حکومت عالمی مالیاتی فنڈ سے امدادی پیکیج لینے کے لئے سخت تگ و دو کررہی ہے اور اب اطلاع دی گئی ہے کہ آئی ایم ایف کی ٹیم اس ماہ کے آخر تک اسلام آباد کا دورہ کرے گی تاکہ باقی ماندہ تحفظات دور کرتے ہوئے ملکی معیشت پر طاری بے یقینی کو ختم کیا جا سکے۔ حکومت کی ان کوششوں کے دوران وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے رکن اور ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے پاکستان کے بارے میں آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کی ’سازش‘ اور ان ہتھکنڈوں کا ذکر کیا ہے جن کے تحت یہ ادارے پاک چین اقتصادی راہداری پر کام رکوانا چاہتے ہیں اور ملک میں معاشی ہیجان پیدا کرکے ایک سماجی و سیاسی بحران پیدا کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ڈاکٹر اشفاق حسن نے انگریزی روزنامہ دی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے حکومت کو آئی ایم ایف سے قرض نہ لینے کا مشورہ دیا تھا کیوں کہ پاکستان اس وقت بڑی طاقتوں کا چہیتا نہیں ہے بلکہ ’وہ اب لائن کے دوسری طرف کھڑا ہے‘ ۔
https://www۔ thenews۔ com۔ pk/print/ 457941۔ world۔ powers۔ blackmailing۔ pakistan۔ on۔ imf۔ bailout۔ eac۔ member۔ dr۔ ashfaque۔ says۔ foreign۔ powers
ڈاکٹر اشفاق حسن خان اگر ایک عام شہری ہوتے اور مالی معاملات میں وزیر اعظم کو مشورے دینے والی کونسل کے رکن نہ ہوتے تو ان کی باتوں کو ایک فرد واحد کے خیالات جان کر سنا اور نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ تاہم ایک تو وہ معیشت کے ماہر ہیں اور ملک کی ممتاز یونیورسٹی نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں خصوصی سائنسی علوم اور فنون عامہ کی فیکیلٹی کے ڈین ہیں۔ دوسرے وزیر اعظم کی مشاوری کونسل کا رکن ہونے کی حیثیت سے اگر ان کی حیثیت سرکاری ترجمان کی نہ بھی ہو تب بھی یہ قیاس کیا جائے گا کہ ان کی رائے کسی حد تک حکومت سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔
اس طرح ان کے انٹرویو سے ملک کی معاشی حکمت عملی، ترجیحات اور امکانات کے علاوہ دائرہ کار، اصولوں اور سیاسی بنیاد کے بارے میں متعدد سوال پیدا ہوتے ہیں۔ بحران اور بے یقینی کا شکار کسی بھی ملک میں معیشت کے خلاف ہونے والی سازشوں کا یوں برملا اظہار حکومت کی ناقص حکمت عملی سمجھا جائے گا۔ یہ تصور کیا جائے گا کہ حالات حکمرانوں کے کنٹرول یا سمجھ سے باہر ہیں۔ یہ دونوں باتیں سخت پریشان کن ہو سکتی ہیں۔ اسی لئے ڈاکٹر اشفاق حسن کے انٹرویو کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
ایک ماہر معیشت کے طور پر ڈاکٹر اشفاق حسن نے معاشی حالات کا سائنٹیفک اور علمی طور پر جائزہ لینے کی بجائے پاکستان کو معاشی طور سے قلاش کرنے اور سیاسی طور سے بحران کا شکار کرنے کی ’عالمی سازش‘ کا انکشاف کیا ہے۔ یہ خیالات اس قدر چونکا دینے والے ہیں کہ یا تو یہ سمجھا جائے کہ حکومت خود ان معلومات کو کسی طرح باہر لا کر عوام کی تائید و حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ ملکی مفادات کے خلاف ایسی سازشوں کو ناکام بنا سکے یا پھر یہ تاثر غالب آئے گا کہ ڈاکٹر اشفاق جیسے ہونہار مشیران کے ہوتے ہوئے بھی وزیر خزانہ اسد عمر آئی ایم ایف جیسے ادارے سے لین دین کے ذریعے معیشت کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔
اس صورت میں وزیر اعظم خود ہی اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ آیا وزیر خزانہ کی خوش خبریوں سے بھرپور باتوں کو مانا جائے یا ان کے مشیر ڈاکٹر اشفاق کی اس بات پر بھروسہ کیاجائے کہ عالمی طاقتیں پاکستان کے خلاف سازش کا جال بن رہی ہیں اور آئی ایم ایف دراصل اس سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر اس بات پر بھروسہ کر لیا جائے تو تحریک انصاف کی حکومت کی نیک نیتی اور دیانت داری مشکوک ہوجاتی ہے۔
