کوٹ لکھپت جیل میں اسیر سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف نے موجودہ حکومت کے خاتمہ اور عمران خان کے زوال کی پیش گوئی کی ہے۔ جیل میں پارٹی لیڈروں اور کارکنوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ عمران خان جلد ہی اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔
اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق نواز شریف نے اس موقع پر کہا کہ ’میں کوئی اولیا یا جوتشی نہیں ہوں لیکن عمران خان کا زوال قریب آگیاہے۔ عمران خان اور ان کی بہن علیمہ خان کے خلاف ٹھوس شواہد دستیاب ہیں اور جلد ہی انہیں احتساب کا سامنا کرنا ہوگا‘ ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان سابقہ حکومتوں پر الزام تراشی کے ذریعے اپنی بدانتظامی اور نا اہلی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے ملک تباہی کے کنارے آکھڑا ہؤا ہے۔ وہ ایمپائر کی انگلی کی بات کرتے رہے ہیں۔ انہیں اس پر شرم آنی چاہیے۔ آصف زرادری اور حمزہ شہباز کی گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’جب کوئی جیل جانے والا ہوتا ہے تو وہ دوسروں کو جیل بھیجنے لگتا ہے۔ عمران خان ایسا کھلاڑی ہے جسے تماشائی جلد ہی اٹھا کر اسٹیڈیم سے باہر پھینک دیں گے‘ ۔
بدعنوانی کے دو مقدمات میں سزا پانے اور ایک میں ملنے والی سزا کی پاداش میں جیل میں قید سابق وزیر اعظم نے یہ باتیں تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے پیشکیے گئے پہلے قومی بجٹ کے بعد کہی ہیں۔ عمران خان اور ان کی حکومت نے اسے بچت کا بجٹ قرار دیتے ہوئے اخراجات میں کمی اور آمدنی میں اضافہ کا اعلان کیا ہے۔ تاہم بجٹ میں تجویزکیے گئے متعدد اقدامات اور مقررکیے گئے اہداف کو پورا کرنے کے لئے بالواسطہ محاصل کی وجہ سے ملک کے عام شہریوں کو ہی اس کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا جو پہلے ہی مہنگائی، تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر کی کمی کی وجہ سے شدید مالی دباؤ کا شکار ہیں۔ معیشت میں سست روی کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ اور حکومت کی آمدنی میں کمی واقع ہورہی ہے لیکن نیا بجٹ اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی راستہ تجویز کرنے میں ناکام رہا ہے۔
البتہ عوام کو رجھانے کے لئے عمران خان اور ان کے سارے ترجمان گزشتہ دس برس کے دوران مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے ادوار میں لئے گئے قرضوں کا ذکر کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ قومی وسائل کو ہنڈی اور منی لانڈری کے ذریعے شریف اور زرداری خاندان ملک سے باہر لے گئے جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کو اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔ حتی کہ گزشتہ روز بجٹ کے بعد منعقد کی جانے والی پریس کانفرنس میں مالی امور کے مشیر حفیظ شیخ نے بھی اس الزام کو دہرایا کہ سابقہ حکومتوں نے جو قرض لئے ان کی ادائیگی کے لئے موجودہ حکومت کو تین ہزار ارب روپے سے زیادہ صرف کرنا پڑیں گے۔
حالانکہ جن دس برسوں میں بیرونی قرض لے کر ملک کو کنگال کرنے کی بات کی جاتی ہے، ان میں سے تین برس تک، تحریک انصاف کی ’نیا پاکستان بناؤ‘ حکومت میں مشیر کا عہدہ سنبھالنے والے حفیظ شیخ خود وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے دور میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں مارچ 2010 سے فروری 2013 تک اس عہدہ پر کام کرتے رہے۔ موجودہ معاشی صورت حال کو خراب کرنے میں اگر سابقہ عشرہ میں حکومت کرنے والی پارٹیوں ہی کا کردار ہے یا یہ حکمران واقعی بیرونی قرضوں کو ’منی لانڈرنگ‘ کے ذریعے بیرون ملک اپنے اکاؤنٹس میں بھیجتے رہے ہیں تو اس مدت میں سے ایک تہائی برسوں کا جواب تو عمران خان کو اپنے ہی مالی مشیر سے دریافت کرنا چاہیے تھا۔
