پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی نے اے آر وائی نیوز چینل پر کاشف عباسی کے پروگرام پر پابندی کا ’حکم‘ واپس لے لیا ہے ۔ تاہم بدھ کو نشر ہونے والے اس پروگرام میں فیصل واوڈا کے جوتا لانے اور میز پر سجانے سے لے کر اس پر ’شیریں بیانی‘ کے علاوہ پیمرا کی طرف سے آنے والے یک طرفہ رد عمل نے پاکستان میں صحافی، صحافت، سیاست اور فوج کے موضوعات پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
اس بحث کے دو رخ اہم ہیں۔ ایک یہ کہ کیا ملک کے صحافی ذمہ دار ہیں یا محض آزادی صحافت کی آڑ میں پروگرام کی ریٹنگ کا مقصد حاصل کرنا ہی ان کا مطمح نظر ہوتا ہے۔ اس بحث کا دوسرا رخ پاک فوج اور ملکی سیاست کے حوالے سے ہے۔ یہ دونوں موضوعات اہم ہیں اور ان دونوں پہلوؤں پر عام طور سے سنجیدہ اور ٹھوس مباحث دیکھنے میں نہیں آتے۔ ملکی صحافت میں پروفیشنل رویہ اور صحافیوں کی غلطیوں کی نشاندہی کے حوالے سے بنیادی ذمہ داری خود صحافیو ں پر عائد ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ملک کے صحافی یا ان کی نمائیندہ تنظیمیں یہ ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی حکومت یا پیمرا کی طرف سے کسی صحافی، اینکر یا میڈیا چینل پر پابندی لگائی جاتی ہے تو اس پر تنقید بھی ہوتی ہے اور اسے آزادی صحافت سے منسلک کرتے ہوئے ملک میں آزادی اظہارکے حوالے سے رائے بھی سامنے آتی ہے۔
ایسی کسی بھی صورت حال میں صحافی چونکہ متاثرہ فریق یا مظلوم کے طور پر سامنے آتا ہے، اس لئے عام بحث کا فوکس اسی پہلو پر رہتا ہے کہ کسی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے کی جانب سے تادیبی کارورائی قابل قبول نہیں ہے۔ آزادی رائے کے حامی، صحافتی تنظیمیں ، سول سوسائیٹی یا بنیادی حقوق کے علمبردار اور سیاست دان اسی پہلو سے رائے کو سامنے لاتے ہیں جس میں کسی بھی معاملہ میں صحافی کی غلطی یا پیشہ ورانہ اصولوں سے گریز کبھی بحث کا موضوع نہیں بنتے۔ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کو گزشتہ دس پندرہ سال میں فروغ ملا ہے۔ تھوڑے وقت میں متعدد ٹیلی ویژن چینلز نے مارکیٹ میں جگہ بنانے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے صحافت کے پیشہ ورانہ اصولوں سے زیادہ اس بات پر توجہ مبذول رہتی ہے کہ کسی ایک خاص پروگرام کو کتنی مقبولیت یا اسے کس قدر ٹی آر پی ( ٹارگٹ ریٹنگ پوائینٹ) حاصل ہوتے ہیں۔
اس دوڑ کو دو وجوہات نے زیادہ سنگین اور ناقابل قبول حد تک تکلیف دہ بنا دیا ہے۔ جب ٹیلی ویژن کی ریٹنگ ہی بنیاد ٹھہر گئی تو بہت سے غیر پیشہ ور لوگوں نے بھی مختلف النوع ٹی وی شوز میں جگہ بنانی شروع کردی۔ اس وقت پاکستان میں ایسے لاتعداد اینکرز موجود ہیں جن کی عملی صحافتی تربیت کا تجربہ یا تو نہ ہونے کے برابر ہے یا بہت ہی محدود ہے لیکن لوگوں میں ان کی قبولیت یا کشش کی وجہ سے میڈیا مالکان انہیں شوز دینے کو بخوشی تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ شو کی کمرشل ویلیو سے زیادہ کسی چیز کو اہم نہیں سمجھتے اور نہ ہی اس کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی لئے دانستہ یا نادانستہ طور سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔
ٹاک شو کا بنیاد ی مقصد چونکہ کسی موضوع پر صحت مند گفتگو یا کسی نتیجہ پر پہنچنے کی بجائے ناظرین کو مرعوب و متاثر کرنا ہوتا ہے، اس لئے زیادہ سے زیادہ سنسنی یا تنازعہ کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ کسی ٹاک شو کے ڈرامہ میں لوگوں کی دلچسپی برقرار رہے۔ اسٹوڈیو سے باہر پروڈیوسر اور دیگر معاونین اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ کسی شو میں کس وقت کون سا موضوع یا بحث کا موڑ ناظرین کی بڑی تعداد کو اس ٹی وی نشریات کی طرف لے کر آرہا ہے۔ یہ معلومات اینکر کو فراہم کی جاتی رہتی ہیں۔ اس سے توقع بھی جاتی ہے اور ’مقبول‘ اینکر خود بھی یہ کوشش کرتے ہیں کہ عوامی پذیرائی کے ایسے موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔
کاشف عباسی کے پروگرام کے دوران جب فیصل واوڈا نے بوٹ نکال کر میز پر رکھا اور اپوزیشن لیڈروں پر ’فوج کے حکم پر سرنگوں ‘ ہونے کا الزام لگایا تو اینکر نے انہیں اس نازیبا حرکت سے روکنے کی بجائے اس پر ’خوشگوار‘ تبصرہ کرنا اور فیصل واوڈا کو نئے ’مزیدار‘ کمنٹ دینے پر اکسانا ضروری خیال کیا۔ صاف ظاہر ہے کہ طویل تجربہ کی وجہ سے کاشف عباسی کو بھی ٹی آر پی کے حوالے سے اس موقع کی اہمیت کا اندازہ ہوگا اور پروڈیوسر بھی ہیڈ فون کے ذریعے ضرور انہیں بتا رہاہوگا کہ یہ ’اسٹنٹ‘ کس قدر مقبول ہؤا ہے۔ پیمرا کا رد عمل اسی نکتہ کو لے کر تھا۔ پیمرا کی طرف سے پروگرام اور اینکر پر پابندی لگانے کی مخالفت کرنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہوسکتا کہ پیشہ ورانہ طور سے اینکر یا ان کے پروڈیوسر کی غلطی کو نظر انداز کردیا جائے۔ تاہم اصولی طور سے یہ کام کوئی نیم سرکاری ادارہ نہیں کرسکتا بلکہ خود صحافیوں کی کسی اخلاقی کمیٹی کو اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کی گرفت کرنی چاہئے۔ یہ کام کسی ایک میڈیا ہاؤس کے اندر موجود کنٹرول کمیٹی بھی کرسکتی ہے یا قومی سطح پر صحافیوں کا کوئی ایسا ادارہ کرسکتا ہے جس کی پروفیشنل جانبداری اور مالی مفادات پر سوال نہ اٹھایا جاسکے۔
صحافت میں غیر پیشہ ورانہ رویہ کی دوسری اہم ترین وجہ میڈیا ہاؤسز مالکان کا مالی مفاد ہے۔ وہ نہ صرف ایسے لوگوں کو اینکر کے طور پر لانچ کرنا ضروری سمجھتے ہیں جو تنازعہ پیدا کرنے ، سنسنی ابھارنے اور ٹی وی ریٹنگ کو اوپر لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں بلکہ اینکرز کو کسی حد تک مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مقبول پروگرام کرنے والوں کے ’ہتھکنڈوں‘ سے سبق سیکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اعتراضات کے باوجود کوئی میڈیا ہاؤس کبھی اپنے کسی ایسے اینکر کی سرزنش نہیں کرتا جس کا پروگرام مقبول ہو۔ یہ سرزنش صرف ان اینکرز کے حصے میں آتی ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے حکومت کو ناپسند ہوں یا طاقت ور حلقوں کے بارے میں پروگرام کرتے ہوں۔ میڈیا مالکان کے مالی مفادات ہی کی وجہ سے دراصل اس وقت پاکستانی میڈیا میں صحافت زوال پذیر اور سنسنی خیزی عروج پر ہے۔ کثیر معاوضہ اور سماجی رتبہ کی دوڑ میں بیشتر اینکرز بھی مالکان کی اس ہوس میں آلہ کار بننے میں مضائقہ نہیں سمجھتے۔
