وزیراعظم نواز شریف اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیں گے چونکہ ان کے اقتدار کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔ تاہم نہ وہ اس سازش کی تفصیلات بتانے کےلئے تیار ہیں اور نہ عدالت میں اپنے اور خاندان پر عائد ہونے والے الزامات کو غلط ثابت کرنے والے شواہد سامنے لانے پر آمادہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کا اصرار ہے کہ ان کے ہاتھ صاف ہیں اور وہ ایک ایک پائی کا حساب دینے کےلئے تیار ہیں۔ حالانکہ ان سے ایک ایک پائی اور خاندان کی ساری دولت کا حساب مانگنے کی بجائے صرف یہ بتانے کےلئے کہا جا رہا ہے کہ لندن میں جو فلیٹس ان کے صاحبزادے کی ملکیت ہیں، ان کےلئے وسائل کیسے فراہم ہوئے۔ چونکہ نواز شریف خود قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ان وسائل کا سلسلہ دوبئی اور سعودی عرب میں شروع کئے جانے والے صنعتی منصوبوں سے جوڑ چکے ہیں، اس لئے ان سے فطری طور سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ ان وسائل کے حصول اور ایک سے دوسرے ملک ترسیل کا ریکارڈ پیش کیا جائے۔ آج وزیراعظم کے وکیل جب سہ رکنی بینچ کے سامنے جے آئی ٹی کے خلاف دلائل دے رہے تھے تو بھی ججوں نے ان سے یہی استفسار کیا کہ لندن اپارٹمنٹس حاصل کرنے کےلئے فراہم کردہ وسائل کا ریکارڈ سامنے لایا جائے۔ لیکن وزیراعظم کا دفاع فی الوقت جے آئی ٹی کو جھوٹا اور اس کے ہتھکنڈوں کو غیر قانونی ثابت کرنے پر استوار ہے۔ ایسا کرتے ہوئے نواز شریف بہت بڑا سیاسی جوا کھیل رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ’’عدم ثبوت‘‘ کی بنا پر سپریم کورٹ ان کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکے گی۔
یہ حکمت عملی تیار کرتے ہوئے یہ فراموش کر دیا گیا ہے کہ 20 اپریل کے فیصلہ میں 2 سینئر ججوں نے نواز شریف کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ دیا تھا تاہم تین ججوں نے اکثریتی بنیاد پر شبہات دور کرنے اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ذریعے حقائق منظر عام پر لانے کے لئے کہا تھا۔ جیسا کہ گزشتہ دو روز کی عدالتی کارروائی میں واضح ہوا ہے کہ یہ تحقیقاتی کمیٹی کوئی خاص نئی معلومات سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ اس نے وزیراعظم سمیت اپنے سامنے پیش ہونے والے گواہوں کے بارے میں غیر ضروری تبصرے کرکے اور بعض دیگر بے قاعدگیوں کے ذریعے اپنی کارروائی کو مشکوک بھی بنایا ہے۔ لیکن اگر وزیراعظم اور ان کے اہل خاندان صرف جے آئی ٹی کی غلطیوں کی نشاندہی کرکے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ حکمت عملی شاید کامیاب نہ ہو سکے۔ آج ججوں کی طرف سے نواز شریف کے وکیل کو یہی پیغام دیا گیا ہے کہ وزیراعظم اور ان کا خاندان کوئی معلومات فراہم کرنے کےلئے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے جے آئی ٹی سے بھی تعاون نہیں کیا۔ تو اب وہ لندن فلیٹس کے بارے میں حقائق سے عدالت کو آگاہ کر دیں۔ گویا آج کی کارروائی سے ایک بار پھر واضح ہو گیا ہے کہ پاناما کیس کا معاملہ آج بھی اسی سوال پر اٹکا ہوا ہے جو گزشتہ برس کے آخر میں یہ مقدمہ شروع ہونے پر پوچھا گیا تھا کہ لندن اپارٹمنٹس کی مالک کمپنیوں کی تاریخ اور ان کی ملکیت کے حوالے سے مصدقہ معلومات فراہم کی جائیں۔ وزیراعظم کا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس معاملہ کا قانونی مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور ان کے پاس وہ ثبوت اور دولت کے حصول و انتقال کے بارے میں وہ شواہد موجود نہیں ہیں جن کا دعویٰ وہ گزشتہ برس قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران کر چکے ہیں۔ اس لئے وہ اس کا مقابلہ سیاسی طور پر کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے اپنے ساتھیوں اور معتمدین کے ساتھ مل کر جے آئی ٹی اور سیاسی مخالفین کے خلاف سخت مہم شروع کی ہوئی ہے اور میڈیا میں اپنے ہمدردوں کے ذریعے یہ مباحث شروع کروائے گئے ہیں، گویا ملک میں جمہوریت کے تسلسل کا دار و مدار صرف اس بات پر ہے کہ نواز شریف بدستور وزیراعظم رہیں بلکہ بار بار منتخب ہو کر ملک کی خدمت کرتے رہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف مبصرین اور تجزیہ نگاروں میں ہونے والی اس بحث کی آڑ میں یہ واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملک کے طاقتور ادارے انہیں اقتدار سے محروم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ بھارت و افغانستان کے ساتھ خود مختارانہ پالیسی اختیار کرنا چاہتے ہیں اور دہشت گردی سے نمٹنے کےلئے ان کا رویہ فوج کے طریقہ کار سے مختلف ہے۔ لیکن یہ باتیں محض اشاروں کنایوں میں کی جاتی ہیں اور ان شبہات کو تقویت دینے میں خود نواز شریف نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے بعد ایسی گفتگو کی تھی جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ انہیں اقتدار سے محروم کرنے کےلئے کسی دوسری جگہ سے ڈوریاں ہلائی جا رہی ہیں اور جے آئی ٹی محض آلہ کار بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں بعض مبصرین نے وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا کہ وہ کھل کر ان سازشی عناصر کے بارے میں بتا دیں جو ان کے خلاف منصوبہ بندی کر رہے ہیں تاکہ ملک میں جمہوریت کا بستر گول کیا جا سکے۔ اور نواز شریف نہایت ’’بہادری اور استقلال‘‘ سے استعفیٰ دینے سے انکار کرکے اس سازش کو ناکام بنا رہے ہیں۔ نواز شریف کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے۔ وہ صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق اشارے بھی کرتے ہیں لیکن کھل کر بات بھی نہیں کرتے۔
نواز شریف اور ان کے ساتھیو و ہمدردوں کے ایسے الزامات کو صرف اسی وقت اہمیت دی جا سکتی ہے اگر وہ پاناما پیپرز میں سامنے آنے والے الزامات یعنی لندن فلیٹس کی مالک نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کی ملکیت، اثاثوں اور مالی سرگرمیوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے ججوں کو مطمئن کر سکیں۔ ماضی میں بار بار جمہوری عمل میں رکاوٹیں ڈالی جاتی رہی ہیں۔ ملک کے اکثر باشعور لوگوں کو بدستور یہ اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ بعض خفیہ قوتیں سیاستدانوں کی ذاتی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرتی ہیں اور اگر اس مقصد میں ناکام ہوں تو ان کے خلاف کوئی ایسا بحران کھڑا کر دیا جاتا ہے جیسا سابقہ حکومت کے دور میں میمو گیٹ کی صورت میں اور اب پاناما کیس کی شکل میں ملک و قوم کو درپیش ہے۔ ان اندیشوں کو اگرچہ مکمل طور سے مسترد نہیں کیا جا سکتا لیکن ان کا سہارا لے کر ایک منتخب وزیراعظم کو یہ حق بھی نہیں دیا جا سکتا کہ وہ سازشوں کی آڑ میں اپنے مالی معاملات کی جوابدہی سے گریز کرے۔ ملک میں فوج یا اس کے اداروں نے اگر جمہوری حکومتوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں یا انہیں اپنی مرضی کی پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ نہیں ہے کہ فوج ایک مسلح ادارہ ہے جو کبھی بھی سویلین نہتے وزیراعظم کو چلتا کرنے کی ’’طاقت‘‘ رکھتا ہے بلکہ معروضی حالات اور سیاستدانوں کے طرز عمل کے تناظر میں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک کے سیاستدان پارلیمنٹ کو بااختیار بنانے، معاملات کو وہاں زیر بحث لانے اور عوام کے منتخب نمائندوں سے طاقت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے وزرا پارلیمنٹ سے غیر حاضر رہتے ہیں، اپنے ارکان اسمبلی تو کجا وزیروں تک سے ملنے سے گریز کرتے ہیں اور جمہوری انتظام کو شخصی اقتدار میں تبدیل کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ملک کے جمہوری لیڈروں نے درپردہ جوڑ توڑ اور سمجھوتوں کی بجائے پارلیمنٹ کو ہر اہم معاملہ پر کھلم کھلا بحث کرنے کا پلیٹ فارم بنایا ہوتا یا وزیراعظم نے اپنے راستے میں حائل مشکلات کو صاف لفظوں میں عوام کو بتایا ہوتا، پھر تو وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ وہ طاقتور عناصر کی سازشوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں وہ یہ دعویٰ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
یہ ممکن ہے کہ پاناما کیس میں نواز شریف کے خلاف فیصلہ آنے سے سیاسی ہلچل پیدا ہو۔ ملک کے جمہوری اداروں کو نقصان پہنچے اور درپردہ قوتیں زیادہ طاقتور ہو جائیں لیکن اس کی ذمہ داری بنیادی طور پر نواز شریف اور ان کے ساتھیوں پر عائد ہوگی۔ انہوں نے ایک سادہ معاملہ کو بنیادی معلومات فراہم کرکے طے کرنے کی بجائے قومی اہمیت کا بحران بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ خود کو مظلوم اور سیاسی شہید ثابت کرکے ایک بار پھر عوام کے ووٹ حاصل کر سکیں۔ یہ حکمت عملی کامیاب بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کی ناکامی کی صورت میں ملک کے نظام کو پہنچنے والے نقصان کی ذمہ داری ان خفیہ ہاتھوں پر عائد کرنا غلط ہوگا جن کے بارے میں اعلان تو ہوتے ہیں لیکن ان کی نشاندہی نہیں کی جاتی۔ اسی طرح نواز شریف کے پاس ان سازشوں کو ناکام بنانے کا آسان طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ عدالت اور عدالت سے باہر جے آئی ٹی کو صلواتیں سنائیں، اس کے کام میں نقص نکالیں، قانونی موشگافیوں کے ذریعے مہلت اور وقت حاصل کرنے کی کوشش کریں اور عدالت کے جج جو سوال پوچھ رہے ہیں اس کا سادہ جواب دینے سے گریز کریں۔
نواز شریف کو بظاہر یہ امید اور توقع ہے کہ اس معاملہ کو نیب کے حوالے کر دیا جائے گا، اس طرح ان کے مالی معاملات کے بارے میں تحقیقات جس طرح گزشتہ 35 برس سے ’’تعطل‘‘ کا شکار رہے ہیں، وہ سلسلہ مزید دراز ہو جائے گا اور وہ خود جے آئی ٹی کو ولن بنا کر سیاسی مخالفین اور خفیہ ہاتھوں کو کوستے 2018 کا انتخاب جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ حکمت عملی کامیاب ہو سکتی ہے۔ لیکن اس صورت میں بھی ملک میں جمہوریت کے نام پر ایک ڈھونگ ہی رچایا جائے گا۔ کیونکہ جمہوریت صرف منتخب ہو کر حکومت کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ جوابدہی بھی اس طریقہ کار کا اہم حصہ ہے۔ اور اگر وہ اس مقصد میں کامیاب نہ ہوئے تو نواز شریف کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ نہ صرف ان کو سیاسی طور پر نااہل اور مفلوج کر سکتا ہے بلکہ جمہوری نظام پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ دونوں صورتوں میں اس ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی ذمہ داری کسی دوسرے پر نہیں، نواز شریف پر ہی عائد ہوگی۔
(بشکریہ:کاروان ۔۔ ناروے)