وزیر اعظم عمران خان نے منگل کو قومی اسمبلی میں بجٹ پیش ہونے کے بعد رات گئے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس عجیب و غریب لوٹ مار کی تحقیقات کے لئے اپنی سربراہی میں ایک کمیشن بنانے کا اعلان بھی کیا ہے جس میں دیگر اداروں کے علاوہ میں آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو کے نمائیندوں شامل کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ اس طرح وزیر اعظم نے ایک طرف سیاسی مقاصد یا اندرونی انتظامی ضرورت کے لئے قائم ہونے والے کمیشن میں اہم عسکری ادارے کو شامل کرکے فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی افسوسناک مثال قائم کی ہے تو دوسری طرف اپنی ہی پارٹی کے سیاسی مخالفین اور ان سابقہ حکومتوں کے خلاف تحقیقات کا اعلان کیا ہے جن کے خلاف وہ خود سیاسی تحریک چلاتے رہے ہیں۔ اس طرح اس بات کی ضمانت کیسے دی جائے گی کہ یہ تحقیقات منصفانہ ہوں گی؟ جب قومی اداروں کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیاجائے گا تو حکومت اور وزیر اعظم پر رہا سہا اعتبار اور ان کی غیرجانبداری کا بھرم بھی ختم ہوجائے گا۔ اداروں کو پہنچنے والا نقصان اس کے علاوہ ہوگا۔
بیرون ملک قرضوں کو مخالف سیاسی لیڈروں کی بدعنوانی ثابت کرنے کی یہ کوشش مقبولیت پسند سیاست کا ایسا ہتھکنڈا ہے جو عمران خان کو بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔ تقریروں میں کی جانے والی الزام تراشی کے کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوتے۔ تاہم اگر سیاسی جلسوں میں کی گئی تقریروں کو سیاسی شعبدہ بازی کہہ کر نظر انداز بھی کردیا جائے تو قوم کے نام وزیر اعظم کے خطاب کو جھوٹ کی آلودگی اور انتقام کی تپش سے پاک ہونا چاہیے۔ قوم کے نام عمران خان کے خطاب میں یہ دونوں عنصر بدرجہ اتم موجود تھے۔
ایک طرف وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری ایک دوسرے کے خلاف قائم کیے گئے مقدمات کا نتیجہ بھگت رہے ہیں، ان کی حکومت نے کسی پر کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا لیکن دوسری طرف وہ ملکی عدالتی نظام کے حتمی فیصلے سامنے آنے سے پہلے ہی سابقہ حکمرانوں کو چور قرار دیتے ہوئے انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کی بات کرتے ہیں۔
اس طرز عمل کے دو پہلوؤں پر غور کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوسکتا۔ تحریک انصاف اور عمران خان کرپشن ختم کرنے کا نعرہ لگاتے ہوئے برسر اقتدار آئے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ سیاست دانوں کی جس کرپشن کا وہ چرچا کرتے رہے ہیں، اب حکومت میں ہونے کے باوجود ان الزامات میں تحقیقات کرکے مقدمے قائم کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟ عمران خان ملک کے عدالتی نظام پر یقین کا اظہار بھی کرتے ہیں اور اپنے بیان کردہ مدینہ ریاست کے تصور میں اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوگی کہ حکمران سب سے پہلے جوب دہ ہوگا۔
سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات میں حتمی عدالتی فیصلے آنے سے پہلے ہی انہیں چور قرار دینے والا وزیر اعظم کیا ملک کی عدالتوں پر براہ راست عدم اعتماد کا مرتکب نہیں ہورہا؟ اسی طرح حکمران کی جوابدہی کا معاملہ بھی نواز شریف اور آصف زرداری اور ان کے اہل خاندان تک پہنچ کر رک جاتاہے۔ احتساب کا یہ کڑا ہاتھ عمران خان، ان کے خاندان اور ساتھیوں تک نہیں پہنچ رہا۔
