ادھر یہ خبر آتی ہے کہ ملک میں افراط زر کی شرح گزشتہ پانچ برس میں بلند ترین سطح تک پہنچ چکی ہے ، تو اسی روز وفاقی کابینہ ملک سے غربت خاتمہ پروگرام کے لئے علیحدہ شعبہ قائم کرنے اور وزیر اعظم کے منصوبے ’احساس‘ کے تحت غریبوں کی اعانت کے نئے پروگرام کی منظوری دیتی ہے۔ بظاہر ان دو واقعات میں سوائے اس کے کوئی مماثلت نہیں ہے کہ یہ دونوں غریبوں سے متعلق ہیں۔ ایک میں ہوشربا مہنگائی کی سچائی سامنے آئی ہے اور دوسرے میں ملک کی حکومت اس مہنگائی سے متاثرین کے لئے ’امدادی پیکیج‘ کو عملی شکل دے رہی ہے۔
معاشی جبر کی اس دوڑ میں البتہ یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ حکومت کا منصوبہ کامیاب ہوگا یا معیشت کا جبر جو سیاسی ضرورتوں کا نہیں بلکہ اقتصادی حقیقتوں کا محتاج ہوتا ہے۔ عمران خان ملک سے غربت ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسے حالات پیدا کرنے سے قاصر ہیں جو غریبوں کے لئے ریلیف کا سبب بن سکیں۔ آج وفاقی کابینہ نے گو کہ ملک کے غریبوں کو ہیلتھ کارڈ، کفالت اور سستے رہائشی منصوبے فراہم کرنے کی نوید دی ہے لیکن آج ہونے والے فیصلوں میں جو فیصلہ امید کی معمولی سی کرن دکھانے کا سبب بن سکتا ہے ، وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل نہ کرنے کا باقاعدہ فیصلہ ہے۔
وزیر اعظم نے دو روز قبل گھوٹکی کے دورہ کے دوران سیاسی حلیفوں کے اس اعتراض کو ہمدردی اور غور سے سنا تھا کہ اس وفاقی امدادی پروگرام کو بے نظیر کے نام سے منسوب کرنے کی وجہ سے یہ قیاس ہوتا ہے کہ یہ کام سندھ حکومت کررہی ہے یا یہ کہ پیپلز پارٹی سے اس کا براہ راست تعلق ہے۔ لہذا نابغان عصر نے یہ تجویز وزیر اعظم کے گوش گزار کی کہ اس امدادی پروگرام سے بے نظیر کا نام ہٹا دیا جائے۔ تاکہ حق بہ حقدار رسید کے مصداق اس کا کریڈت موجودہ حکومت کو مل سکے۔ گویا غریبوں کی مدد حکومت کا فرض نہیں بلکہ اپنے سر سہرا باندھنے کی دوڑ ہے۔ اس معاملہ میں چونکہ یہ اندیشہ سامنے لایا گیا تھا کہ بے نظیر کے نام کی وجہ سے اس کا سیاسی فائدہ سندھ حکومت یا پیپلز پارٹی اٹھا رہی ہے ، اس لئے عمران خان نے بھی یک بیک فرمایا ’بس سمجھو ہوگیا‘۔
’بس سمجھو ہوگیا‘ کے فرمان شاہی کے بعد میڈیا میں اس خبر کا چرچا ہؤا، پیپلز پارٹی کا احتجاج سامنے آیا اور لوگوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ملک پر ایسی کون سی آفت برپا ہوگئی ہے کہ ایک امدادی پروگرام کو جو پیپلز پارٹی کے دور میں شروع کیا گیا تھا اور ملک کی شہید سیاسی لیڈر بے نظیر بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اس امدادی منصوبہ کو جس کے تحت غریب خاندانوں کو مالی امداد فراہم کی جاتی ہے ، شہید لیڈر کے نام سے منسوب کردیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ (ن) نے پانچ برس حکومت کی لیکن اس پروگرام کو نہ تو تبدیل کیا گیا اور نہ ہی اس کا نام بدلنے کی کوئی تجویز سامنے آئی۔ یہ اقدام اس خیر سگالی اور قومی یک جہتی کا اظہار تھا کہ ملک و قوم کے لئے کام کرنے والے اور جان کی بازی ہارنے والے لیڈر سب کے ہوتے ہیں۔
بے نظیر ہو یا ذوالفقار علی بھٹو ، انہوں نے پیپلز پارٹی کی سرخروئی کے لئے نہیں بلکہ ملک میں جمہوریت اور عوام کی حکمرانی کے لئے جان دی تھی۔ سیاسی نظریات سے قطع نظر پوری قوم ان لیڈروں کو اعزاز دیتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی سیاست سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ذولفقار علی بھٹو ہوں یا بے نظیر بھٹو، ان کی سیاسی حکمت عملی کے بارے میں بھی دو رائے ہوسکتی ہیں لیکن اس بات پر کسی کو اختلاف نہیں کہ یہ دونوں اس دھرتی کے ایسے ہونہار ستارے تھے جنہوں نے قومی مفاد میں جان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ اسی لئے عمران خان کا فرمان ’سمجھو بس ہو گیا‘ اس عمومی قومی تفہیم اور اتفاق رائے کو ختم کرنے کی طرف افسوسناک اشارہ تھا۔
یہ قابل قدر بات ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ نے کسی اضطراری کیفیت میں کئے ہوئے وعدے کی بجائے وسیع تر قومی مفاد کو عزیز جانا اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کا باقاعدہ فیصلہ کرنے سے گریز کیا گیا۔ حکومت اگر یہ اقدام کرتی تو برسر اقتدار سیاسی قوت ہونے کے طور پر کوئی اس کا راستہ روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا لیکن اس سے ملک میں سیاسی اختلاف کی بنیاد پر خیالات اور سیاست کی بجائے افراد کو مسترد کرنے کے مزاج کو فروغ ملتا۔ یہ فیصلہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خلیج میں اضافہ بھی کرتا اور سیاسی غلط فہمیوں میں اضافہ ہوتا۔
تحریک انصاف کی حکومت نے یہ ہوشمندانہ فیصلہ کرکے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ اسے ملک کو درپیش معاشی اور سیاسی چیلنجز کی موجودہ صورت حال میں اپنی مجبوریوں اور اپوزیشن کے ساتھ تعاون کی ضرورت کا کسی حد تک احساس ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم اب تک آئینی تقاضوں کے مطابق الیکشن کمیشن کے صوبائی ارکان کی نامزدگی کے لئے اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کا اہتمام کرنے سے گریز کررہے ہیں اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ تحریری طور پر مشاورت کو کافی سمجھتے ہیں اور شہباز شریف جیسے اپوزیشن لیڈر سے ملنا درست نہیں سمجھتے۔ اس کثیف سیاسی ماحول میں بے نظیر انکم سپورٹ کا نام تبدیل نہ کرنے کا اعلان تازہ ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے کی مانند ہے ۔ کیوں کہ ملک میں سیای ہم آہنگی اور اتفاق رائے کی جس قدر ضرورت اس وقت ہے وہ شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی اور گیس کے بعد پیٹرولیم مصنوعات میں تازہ ترین اضافہ کے نتیجہ میں ہی اس وقت افراط زر کی شرح ڈبل ڈیجٹ کو چھونے والی ہے۔ حکومت کا شاید ان حالات پر کوئی براہ راست کنٹرول نہیں ہے لیکن افراط زر کے علاوہ ملک میں پیداواری شرح بھی کم ہو کر بمشکل تین فیصد تک رہ گئی ہے۔ حالانکہ وزیر خزانہ ضمنی بجٹ میں قومی پیداوار میں سات فیصد اضافے کی نوید دے چکے تھے۔ ا قتصادی ماہرین کے اندازوں کے مطابق یہ معاشی اشاریے مزید چالیس لاکھ افراد کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیں گے جو پہلے ہی ملک کی نصف آبادی کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ افراط زر کی موجودہ شرح اور قومی پیداوار میں انحطاط کی وجہ سے مزید دس لاکھ افراد بے روزگار ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ اسی سال کے دوران مزید 18 لاکھ نوجوان روزگار کی منڈی میں قسمت آزمانے کے لئے نکلیں گے۔ ان حالات میں وزیر اعظم عمران خان اگر اپنے ارادوں اور ’وژن‘ کے مطابق اپنے دور حکومت کے دوران ملک میں 50 لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو بھی بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہی رجسٹر کیا جائے گا۔
