گزشتہ روز پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک طویل پریس کانفرنس میں بھارت کی طرف سے دی جانے والی دھمکیوں کا جواب دیا اور پاکستان کی پوزیشن واضح کی۔ انہوں نے ہمسایہ ملک کی فوج اور حکومت کو بتایا ہے کہ پاکستان مغربی سرحد پر مصروف ہونے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے باوجود مشرقی سرحد سے بے خبر نہیں ہے۔ اس لئے اگر بھارت نے حملہ کرنے یا کسی ایڈونچر کی غلطی کی تو پاکستانی فوج اس کا بھرپور، فوری اور حیران کن جواب دے گی۔
اس کے ساتھ ہی پاکستان کی طرف سے امن کا پیغام بھی سامنے لایا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کا بیان اس حد تک اہل پاکستان کی حوصلہ افزائی کے لئے اہم اور بروقت کہا جا سکتا ہے ۔ بھارتی حکومت کے علاوہ ٹیلی ویژن پروگراموں، اخبارات اور سوشل میڈیا پر سرگرم عناصر کی طرف سے پاکستان کے بارے میں تند و تیز لب و لہجہ اختیار کیا گیا ہے اور گزتہ ہفتہ کے دوران انتقام لینے اور پاکستان کو جنگ کے ذریعے نقصان پہنچانے کی باتوں کو قومی سلوگن بنایا دیاگیا ہے۔ اس صورت حال میں فوج کے ترجمان کا جواب مناسب اور ضروری تھا۔
میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس البتہ بہت تفصیلی تھی اور اس میں پاکستان کی تاریخ، بھارت کے ساتھ تعلققات کی نوعیت، ماضی میں ہونے والی جنگوں کا حوالہ اور دہشت گردی میں بھارت کے کردار جیسے اہم معاملات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ففتھ جنریشن وار کا حوالہ دیتے ہوئے نئی نسل کی گمراہی کے بارے میں پریشانی کا اظہار کرنے کے علاوہ پاکستانی میڈیا کا بھارتی میڈیا سے مقابلہ کرتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ ’دو طرح کے میڈیا ہوتے ہیں۔ ایک جنگ کا میڈیا اور ایک امن کا میڈیا۔ بھارت کا میڈیا جنگی صحافت کررہا ہے جبکہ میں پاکستانی میڈیا کو سراہنا چاہتا ہوں جو امن پھیلا رہا ہے۔ اور بہت ذمہ دارانہ رپورٹنگ کر رہا ہے۔ یہی دونوں ممالک کے میڈیا کا فرق ہے‘ ۔
شاید میجر جنرل صاحب کو بھی اس بات کا ادراک ہو گا کہ پاکستان کا میڈیا بھی بھارتی میڈیا کی اشتعال انگیزی کے مقابلے میں قدرے دھیما رویہ اسی لئے اختیارکیے ہوئے ہے کیوں کہ ملک کی حکومت اور فوج جنگ اور سخت اقدامات کی دھمکیوں کے جواب میں تحمل اور خاموش سفارت کاری کا مظاہرہ کررہی ہے۔ بدنصیبی سے بھارت ہو یا پاکستان یا دنیا کا کوئی دوسرا ملک جنگ کی صورت حال میں قومی جنون کا پرچار ہی اس کے میڈیا کا وطیرہ رہا ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال نائین الیون کے بعد امریکی میڈیا کے جنگجویانہ اور غیر متوازن رویہ کی صورت میں پیش کی جاسکتی ہے۔ حالانکہ امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے اور اس کی فوج کو بظاہر دنیا کی کوئی طاقت چیلنج کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس کے باوجود امریکی میڈیا عراق پر حملہ کے لئے اپنی ہی حکومت کے جھوٹ کی گرفت کرنے میں ناکام رہا تھا۔ اس تناظر میں پاکستانی میڈیا کے موجودہ رویہ کو حکومت کے متوازن اور ہوشمندانہ طرزعمل کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے۔
اس سے قطع نظر پاک فوج کے ترجمان جب کسی معاملہ پر ملکی میڈیا کی تحسین کرتے ہیں تو اس سے اس شبہ اور چہ میگوئیوں کی توثیق ہوتی ہے کہ ریاست کے بعض طاقت ور ادارے ملکی میڈیا پر بالواسطہ سنسر شپ نافذ کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس صورت حال کا ذکر چند ہفتے پہلے فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ میں تفصیل سے کیا گیا ہے۔ اسی فیصلہ میں عدالت عظمی کے ججوں نے یہ نشاندہی بھی کی تھی کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ کو سیاسی معاملات پر خیال آرائی نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ یہ رویہ ملک کے آئین اور جمہوری نظام کے خلاف ہے۔ تاہم گزشتہ روز میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس تفصیلی ہونے کے علاوہ زیادہ تر سیاسی تھی۔ اس میں تاریخ کے حوالے اور بھارتی حکومت کی سیاست کا ذکر کرنے کے علاوہ ہمسایہ ملکوں سے تعلقات اور ملک کی صورت حال کے بارے میں مفصل بات کی گئی ہے۔
اسی لئے اس گفتگو پر احتیاط سے غور کرنے اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاک فوج کے ترجمان جب وزیراعظم کے الفاظ دہراتے ہیں اور حکومتی پالیسی کی تحسین کرتے ہیں تو وہ ایک جمہوری نظام میں ووٹ سے منتخب ہونے والے ایک رہنما کے سامنے فوج کی اطاعت کا اعلان کررہے ہیں یا یہ بتا رہے ہیں کہ ملک کا وزیر اعظم بھی فوج ہی کی زبان بولتا ہے۔ اور وہی کہتا اور کرتا ہے جو فوج چاہتی ہے۔ اس وقت سول ملٹری ہم آہنگی یا ان دونوں اداروں کے ایک پیج پر ہونے کا بہت چرچا ہے۔
لیکن یہ صورت حال 2008 اور 2013 میں برسر اقتدار حکومتوں کے ساتھ دکھائی نہیں دیتی تھی۔ ایک حکومت میمو گیٹ کے گرداب میں پھنسی رہی تو دوسری کو ڈان لیکس اور پانامہ پیپرز جیسے سانحات کا سامنا رہا۔ وہی ملک، وہی نظام لیکن جاننا چاہیے کہ اب کون سی ایسی انہونی رونما ہوچکی ہے کہ کوچہ کوچہ سول حکومت اور فوج کی محبت کا چرچا ہے۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ نے بھارت کے ساتھ تعلقات کی تاریخ بتاتے ہوئے یہ اعتراف تو کیا ہے کہ ’ہم نے غلطیاں کیں اور ان سے سیکھا بھی لیکن اب نہ غلطی کی گنجائش ہے اور نہ اس کا ارادہ ہے۔ پاکستان نے پلوامہ واقعے کے بعد پہلے سوچا، تحقیق کی اور پھر جواب دیا اور جواب بھی ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر دیا‘ ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان کے معاشی مسائل ہوں یا سماجی تنازعات، اس کی ساری ذمہ داری بھی بھارتی سازشوں کو قرار دیا ہے۔
پاکستان کے خلاف بھارت کے عناد اور دشمنی کی تاریخ بتاتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور اگر ان ’غلطیوں‘ کا تھوڑا سا ذکر بھی کردیتے جو اس دوران پاکستان سے سرزد ہوئی ہیں اور جن کی طرف انہوں نے اپنی پریس بریفنگ میں اشارہ بھی کیا ہے، تو یہ بیان بھی پلوامہ کے بعد حکومت اور فوجی قیادت کے متوازن رویہ کی طرح موزوں اور مناسب دکھائی دیتا۔ ویسے بھی کسی تنازعہ میں فریقین کی کم زیادہ تو ہو سکتی ہے لیکن یہ کہنا محال ہے کہ 70 برس پر محیط تعلقات میں غلطیاں صرف بھارت کرتا رہا اور ان کا نشانہ پاکستان بنا۔
پریس کانفرنس میں یہ مؤقف بھی پیش کیا گیا ہے کہ پاکستان جس وقت بھی استحکام کی طرف گامزن ہوتا ہے، اسی وقت بھارت میں کوئی نہ کوئی سانحہ رونما ہوجاتا ہے جس کا الزام پاکستان پر عائد کرکے اس کے لئے حالات کو دگرگوں کردیاجاتا ہے۔ فوج کے ترجمان کے الفاظ کو اگر اسی طرح سمجھ لیا جائے جیسے انہیں بیان کیا گیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ بھارتی حکومت اور ادارے پاکستان کی خوشحالی میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے خود اپنے ہاں دہشت گردی کے واقعات کی سرپرستی کرتے ہیں۔
نرم سے نرم لفظوں میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ دشمنی اور کدورت کے ماحول کے باوجود اس قسم کے سنگین الزام سے احتراز کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں ہونے والے سارے بڑے دہشت گرد حملوں کی کڑیاں کسی نہ کسی طرح پاکستان میں سرگرم جہادی تنظیموں سے ملتی رہی ہیں۔ عالمی سطح پر اس حوالے سے کافی حد تک بھارتی مؤقف کی تائد کی گئی ہے۔ خاص طور سے 2008 کے ممبئی حملوں کے الزام میں ہی حافظ سعید احمد کو عالمی دہشت گرد قرار دے کر امریکہ نے اس کی گرفتاری پر 10 ملین ڈالر کا انعام مقرر کررکھا ہے۔
جبکہ حافظ سعید اور ان کی تنظیموں کو پاکستان میں عزت و وقار اور سرپرستی حاصل رہی ہے۔ قومی سیکورٹی کمیٹی نے جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی لگانے کا فیصلہ بھی انہی الزامات کی روشنی میں کیا تھا۔ اس مثبت فیصلہ کی تعریف بھی کی جارہی ہے اور یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ حافظ سعید اور اثاثہ سمجھے جانے والے اس قسم کے دیگر عناصر کے خلاف کارروائی کب ہوگی۔ حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر جیسے لوگوں کی گرفت کرنے سے ہی دراصل عالمی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی خلوص نیتی کا ثبوت فراہم ہوگا۔
بھارتی فوج اور حکومت کی پالیسیاں اور حکمت عملی بلاشبہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی جد و جہد کو تشدد میں تبدیل کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ نوجوان کشمیریوں میں نئی دہلی کے خلاف غم و غصہ میں اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن کشمیر کے جہادی گروہوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی تاریخ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ماضی میں اسے سرکاری پالیسی کے طور پر اختیار کرکے مقبوضہ کشمیر میں امن و امان کی صورت حال پیدا کی گئی تھی جس کی وجہ سے کشمیریوں کی پر امن جد و جہد کو بھی نقصان پہنچا اور بھارت کو کشمیریوں کی ناراضگی کے ہر اظہار کا الزام پاکستان پر لگانے کا موقع بھی ملا۔ پلوامہ سانحہ کے بعد اسی رویہ کے باعث پاکستان پر الزام عائدکیے جارہے ہیں۔ تاہم وزیر اعظم اور میجر جنرل غفور کی طرف سے نیا پاکستان اور نئی ذہنیت کا دعویٰ کرتے ہوئے اگر ماضی کی غلطیوں کا معمولی سا احساس و اعتراف کرلیا جائے تو پاکستانی مؤقف زیادہ نکھر کر سامنے آسکتا ہے۔
نیا پاکستان کا نعرہ تحریک انصاف نے سیاسی ضرورت پوری کرنے کے لئے اختیار کیا ہے۔ اس نعرہ کی اصلیت اور معنویت پر ملک میں سیاسی انتشار کی حد تک اختلاف رائے موجود ہے۔ تاہم میجر جنرل آصف غفور نے بھی پریس کانفرنس میں وزیر اعظم کے حوالے سے اس نعرے کو دہرانا ضروری سمجھا۔ اس طرح یہ لگا کہ یا تو عمران خان نے بدھ کو جب قوم کے نام پیغام میں بھارت کو اشتعال انگیزی سے باز رہنے کا مشورہ دیاتھا تو وہ فوج کی تیار کی ہوئی پالیسی کا اعلان تھا۔
یا یہ سمجھا جائے کہ نئے پاکستان کی فوج اب وہی زبان بولنے کی عادی ہوتی جارہی ہے جو ملک کا ’منتخب وزیر اعظم‘ بولتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی اقتدار اور اختیار کے حوالے سے معاملات میں فوج کے اثر و رسوخ کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ سول حکومت اگر فوج کے ساتھ مل کر معاملات طے کرتی ہے تو یہ قابل تحسین ہے۔ اسی طرح اگر فوج وزیر اعظم کی تعظیم اور احترام کرتی ہے تو یہ عین آئین کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ تاہم پاکستان کا ریاستی انتظام اس مثالی صورت حال کی شبیہ پیش نہیں کرتا۔ ملک میں شاید ہی کوئی ذی شعور ہوگا جو یہ نہ جانتا ہو کہ فیصلے کہاں ہوتے ہیں اور کسی بھی منتخب سول حکومت کی ’حدود‘ کیا ہیں۔
اس پس منظر میں اگر فوج کے ترجمان اپنی پریس کانفرنس میں عمران خان کے ارشادات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے عجز و تابعداری کا اظہار کریں گے تو وزیر اعظم کے کٹھ پتلی ہونے کا تاثر قوی تر ہوجائے گا۔ یہ صورت حال نہ جمہوری انتظام کے حوالے سے مستحسن ہوگی اور نہ ہی بھارت کے ساتھ تصادم کی کیفیت میں اس کا کوئی اچھا اثر مرتب ہوسکتا ہے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