بھارت میں انتخابات کے بعد اس بات پر تشویش اور پریشانی کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسند عناصر نے زور پکڑا ہے اور نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کا سیکولر مزاج انتہاپسند ہندو معاشرے میں تبدیل ہوجائے گا۔ بھارت کی انتخابی مہم کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی نے جس طرح ہندو قوم پرستی کا نعرہ لگایا اور وہاں پر آباد ہندو اکثریت کا غلبہ نافذالعمل کرنے کا عندیہ دیا ہے، اس کی وجہ سے بھارت کا غور و فکر کرنے والا طبقہ بھی پریشان ہے اور اس کے ہمسایہ ملکوں میں بھی ا س بارے میں حیرت اور دکھ کا اظہار کیا جارہا ہے۔
پاکستان میں بھی بھارت میں ہندو توا کے مقبول ہونے اور اس ہندو نظریہ کی پیروی کرتے ہوئے ایک خاص عقیدہ کو پروان چڑھانے اور دوسری مذہبی اقلیتوں کو سیاسی، معاشی اور سماجی لحاظ سے کچلنے کے امکانات کے حوالے سے شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ اس کی بظاہر دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ بھارت میں 20 کروڑ کے لگ بھگ مسلمان رہتے ہیں اور پاکستانی مسلمان آبادی اور قیادت کو ان کے بارے میں تشویش لاحق رہتی ہے۔ اس کی دوسری وجہ کشمیر کی صورت حال ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی ایک طرف بھارت میں ہندو دیش کی بنیاد رکھنے کا عزم رکھتی ہے جہاں اقلیتوں کو اکثریت کے بنائے ہوئے قاعدے اور اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا ہوگی تو دوسری طرف وہ مسلمان آبادی کے حامل مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے ایسے اقدامات کرنا چاہتی ہے کہ وہاں خود مختاری کا مطالبہ کرنے والی سیاسی قوتوں کا قلع قمع کیا جاسکے۔
بی جے پی اپنے گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت کے دوران بھی کشمیر کے علاوہ اقلیتوں کے بارے میں سخت گیر رویہ اختیار کرتی رہی ہے لیکن اس بار نریندر مودی کی قیادت میں اس پارٹی نے نہ صرف اپنی سیاسی پالیسیوں اور نعروں کی تائید حاصل کرلی ہے بلکہ اسے لوک سبھا میں گزشتہ بار کے مقابلے میں زیادہ نشستیں بھی حاصل ہوئی ہیں۔ نریندرمودی اس بار بڑے واضح انداز میں ہندو ایجنڈے اور پاکستان دشمنی کے نعرے پر ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اس بار ان کی سیاست زیادہ اقلیت دشمن اور پاکستان مخالف ہوگی۔
نریندر مودی کی انتخابی کارکردگی کو جمہوری ملکوں میں انتہا پسند مقبول لیڈروں کی بڑھتی ہوئی سیاسی کامیابی کے عالمی رجحان کے تناظر میں بھی دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔ لیکن بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی اور اس کے عواقب پر غور کرنے اور بھارت کی مذہبی شدت پسندانہ سیاست پر رائے دینے سے پہلے اہل پاکستان کو اپنے ملک کے مذہبی انتہا پسندانہ رجحانات پر غور کرنے کی بھی ضرورت ہوگی۔
پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی اور مسابقت رکھنے کے باوجود ایک ہی خطے کا حصہ ہیں۔ ایک دوسرے کے ہمسائے ہونے کے علاوہ سینکڑوں برسوں پر محیط ثقافتی اور سماجی ورثہ ان میں قدر مشترک ہے۔ انہی مشترکہ خصائص کی وجہ سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کا تصور پیش کرتے ہوئے اور پاکستان حاصل کرنے کے بعد کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ دائمی دشمنی کے راستے پر گامزن ہو جائیں گے۔ جناح کی سیاسی سوچ کے مطابق تقسیم کا ہنگامہ ختم ہوتے ہی دونوں ملک ایسے مراسم استور کرتے جو ان ملکوں کے درمیان مواصلت، تجارت، معاشرت اور ثقافت کے شعبوں میں اشتراک و تعاون کا سبب بنتے۔
تقسیم کے وقت مذہبی بنیادوں پر ہونے والی قتل و غارت گری نے ضرور دونوں ملکوں کے درمیان فاصلہ پیدا کیا لیکن برصغیر کی قیادت نے کبھی مذہب کو اپنے ملکوں کی سیاست پر حاوی کرکے دہائیوں پر مبنی دشمنی پروان چڑھانے کا خواب نہیں دیکھا تھا۔ اس بات سے تو انکار ممکن نہیں ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں برصغیر کی تقسیم کے وقت بھی مذہبی شدت پسند موجود تھے۔ ایسے ہندو عناصر ہندوستان پر مسلمانوں کی ہزار سالہ حکمرانی کا حوالہ دیتے ہوئے اسے ہندوؤں کے ساتھ ظلم قرار دیتے جبکہ مذہبی بنیادوں پر سوچنے والے مسلمان گروہ اور لیڈر ہندوستان سے مسلمان بادشاہت کے خاتمہ کا مرثیہ پڑھتے ہوئے ایک بار پھر پورے ہندوستان پر اسلام کا غلبہ دیکھنے کی آرزو پالتے رہے۔
یہ دونوں انتہا پسندانہ رائے رکھنے والے البتہ یہ ادراک کرنے سے قاصر رہے کہ جس عہد میں مسلمان بادشاہوں نے ہندوستان پر حکمرانی کی تھی اس وقت عوامی حاکمیت یا جمہوری سیادت کا زمانہ نہیں تھا بلکہ طاقت کے زور پر کسی علاقے پر قابض ہو کر حکمرانی کی جاتی تھی۔ جبکہ انگریزوں سے آزادی کی تحریک جمہوری اصول اور عوام کی رائے کی بنیاد پر ہی چلائی گئی تھی اور اسی لئے کامیاب بھی ہوسکی تھی۔
مسلمانوں کے لئے خاص طور سے یہ بات سمجھنے کی ضرورت تھی کہ ہندوستان پر حکومت کرنے والے شاہی خانوادے نام کے لحاظ سے مسلمان ضرور تھے لیکن ان کا طریقہ حکمرانی یا سیاسی انتظام قطعی طور سے غیر مذہبی تھا۔ ان ادوار میں عقیدہ یا مسلک کی بنیاد پر منصب یا عہدہ نصیب نہیں ہوتا تھا بلکہ وفاداری اور صلاحیت ہی اہم خوبیاں سمجھی جاتی تھیں۔ تاریخ کے بارے میں اس شعور کو عام کیا جاسکتا تو آج نہ تو بھارت کے ہندوؤں کو مسلمانوں کی بادشاہت کا ذکر کرکے تاریخی استحصال کے خلاف اکٹھے ہونے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پالنے پر اکسایا جاتا۔
اور نہ ہی پاکستان کے مسلمان یہ باور کرنے لگتے کہ انگریز نے مسلمان مغلیہ خاندان سے حکمرانی چھینی تھی۔ اس لئے ان کے جانے کے بعد مسلمانوں کو ہی حکومت کا حق ملنا چاہیے تھا۔ مسلم لیگ اور کانگرس کی قیادت کو گو کہ اس نزاکت اور ضرورت کا احساس تھا لیکن برصغیر کے مذہبی انتہا پسندوں نے گزشتہ چھے سات دہائیوں کے دوران اس سوچ کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس پس منظر میں ضروری محسوس ہوتا ہے کہ بھارت میں ہندو توا کی مقبولیت اور مسلم دشمن سیاسی مزاج کے فروغ کا سراغ لگانے کے لئے بھارت کے سیاسی، سماجی، معاشی و مذہبی رجحانات کا جائزہ لینے سے پہلے اس بات پر غور کیا جائے کہ پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر انتہاپسندانہ سوچ کو عام کرنے اور سماج میں مل جل کر رہنے کے مزاج کو ختم کرنے میں کن عناصر نے کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان اور بھارت دو علیحدہ ملک ہونے کے باوجود تہذیبی اور تاریخی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان ملکوں میں آباد لوگوں کے سوچنے سمجھنے اور ردعمل کا انداز بھی ایک جیساہے۔ بھارت میں اگر آج ہندو انتہا پسند قوت پکڑ رہے ہیں اور اقلیتوں اور خاص طور سے مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے تو اس کے متعدد عوامل ہوں گے۔ ان میں عالمی رجحانات، معاشی مسائل، سماجی افتراق اور سیاسی نعرے بازی نے بھی کردار ادا کیا ہوگا۔ لیکن سوچنا چاہیے کہ پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر جو انتہاپسندانہ ماحول اور مزاج استوار کیا گیا ہے، کیا اس نے بھی بھارت میں ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف مذہب کی بنیاد پر متحد ہونے پر آمادہ کیا اور مسلمان دشمن رویہ مستحکم ہؤا؟
برصغیر کی تقسیم کے وقت ابھرنے والے جذبات اور سیاسی مجبوریوں یا ضرورتوں کی بنیاد پر بوجوہ ملک میں بانی پاکستان کے تخیل و نظریہ کے برعکس حکمت عملی اختیار کی گئی۔ قرارداد مقاصد اس حوالے سے سب سے پہلی دستاویز تھی جس نے ریاست کو ایک مذہب کی سرپرستی اور دوسروں کو نظر انداز کرنے پر آمادہ کیا۔ اس طریقہ کار کے خلاف فکری اور سیاسی لہر سامنے آنے سے پہلے ہی افغانستان میں کمیونسٹ سوویٹ یونین کی مداخلت نے عالمی طاقتوں کو پاکستان کی سرزمین پر جہادی تحریک کو پروان چڑھانے کا موقع فراہم کیا۔ اب امریکہ کی قیادت میں وہی قوتیں انہی جہادی عناصر کا خاتمہ کرنے کے لئے پاکستان کی سفارتی اور معاشی مشکلات میں اضافہ کررہی ہیں۔
اہل پاکستان نے اس خوں ریزی اور تکلیف دہ تجربہ سے سبق سیکھنے اور اپنا لائحہ عمل تبدیل کرنے پر کبھی غور نہیں کیا۔ ہم ایک طرف اسلام کے نام پر ہونے والی دہشت گردی ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں تو دوسری طرف اس مزاج کو سینچنے کا کام بھی جاری ہے جس کی کوکھ سے مذہب کے نام پر جان دینے اور لینے والے پیدا ہوتے ہیں۔
مذہب کی بنیاد پر سیاست کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک میں ایک ایسی حکومت برسرقتدار ہے جو ’مدینہ ریاست‘ کا نعرہ بیچتی ہے اور کسی کو فکری، تاریخی یا سیاسی لحاظ سے اسے چیلنج کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ ملک کا وزیر اعظم پاکستانی عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے مسلم امہ کے درد کو سیاسی چورن کے طور پر فرخت کرکے مقبولیت کے گھوڑے پر سوار رہنا چاہتا ہے۔
یہ صورت حال اہل پاکستان سے لمحہ بھر توقف کرنے اور یہ سوچنے کا تقاضہ کرتی ہے کہ اگر پاکستان کو اکثریتی آبادی کی بنیاد پر شدت پسند اسلامی معاشرہ بنانا درست اور جائز ہے تو نریندر مودی کا یہ نعرہ کیسے غلط ہو سکتا ہے کہ بھارت میں ہندو اکثریت کی مرضی کے مطابق فیصلے صادرکیے جائیں گے۔ یہ دونوں رویے ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ بس قباحت یہ ہے کہ یہ مزاج جدید ریاست کے تصور اور جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