یہ معاشی تعطل موجودہ سیاسی بے یقینی اور عالمی اداروں کے دباؤ کی وجہ سے سنگین صورت اختیار کررہا ہے۔ ان اداروں میں دہشت گردوں کی فنانسنگ کنٹرول کرنے والا ادارہ ایف اے ٹی ایف سر فہرست ہے ۔ اس ادارے نے پاکستان کو اپنی گرے لسٹ پر ڈالا ہؤا ہے اور اس کے بیانات میں واضح کیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لئے حکومت پاکستان کے اقدامات کو کافی نہیں سمجھتا۔ اس لئے اس اندیشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ جون تک اگر انتہا پسند گروہوں اور ان کی مالی اعانت کے بارے میں ٹھوس نتائج سامنے نہ آسکے تو ایف اے ٹی ایف پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں ڈال سکتا ہے۔
ایسا اقدام ملک کی معیشت کے لئے تباہ کن ہوگا اور حکومت کی مشکلوں میں شدید اضافہ کرے گا۔ معیشت کی بہتری اور انتہا پسندی کے خلاف کئے جانے والے فیصلے ملک میں سیاسی اختلاف رائے کی وجہ سے مؤثر ثابت نہیں ہورہے۔ اس کا اثر ملکی معاشی احیا پر مرتب ہورہا ہے۔ قومی پیداوار میں اضافہ ہی افراط زر جیسی علت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ تاہم تحریک انصاف نے اپوزیشن کے ساتھ تصادم کی پالیسی اختیار کرکے اور کرپشن کے ایک نکاتی ایجنڈے پر سارا فوکس کرکے ملکی معاشی جمود میں اضافہ کیا ہے۔
اس دوران پاک فوج کے کورپس کمانڈرز کے 220 ویں اجلاس میں واضح کیا گیا ہے کہ فوج علاقائی امن کے لئے پرعزم ہے۔ پاک فوج نے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لئے حکومت اور تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے اقدامات کی حمایت کرتی ہے۔ یہ اعلان اس بات کا اشارہ ہے کہ ملک میں انتہا پسندی کے خلاف کی جانے والی کوششوں کو مربوط کرنے کے لئے عسکری قوت کی تائید حاصل ہے۔ یہ اشارہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بالقصد تعاون کا تقاضہ بھی کرتا ہے۔ اجلاس کے دوران پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ’دہشت گردی کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کے بعد پاکستان ایک ایسی ریاست کی شکل میں سامنے آرہا ہے جس میں ہتھیاروں کا استعمال صرف ریاست کا اختیار ہے۔ اس کے ساتھ ہی سماجی و معاشی ترقی کو برتری حاصل ہورہی ہے‘۔ جنرل باجوہ کا یہ اعلان اگرچہ حقیقی قومی صورت حال کا عکاس نہیں ہے لیکن ملکی سماجی اصلاح اور معاشی بہبود کے لئے فوج کے مقصد کی نشاندہی ضرور کرتا ہے۔
یہ بیان البتہ صرف اسی وقت عوام کو مطمئن کرنے اور معاشی بہتری میں کردار ادا کرنے کا سبب بن سکتا ہے اگر ملک کی حکومت اور دیگر سیاسی قوتیں بھی اپنی ذمہ داری کو تسلیم کریں اور حالات کو ایسی نہج پر نہ لے جائیں کہ معاملات ان کے ہاتھ سے نکل جائیں۔
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