نیب کے چئیر مین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے حال ہی میں اپنی پریس کانفرنس میں یہ کہا کہ وہ ملک کو سیاسی بحران سے بچانے کے لئے اور پرویز خٹک کی صحت کی وجہ سے حکومتی عہدیداروں کے خلاف کارروائی نہیں کرتے۔ کیا ’نیا پاکستان‘ کے وزیر اعظم جس کی باتوں میں مدینہ ریاست کے انصاف کا چرچا رہتا ہے کو چئیرمین نیب کی یہ باتیں سنائی نہیں دیں؟ مدینہ ریاست کے علمبردار کے لئے کیا ضروری نہیں تھا کہ وہ اس گفتگو کی وضاحت طلب کرتے ہوئے نیب کو مطلع کرتے کہ وہ خود اور ان کے سب ساتھی ہر قسم کی کارروائی کے لئے تیار ہیں۔ سیاسی بحران کو ملک میں بدعنوانی کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو روکنے کا عذر نہ بنایا جائے۔ یہ طریقہ نئے پاکستان کے اصولوں سے متصادم ہے۔ عمران خان کے منہ سے اس قسم کی کوئی بات سننے کو نہیں ملی۔
قرضوں کو الزام تراشی کی بنیاد بنانے سے عمران خان دراصل اپنے لئے خود ہی جال تیار کررہے ہیں۔ عمران خان برسر اقتدار آئے تو بیرنی قرضوں کا حجم 95 ارب ڈالر تھا۔ بجٹ تقریر میں وزیر مملکت برائے محصولات حماد اظہر یہ بتا چکے ہیں کہ موجودہ حکومت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے 9 ارب ڈالر سے زائد قرض لے چکی ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت ملنے والے 6 ارب ڈالر اس کے علاوہ ہوں گے۔ یوں تحریک انصاف کے دس ماہ میں قوم کے بیرونی قرضے 110 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ یعنی عمران خان کی حکومت نے دس ماہ میں قرضوں کے حجم میں تقریباً 14 فیصد اضافہ کیا ہے جو کسی بھی دور میں ہونے والے اضافے سے زیادہ ہے۔
مشکل مالی معاملات اور غیر یقینی سیاسی حالات سے نمٹنے کے لئے الزام تراشی کوئی مناسب حل نہیں ہوسکتی۔ مخالفین کا سیاسی میدان میں دلیل اور حکمت عملی سے مقابلہ ہی موجودہ صورت حال میں مناسب رویہ ہوسکتا ہے۔ عمران خان بوجوہ اس طریقہ کو اختیار کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ تصادم کی اس کیفیت میں اگر وزیر اعظم مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ریاستی طاقت کے ذریعے صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات کرتے ہیں تو اب دوسری طرف سے بھی جوابی حملہ شروع کردیا گیا ہے۔ گزشتہ روز مریم نواز نے کہا تھا کہ چند دنوں میں عمران خان کو خود این آراؤ کی ضرورت ہوگی۔ اب نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے دن گنے جاچکے۔ مسلم لیگ (ن) کے ہی لیڈر رانا ثنا اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ’30 جون کو یہ بجٹ بھی پاس نہیں ہوگا اور حکومت کے خلاف عدم اعتماد بھی ہوجائے گا‘ ۔
این آر او کو سیاسی سلوگن کے طور پر برتنے کے اس موسم میں سوچنا چاہیے کہ نواز شریف، مریم نواز اور رانا ثناللہ محض عمران خان کو زچ کرنے کے لئے یہ باتیں کررہے ہیں یا درپردہ تحریک انصاف کی حکومت کے لئے عملی مشکلات کا آغاز ہوچکا ہے۔ نواز شریف کو اس بات کا جواب بھی دینا ہوگا کہ کیا وہ اب بھی ’ووٹ کو عزت دو‘ کے اصول کے لئے جد و جہد کررہے ہیں یا اس کی حرمت کا سودا کرنے کا اہتمام ہورہا ہے۔
آنے والے چند دنوں یا ہفتوں کے دوران یہ سوال شدت اختیار کرسکتا ہے کہ پورے خاندان پر مقدموں کے بوجھ اور گرفتاریوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی طرف سے حکومت تبدیل ہونے کی پرزور باتوں کے پیچھے کیا چھپا ہے؟
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