فیصل واوڈا کے اسٹنٹ کی وجہ سے ملکی سیاست میں فوج کے کردار پر بھی دبے لفظوں میں بحث ہورہی ہے۔ یہ پہلو بھی دلچسپی اور حیرت کا باعث ہے کہ پاک فوج کے متحرک و فعال ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کی طرف سے اس معاملہ پر کوئی رائے سامنے نہیں آئی ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ان کا تبادلہ کردیا گیا اور وہ اس عہدے میں اپنے آخری چند ہفتے کسی نئے ’تنازعہ‘ کا حصہ بننے کی بجائے، خاموشی سے گزارنا چاہتے ہوں۔ اس کی دوسری وجہ فوجی قیادت کا یہ سوچا سمجھا فیصلہ ہو سکتا ہے کہ اس معاملہ پر کوئی بات کرکے بحث کو طول دینے کی بجائے خاموشی اختیار کی جائے تاکہ سیاست میں فوج کے کردار پر مزید گفتگو نہ ہو۔ اس موضوع پر ہونے والی کوئی بھی گفتگو یہ سوال ضرور سامنے لائے گی کہ فیصل واوڈا نے جو کہا کیا وہ درست ہے؟ حکومت اور فوج اس سوال کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
ایک وفاقی وزیر جس معاملہ پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے نمائیندوں کو شرمندہ کرنا چاہتا تھا اور جس مقصد کے لئے فوجی بوٹ کو علامت کے طور پر اسٹوڈیو کی میز پر سجایا گیا تھا، اس کی آنچ اپوزیشن سے زیادہ حکومت تک پہنچتی ہے۔ عمران خان کے لئے نامزد کی پھبتی اور حکومتی نمائیندوں کی اس پر ناراضگی سے ہی واضح ہوتا ہے کہ بوٹ کی جس طاقت کو اپوزیشن کے لئے طعنہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی وہ قومی سیاست کا ایک ایسا عارضہ ہے جس پر جلد یا بدیر سنجیدہ بحث کرنے اور اس ابہام کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت سازی سے لے کر اہم سیاسی فیصلوں میں عسکری اداروں کی مداخلت کا ذکر علامتی طور سے ہر میڈیا میں ہوتا رہتا ہے۔ سوشل میڈیا پر زیادہ کھل کر بات کی جاتی ہے جبکہ کالمز اور ٹی وی پروگرامز میں اشاروں کنایوں میں اس کا ذکر تواتر سے ہوتا ہے۔ حکومت کے علاوہ فوج کے لئے بھی یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہئے کہ جس بات کی اجازت نہ تو ملکی آئین دیتا ہے اور نہ ہی سرکاری مؤقف جس کی تائد کرتا ہے، اس کا ذکر کرنے کے لئے فیصل واوڈا فوجی بوٹ لے کر ٹی وی اسٹوڈیو میں وارد ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم نے اس غیر ذمہ داری پر واوڈا کو دو ہفتے کے لئے کسی بھی ٹی پروگرام میں شریک نہ ہونے کا حکم دیا ہے۔ اور فوجی ترجمان نے خاموش رہنا بہتر سمجھا ہے۔ کیا اسے سیاست میں فوج کی شراکت کا غیر سرکاری اعلان سمجھا جائے؟ شبہ اور بے یقینی کی یہ فضا حکومت کی اتھارٹی اور فوج کی غیر جانبداری کو چیلنج کررہی ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )