لیکن بھارت اور اس کے سب سے بڑے حامی امریکہ کے لئے پاکستانی حکومت کی پالیسی میں یہ تبدیلی کافی نہیں ہے۔
دوسری طرف جولائی 2016 میں نوجوان حریت پسند برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں احتجاج اور خود مختاری کی تحریک نے شدت اختیار کی ہے۔ نریندر مودی کی حکومت اس تحریک کی شدت اور قوت کو سمجھنے اور اس سے نمٹنے کے لئے سیاسی اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ برہان وانی کی شہادت نے نوجوان کشمیری نسل کو زیادہ پرجوش کردیا ہے اور وہ اب بڑی تعداد میں عسکریت پسندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ سیاسی مبصرین اور معتدل مزاج لیڈر متنبہ کرتے رہے ہیں کہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے سیاسی مذاکرات کے ذریعے راستہ تلاش کیا جائے لیکن بھارت کشمیری قیادت کو پاکستان سے توڑ کر ’سیاسی خلا‘ میں کسی معاہدہ پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کشمیری سیاسی لیڈروں نے نریندر مودی کی حکومت کے ساتھ بات چیت سے انکار کیا ہے۔ تصادم کی اس صورت حال میں بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کرکے اور سفارتی سطح پر اس کے خلاف متحرک ہو کر یہ کوشش کرتا رہا ہے کہ پاکستان کو کشمیر کے سوال پر مؤقف تبدیل کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اسی حکمت عملی کے تحت اکتوبر 2016 بھارت نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سرجیکل اسٹرائک کرنے اور دہشتگرد کیمپوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ پاکستان نے ان دعوؤں کی سختی سے تردید کی ہے اور بھارت بھی اس فوجی کارروائی کے کوئی ناقابل تردید شواہد پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہؤا۔
اس کے باوجود بھارتی حکومت نے سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کو بھارتی عوام اور انتہا پسند ہندو گروہوں کو جوش دلانے اور ان کی سیاسی تشفی کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال کیا ہے۔ اب بھی بھارت کے فوجی اور سیاسی لیڈر اس نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کو پاکستان سے نمٹنے کا واحد ذریعہ قرار دیتے رہتے ہیں۔ اسی لئے پلوامہ حملہ کے بعد یہ اندیشہ پیدا ہونا فطری ہے کہ بھارت اس قسم کی کسی حرکت کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان مسلح تصادم کا راستہ کھولنے کا سبب نہ بن جائے۔
یا ایسے ہی کسی نئے جھوٹ کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف نفرت اور مہم جوئی کا ایک نیا سلسلہ نہ شروع کردیا جائے۔ دونوں صورتوں میں پلوامہ حملہ برصغیر میں امن کے لئے ایک برا سانحہ ثابت ہوگا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت انتخابات میں اس واقعہ کی سیاسی قیمت وصول کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے دوسرے بھارتی سیاسی رہنما بھی نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کی زبان درازی اور فریب کاری کو لگام دینے کے قابل نہیں ہوں گے۔
اس حملہ کی ذمہ داری اگرچہ جیش محمد نے قبول کرکے بھارتی پروپیگنڈا کی توپوں کو بارود فراہم کرنے کا کام کیا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ گزشتہ برسوں میں مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی مقامی لوگوں کی مایوسی اور احتجاج کا نتیجہ ہے۔ وہاں عسکری حملے کرنے والے گروہ اور نوجوان سیاسی طور سے تنہا نہیں ہیں بلکہ کشمیر عوام کی ہمدردیاں اور حمایت ان کے ساتھ ہے۔
پلوامہ کا خود کش حملہ آور عادل ڈار بھی اسی ضلع کا رہنے والا تھا۔ جو وہیں پیدا ہؤا اور بھارتی فوج کے مظالم سہتے سہتے عسکریت پسندی کی طرف مائل ہؤا۔ حملہ آور عادل ڈار کے والد غلام حسین ڈار نے پلوامہ حملہ کے بعد اخباری نمائندوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس جنگ میں دونوں طرف کے لوگ مر رہے ہیں۔ یہ لیڈروں کی سیاست ہے۔ سب کو مل کر اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے کہ نوجوان بندوقیں کیوں اٹھا رہے ہیں‘ ۔
نریندر مودی اور ان کے خونخوار بیان بازوں کو اس بیان کی صداقت اور اصابت کو تسلیم کرتے ہوئے سیاسی جنگجوئی اور کشمیری عوام کے خلاف فوج کشی ترک کرکے کشمیریوں اور پاکستان کے ساتھ سیاسی مذاکرات کا راستہ ہموار کرنا چاہیے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