اس بات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان نکات پر نظر ڈال لی جائے جو ڈاکٹر اشفاق حسن خان کے اس انٹرویو میں سامنے آئے ہیں :
1۔ بین الاقوامی قوتیں سی پیک پر کام معطل یا مؤخر کروانا چاہتی ہیں۔ حالانکہ یہ منصوبہ پاکستانی معیشت کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
2۔ پاکستان اس وقت عالمی قوتوں کا پسندیدہ ملک نہیں ہے۔ ماضی میں اسے حلیف کی حیثیت حاصل رہی ہے لیکن حالات تبدیل ہوچکے ہیں اور پاکستان اس وقت لائن کے دوسری طرف موجود ہے۔ اسی لئے میں نے تحریک انصاف کی حکومت کو اس مرحلے پر آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا مشورہ دیا تھا۔
3۔ یہ طاقتیں آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ انڈو پیسیفک اشتراک (جس میں امریکہ بھارت کے علاوہ جاپان اور آسٹریلیا جیسے ملکوں کے ساتھ چینی اثر و رسوخ کا سامنا کرنا چاہتا ہے ) اس وقت دنیا میں چین کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے متحرک ہے۔
4۔ بھارت نے سرحدوں پر فوجیں متعین کی ہیں۔ اس کی معیشت اس کا بوجھ برداشت کرسکتی ہے۔ لیکن پاکستان کی بدحال معیشت یہ بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ لیکن بھارت کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کو بھی فوجوں کو چوکس رکھنا پڑا ہے۔ یہ اخراجات پورے کرنے کے لئے ترقیاتی بجٹ کو کم کرنا پڑے گا۔ دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا۔ لیکن سیاسی پارٹیاں کی طرف سے اور سوشل میڈیا پر اس اقدام کی مخالفت کی جائے گی۔
5۔ اس صورت حال میں عوام اور مسلح افواج کے درمیان فاصلہ پیدا ہوگا۔ عالمی مالیاتی اداروں کا مقصد بھی یہی ہے۔ اس طرح دنیا کی بڑی معیشتوں کے اثر کی وجہ سے یہ عالمی ادارے اب اس مقصد کے لئے منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
6۔ عالمی بنک نے پیش گوئی کی ہے کہ پاکستان کی قومی پیداوار میں اضافہ چار فیصد سے کم رہے گا۔ جبکہ آئی ایم ایف نے مزید سنسنی خیز اعداد و شمار دیتے ہوئے اس شرح کو اڑھائی فیصد تک بتایا ہے۔ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کی معیشت کے بارے میں یہ گمراہ کن اعداد وشمار پیش کرنا ایک گہری سازش کا حصہ ہیں۔ تاکہ ملک کے تجارتی طبقہ میں بے چینی پیدا ہو۔
7۔ ایک طرف آئی ایم ایف تخمینہ پیش کررہا ہے کہ پاکستان کی قومی پیدا وار اڑھائی فیصد تک گرجائے گی دوسری طرف وہ حکومت پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ اسے آئندہ مالی سال میں 5400 ارب روپے کے ٹیکس اور محصولات جمع کرنے ہوں گے۔ قومی پیداوار میں کمی کی اس شرح میں حکومت کی آمدنی میں اضافہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا۔
8۔ پاکستان اگر محاصل میں اضافہ کے بارے میں آئی ایم ایف کا مطالبہ مان لیتا ہے تو حکومت کو ہر تین ماہ بعد ٹیکسوں میں اضافہ کرنے کے لئے نیا منی بجٹ لانا پڑے گا۔ اور پاکستانیوں کی حالت انتہائی تکلیف دہ ہوجائے گی۔
9۔ ان ہتھکنڈوں سے عالمی ادارے عالمی سطح پر پاکستان کی قرض لینے کی ریٹنگ میں کمی کروائیں گے اور بین الاقوامی منڈیوں سے پاکستان کے لئے قرضوں کا حصول ناممکن بنا دیا جائے گا۔
10۔ آئی ایم ایف محاصل میں اضافہ کے علاوہ ڈالر کی شرح میں اضافہ اور ملک کے ترقیاتی بجٹ میں کمی چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافہ تجویز کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدام کرنے سے نجی شعبہ کے لئے قرض لینا مہنگا ہوجائے گا اور وہ قرض لینا بند کردے گا۔ اس طرح معیشت تعطل کا شکار ہوجائے گی۔
