پونے دہ ماہ تک پاناما کیس کی سماعت کے بعد بالآخر وکلا نے اپنے دلائل مکمل کر لئے ہیں اور عدالت نے آخری دن دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرے کا اعلان کیا ہے۔ پانچ رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس معاملہ میں کوئی مختصر حکم نامہ جاری نہیں کیا جائے گا۔ یہ ایک پیچیدہ اور مشکل معاملہ ہے جس میں ہزاروں دستاویزات پیش کی گئی ہیں۔ تاہم فریقین کی جانب سے پیش کی گئی اکثر دستاویزات غیر تصدیق شدہ ہیں جن کے بارے میں جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر اس بنیاد پر معاملہ کا جائزہ لیا جائے تو 99 فیصد دستاویزات کوڑے دان کی زینت بنیں گی۔ اس کے باوجود عدالت نے صبر و سکون سے پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کی طرف سے وزیراعظم کی نااہلی کے بارے میں دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کی ہے۔ مدعیوں کا کہنا تھا کہ اپریل 2016 میں سامنے آنے والے پاناما پیپرز میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ وزیراعظم کا خاندان متعدد آف شور کمپنیوں کا مالک ہے۔ لندن میں وزیراعظم نواز شریف کے دو بیٹے جن فلیٹس کے مالک ہیں، انہیں ان کمپنیوں کی صورت میں خریدا گیا تھا۔ تحریک انصاف کے وکلا کا موقف ہے کہ نواز شریف نے سابقہ ادوار میں بدعنوانی سے جو پیسہ کمایا تھا اسے منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر بھیجا گیا۔ اور اسی دولت سے یہ فلیٹ خریدے گئے۔ جبکہ وزیراعظم ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف ، مریم نواز اور حسن و حسین نواز نے اپنے دفاع میں جو دستاویزات پیش کی ہیں اور جو دعوے کئے ہیں ان میں وہ بظاہر یہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ ان کے خاندان کے پاس اتنی دولت اور وسائل کیسے موجود ہیں۔ اس بارے میں سب سے معتبر حوالہ قطری شہزادہ حمد بن جاسم الثانی کے دو حلف نامے ہیں جن میں انہوں نے اقرار کیا ہے کہ ان کے خاندان اور شریف خاندان کے سربراہ میاں محمد شریف مرحوم کے درمیان دیرینہ کاروباری مراسم تھے۔ ان مراسم کا آغاز 70 کی دہائی میں میاں شریف کی طرف سے جاسم خاندان کے کاروبار میں 12 ملین درہم کی سرمایہ کاری سے ہوا تھا۔ اس سے حاصل ہونے والے منافع میں سے شریف خاندان کی جلا وطنی کے دنوں میں جدہ میں اسٹیل مل لگانے کےلئے بھی سرمایہ فراہم ہوا تھا اور بقایا وسائل و منافع کی ادائیگی کیلئے 2006 میں لندن فلیٹس کی مالک دو کمپنیوں نیسکول اور نیلسن اینڈ کو کو نواز شریف کے صاحبزادوں کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ البتہ اس حوالے سے نواز شریف اور ان کے بچوں کا کہنا تھا کہ یہ رقم قطری خاندان کو نقد ادا کی گئی تھی اور یہ سرمایہ دوبئی میں اسٹیل مل کی فروخت سے حاصل ہوا تھا۔ اس حوالے سے بینکوں کے ذریعے وسائل کی منتقلی کا کوئی ثبوت سامنے نہیں لایا گیا جس کی وجہ سے شبہات میں اضافہ ہوتا ہے اور سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ مزید یہ بھی کہ اس بات کی وضاحت بھی نہیں کی جا سکی کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اتفاق فاؤنڈری کو قومی ملکیت میں لینے کے سبب جب میاں شریف نے سرمایہ دوبئی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو اسے کیسے وہاں پہنچایا گیا۔
ایک الجھن پاناما پیپرز کے سامنے آنے کے بعد وزیراعظم کی تقریروں اور خاص طور سے مئی 2016 میں قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کے حوالے سے بھی موجود ہے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ دبئی مل کی فروخت سے حاصل ہونے والے سرمایہ سے سعودی عرب کی مل لگائی گئی اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے والے وسائل لندن فلیٹ خریدنے کے کام آئے۔ انہوں نے اس موقع پر قطری خاندان کے ساتھ تجارتی تعلقات اور وہاں سے حاصل ہونے والے منافع کا ذکر نہیں کیا تھا۔ نواز شریف کی طرف سے یہ دلیل دی گئی ہے کہ وزیراعظم نے جو معلومات ضروری سمجھیں وہ فراہم کر دی تھیں۔ تاہم اس بارے میں مزید استفسار یا تحقیق کی صورت میں مزید تفصیلات بھی دی جا سکتی تھیں۔ مدعیوں کا موقف ہے کہ عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات اور بیانات اور قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر میں تضاد موجود ہے۔ اس لئے وزیراعظم آئین کی شق 62 اور 63 کے تحت صادق اور امین نہیں رہے، اس لئے انہیں عہدے سے برطرف کیا جائے اور ناجائز وسائل حاصل کرنے کے جرم میں ان پر مقدمہ چلایا جائے۔ تحریک انصاف کے وکلا نے مقدمہ کی سماعت کے دوران اسی بات پر زور دیا کہ نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدہ سے علیحدہ کیا جائے۔ پہلے ان کی صاحبزادی کا پاناما پیپرز میں ذکر ہونے اور انہیں اپنے والد کے زیر کفالت ہونے کی وجہ سے وزیراعظم کو ملزم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعد میں قطری شہزادے کا خط سامنے آنے کے بعد وزیراعظم کی تقریر اور غلط بیانی تحریک انصاف کے وکلا کی سب سے بڑی دلیل رہی۔ جس کا تکرار آخری سماعت میں بھی کیا گیا اور عدالت سے انہیں نااہل قرار دینے کی درخواست کی گئی۔
تحریک انصاف کے اس دوٹوک موقف کی وجہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ معاملہ نہ ملک میں کرپشن کی صورتحال کے بارے میں ہے اور نہ یہ کہ مریم نواز اپنے باپ کے زیر کفالت تھیں یا کہ خود مختار رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ اصل مدعا یہ تھا کہ نواز شریف کو عمران خان اور اس کے ساتھیوں کی تفہیم کے مطابق حکومت کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس موقف سے نہ صرف یہ کہ اس معاملہ کا سیاسی رنگ واضح ہو گیا بلکہ عدالت پر زور دیا گیا کہ وہ بہرصورت وزیراعظم کو معزول کریں کیونکہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف ایسا فیصلہ موجود ہے۔ تاہم ججوں نے اس مماثلت کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ یوسف رضا گیلانی کو عدالت عظمیٰ کا حکم نہ ماننے کی وجہ سے توہین عدالت کے الزام میں سزا دی گئی تھی۔
معاملہ کی واضح سیاسی صورت کے باوجود اور اس حقیقت کے باوصف کہ پاناما پیپرز میں وزیراعظم کی بجائے ان کے بچوں کے نام آئے تھے اور ان معلومات کی باقاعدہ تحقیقات کے ذریعے تصدیق بھی نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ یا تحقیقاتی ادارہ نہیں ہے، گزشتہ برس نومبر کی سیاسی اور انتظامی لحاظ سے تصادم کی صورتحال میں سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اس معاملہ کا نوٹس لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت یہ سوچا گیا تھا کہ فریقین کے دلائل سن کر یہ فیصلہ کر لیا جائے گا کہ اس معاملہ کی تحقیقات کی جائیں یا ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت عدالت نے ہی یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ قومی اسبلی میں پارٹیوں کے درمیان چونکہ کمیشن کی ساخت اور اس کے قواعد پر اختلاف ہے، اس لئے عدالت ضروری سمجھے گی تو ایسا کمیشن قائم کر دے گی اور اس کے قواعد و ضوابط بھی خود ہی مرتب کرے گی۔ البتہ دوران سماعت تحریک انصاف کمیشن کے قیام کے بنیادی اور اصولی فیصلہ سے منحرف ہو گئی تھی اور اس کا مطالبہ رہا ہے کہ عدالت خود ہی وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دے۔ یہ ایک پیچیدہ اور مشکل صورتحال ہے۔ سپریم کورٹ نے تفصیل سے اس مقدمہ کی سماعت کی ہے اور دلائل سننے کے علاوہ ہزاروں دستاویزات اس کے سامنے پیش کی گئی ہیں۔ اصولی طور پر تو عدالت کو صرف یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وزیراعظم کے خاندان پر پاناما پیپرز میں عائد الزامات کی تحقیقات کی جائیں یا نہ کی جائیں۔ لیکن دلائل اور جوابی دلائل میں عدالت سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ وزیراعظم کو معزول کر دے یا یہ طے کرے کہ یہ معاملہ ہی بے بنیاد ہے۔
سماعت کرنے والے بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اسی مشکل کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ججوں کو یہ علم ہے کہ ہر فریق اپنی مرضی کا فیصلہ سننا چاہتا ہے۔ اگر فیصلہ توقع کے مطابق ہوا تو جج پر اعتماد کا اظہاربھی ہوگا اور انہیں خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔ اگر یہ فیصلہ مرضی کے خلاف ہوا تو عدالت کو بدعنوان اور ججوں کو نااہل قرار دینے میں دیر نہیں کی جائے گی۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ عدالت صرف قانون کی پاسداری کرے گی اور اسی کے مطابق یہ سوچ کر فیصلہ کرے گی کہ 20 برس بعد بھی اس کی مثال دیتے ہوئے کہا جائے کہ عدالت نے اس موقع پر قانون کے روح کے مطابق درست فیصلہ کیا تھا۔
پانچ رکنی بنچ کے ارکان آئندہ چند روز یا ہفتوں میں اسی نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کریں گے کہ ان کا فیصلہ اصول قانون کے مطابق ہو اور اس پر اختلاف کی گنجائش نہ ہو۔ کوئی بھی فریق یہ نہ کہہ سکے کہ اس کی بات نظر انداز کی گئی یا یہ کہ عدالت نے بیرونی اثر قبول کیا ہے۔ اس قسم کے کسی نتیجہ تک پہنچنا آسان نہیں ہو گا۔ اس لئے بیشتر قانون دانوں کی رائے میں عدالت کا فیصلہ نہ کسی فریق کی کامیابی ہوگی اور نہ ناکامی۔ بلکہ دونوں پارٹیاں ہی اس فیصلہ کا حوالہ دے کر ایک دوسرے کو مطعون کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گی۔ اس کے برعکس تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے حامی اپنی اپنی جگہ پر یہ تصور کئے بیٹھے ہیں کہ جیت انہی کی ہوگی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ نہ پورا سچ شریف خاندان نے بتایا ہے نہ تحریک انصاف اسے پورا جھوٹ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ مقدمہ کا فیصلہ ایک اہم معاملہ پر سپریم کورٹ کی رائے کا جزوی اظہار ضرور ہوگا لیکن اس فیصلہ سے ملک میں سیاسی تناؤ کی کیفیت میں کمی کا امکان نہیں ہے۔
(بشکریہ:کاروان)