11۔ پاکستان نے روپے کی قیمت میں 36 فیصد کمی کی گئی ہے لیکن برآمدات میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ بلکہ ان میں 11 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
ڈاکٹر اشفاق حسن کا بیان حکومت کی پالیسیوں پر اظہار عدم اطمینان کے علاوہ ملکی معیشت اور سیاست کے بارے میں ایک عالمی سازش کا انکشاف کر رہا ہے۔ اس انٹرویو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دنیا کی بڑی معیشتیں عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ مل کر جن میں آئی ایم ایف بھی شامل ہے، پاکستان کی معیشت کو تباہ، سی پیک کو رول بیک اور فوج اور عوام کے درمیان تفرقہ ڈلوانے کا اقدام کرنا چاہتی ہیں۔ یہ سنگین الزامات ہیں۔ اگر ان الزامات کو درست مان لیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ اسد عمر کی قیادت میں واشنگٹن میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے والا پاکستانی وفد دراصل اس سازش میں مہرے کا کردار ادا کررہا تھا۔ کیوں کہ جس آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب مذاکرات اور معاہدے کی نوید وزیر خزانہ نے جمعرات کو واشنگٹن میں سنائی تھی، اب ڈاکٹر اشفاق حسن بتا رہے ہیں کہ وہ ادارہ تو عالمی طاقتوں کا آلہ کار ہے اور پاکستان کو تباہ کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔
اہل پاکستان کو گزشتہ 70 برس سے سازشوں کے قصے سنا کر بے وقوف بنایا جاتا رہا ہے۔ حیرت ہے کہ اس سنسنی خیز انٹرویو کے بعد چھوٹی سے چھوٹی بات پر بیان جاری کرنے والے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کوئی وضاحت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ نہ ہی وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایسے مشیر کو اس کونسل سے فارغ کرنے کا اعلان کیا ہے جسے ملکی معیشت کو استحکام بخشنے کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ تاکہ حکومت بہترین ماہرین کے مشورہ اور رہنمائی میں معاشی پالیسیاں بنا سکے۔ حیرت ہے کہ اب اس کونسل کا ایک رکن مالی معاملات کے توسط سے پاکستان کے خلاف عالمی سازش کا خبر لایا ہے۔
حکومت اگر اس سازش کی تردید نہیں کرتی تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ اس عالمی گٹھ جوڑ کا حصہ ہے اور ڈاکٹر صاحب جیسے محب وطن کو اپنی معلومات عام کرنے کے لئے میڈیا کا سہارا لینا پڑا ہے۔ اگر ڈاکٹر اشفاق حسن کی باتیں فرضی قصے اور شدید حب الوطنی کا بلا جواز اظہار ہے تو ایسے غیر ذمہ دار شخص کا وزیر اعظم کی اقتصادی کونسل میں کیا کام ہے؟
حکومت کی طرف سے اس سلسلہ میں کوئی وضاحت سامنے نہ آئی تو یہ سمجھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب کا بیان عالمی سازش کے بہانے ملک کے اندر پکائی جانے والی کھچڑی کی کہانی بیان کر رہا ہے۔ سیاسی معاملات میں ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے انہوں نے انٹرویو میں ایسے الفاظ استعمالکیے ہیں جن سے رونگٹے تو کھڑے ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی درپردہ ڈوریاں ہلانے والوں کے نشان پا کا سراغ بھی چھوڑ رہے ہیں۔ حکومت کی خاموشی اس جرم میں حصہ دار ہونے کی تصدیق کرے گی۔ ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا بیان اس قدر سنگین اور دوٹوک ہے کہ وزیر اعظم کو فوری طور پر پارلیمنٹ میں اس کی وضاحت کرنی چاہیے اور اس بارے میں سامنے آنے والے سوالا ت کا جواب دینا چاہیے۔
پاکستان کو اس کے حکمرانوں کی بداعمالیوں نے اس حالت تک پہنچایا ہے۔ اب عالمی سازشوں کو ’سرکاری‘ حیثیت دینے سے عوام کی بے چینی اور ملکی مسائل میں اضافہ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