وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے اعلان کیا ہے کہ حکومت یا وزیر اعظم کا نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے درجنوں لیڈروں کے خلاف ملک دشمنی اور غداری کا مقدمہ درج کروانے کے معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ البتہ پنجاب کے پر جوش وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب پولیس ان سب لیڈروں کو فوری گرفتار کرے جن کے خلاف عام شہریوں نے غداری و بغاوت کے مقدمات درج کروائے ہیں۔ کیا بیانات کے اس تضاد سے حکومت کی بدحواسی کا پتہ چلتا ہے؟
اس کی ایک دوسری توجیہ بھی ممکن ہے۔ کیوں کہ شبلی فراز کے بیان کی روشنی میں دیکھا جائے تو فیاض الحسن چوہان کے بیان کی ذمہ داری وزیر اعظم یا تحریک انصاف پر عائد نہیں ہوسکتی ۔ صوبائی وزیر کا بیان صوبائی معاملہ ہے اور وزیر اعظم آئینی ذمہ داری اور سیاسی اخلاقیات کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس میں مداخلت کے مجاز نہیں ہیں۔ اس لئے ہوسکتا ہے شبلی فراز صحافیوں کو درحقیقت یہ بتا رہے ہوں کہ اس کا جواب پنجاب حکومت سے لیا جائے۔ ویسے بھی کسی صوبائی وزیر کے قول و فعل کی ذمہ داری وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو قبول کرنی چاہئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے یہ بھی بتایا ہے کہ وزیر اعظم کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ ملک میں درج ہونے والی ایف آئی آرز کا حساب رکھتے پھریں۔
فیاض الحسن چوہان کے بیان کی روشنی میں یہ سمجھنا قرین قیاس ہوسکتا ہے کہ عثمان بردار چونکہ ’فارغ‘ ہی رہتے ہیں ، اس لئے ان کے پاس پولیس تھانوں میں اپوزیشن لیڈروں کے خلاف درج ہونے والی شکایات کا مطالعہ کرنے اور ان پر ردعمل دیکھنے کا وافر وقت ہو۔ عمران خان نے پنجاب کو وسیم اکرم پلس کے حوالے کرکے صوبے کے سیاسی و انتظامی معاملات تو ضرور اپنے کنٹرول میں کرلئے ہیں لیکن بزدار کی سیاسی تربیت کے لئے ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن کے بارے میں درج ہونے والی شکایات کی نگرانی اب بھی وزیر اعلیٰ کے ہی سپرد ہو۔ البتہ اس اندیشے سے گلو خلاصی ممکن نہیں ہے کہ آنے والے ہفتوں میں اپوزیشن پنجاب میں سیاسی احتجاج کا جو طوفان اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے، اس میں عثمان بزدار کا یہ ’حق‘ بھی سلب ہوجائے۔
کسی حب الوطن شہری کے طور پر شبلی فراز یا فیاض الحسن چوہان میں سے کسی ایک کے بیان کو قبول اور دوسرے کو رد کرنا ممکن نہیں ہے۔ دونوں وزیر ہیں اور دونوں پیا من بھائی تحریک انصاف کے ہونہار ہیں۔ کسی عام شہری کے لئے یہ گمان کرنا بھی غداری اور ملک دشمنی شمار ہوسکتا ہے کہ کسی وزیر باتدبیر کے ارشادات پر شبہ کا اظہار کرے۔ نئے پاکستان کی ایماندار حکومت کے تمام نمائیندوں کے سب بیانات عقل و دانش اور حق پرستی کی میزان پر پورے اترتے ہیں۔ یا ایسا مان لینا ہی حب الوطنی کی جدید ترکیب کے مطابق درست ہوسکتا ہے۔ اس بارے میں اگر دل و دماغ میں وسوسے سر اٹھائیں تو بیانات سے آگے بڑھ کر ایک سابق سرکاری افسر کے انٹرویو پر غور کیا جاسکتا ہے تاکہ ملک دشمنی یا وطن پرستی کے قضیے سے نکلا جاسکے۔
فیڈرل انوسٹی گیشن بیورو یعنی ایف آئی اے کے سابق ڈائیریکٹر جنرل بشیر میمن کا بھلا ہو کہ عین اس وقت انہوں نے مطیع اللہ جان کو ایک انٹرویو دیا ہے جس وقت پاکستانی شہری ایک وفاقی اور ایک صوبائی وزیر کے متضاد بیانات میں پھنسے اپنی حب الوطنی کو بچانے کی کوشش کررہے تھے۔ بشیر میمن نے اس طویل انٹرویو میں یوں تو بہت سی باتیں کہی ہیں لیکن ایک بات صراحت سے بیان کی ہے کہ انہیں ملک کے ’اعلیٰ ترین دفتر‘ میں بلایا گیا اور مریم نواز اور ان کے میڈیا سیل کے خلاف دہشت گردی کے الزام میں مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا گیا۔ بشیر میمن کہتے ہیں کہ یہ ’حکم‘ فرسٹ لیڈی بشریٰ بی بی کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر سامنے آنے کی وجہ سے دیا جارہا تھا۔ بشیر میمن نے پوچھا کہ ایک تصویر سوشل میڈیا پر آنے کے معاملہ میں دہشت گردی کی دفعات کیسے لگائی جاسکتی ہیں؟ قانون میں تو دہشت گردی کی صراحت موجود ہے۔ جب مطیع اللہ جان نے استفسار کیا کہ کیا اس میٹنگ میں وزیر اعظم بھی موجود تھے تو بشیر میمن نے بتایا کہ انہوں نے کہا نا کہ انہیں ملک کے ’اعلیٰ ترین دفتر‘ میں طلب کیا گیا تھا۔
یوں تو اعلیٰ ترین دفتر کے بارے میں بھی نت نئے اندازے قائم کئے جاسکتے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ سے سخت ناراض نواز شریف سے پوچھا جائے تو ہوسکتا ہے انہیں گمان ہو کہ ضرور یہ آرمی چیف کے دفتر کی بات ہورہی ہے کیوں کہ ان کے نزدیک عمران خان اور ان کے عہدے کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ بھی بے وقعت ہوکر رہ گئی ہے اور ان کی اطلاعات کے مطابق باہر سے لوگ آتے ہیں اور پارلیمنٹ کو بتاتے ہیں کہ کب کون سا فیصلہ کرنا ہے۔ اس سال کے شروع میں چونکہ مسلم لیگ (ن) بھی ایک ایسے ہی فیصلے کا مؤثر حصہ بن چکی ہے ، اس لئے نواز شریف کی اس ’آبزرویشن ‘ کو نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ 22 گریڈ کا ایک ریٹائرڈ افسر اپنے دور میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں انٹرویو تو دیتا ہے لیکن اعلیٰ ترین دفتر کی غیر واضح اور مبہم اصطلاح استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
بشیر میمن نے البتہ یہ بتایا ہے کہ وزیر اعظم ، شریف خاندان اور دیگر لوگوں کے خلاف مقدمات قائم نہ کرنے پر ان سے نالاں تھے ۔ بشیر میمن کا کہنا تھا کہ یہ صوبائی معاملہ تھا اور ایف آئی اے قانون کے مطابق کام کرتی ہے۔ تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ جب نیب نے اپوزیشن لیڈروں کے خلاف مقدمے قائم کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کی ’ذمہ داری‘ قبول کرلی تو ان کی قیادت میں ایف آئی پر دباؤ کم ہوگیا۔ یہ ادارہ اب ایک پسندیدہ افسر واجد ضیا کی نگرانی میں ایماندار وزیر اعظم کی ہر جائز خواہش پوری کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ یہاں یہ وضاحت گو کہ غیر ضروری ہے لیکن پھر بھی کہنے میں حرج نہیں ہونا چاہئے کہ وزیر اعظم اگر ایماندار ہو تو اس کی ہر فرمائش جائز ہی ہوتی ہے اور اس سے سرتابی دراصل ’ملک دشمنی ‘ سمجھی جانی چاہئے۔
شبلی فراز نے آج کی پریس کانفرنس دراصل کابینہ کے اجلاس کے بعد زیر بحث معاملات پر معلومات فراہم کرنے کے لئے منعقد کی تھی۔ غداری اور ملک دشمنی جیسی فضول بحث میں سے جو وقت بچا اس میں انہوں جلدی میں یہ بتایا ہے کہ ملکی معیشت کے سارے اشاریے درست ہیں۔ مالی خسارہ کم ہورہا ہے جبکہ دنیا میں ملک کا وقار بلند ہورہا ہے۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ کہیں سے مہنگائی کی اطلاع ہے تو اس کی وجہ دراصل بارشیں ہیں اور اگر اناج کی فراہمی میں کمی محسوس کی جارہی ہے تو اس کی ذمہ داری سندھ حکومت کی ’ذخیرہ اندوزی‘ پر عائد ہوتی ہے۔ شبلی فراز چونکہ نستعلیق انسان ہیں ، اس لئے انہوں نے بطور خاص یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ بدقسمتی سے سندھ حکومت انہی بدعنوان لیڈروں کی نگرانی میں کام کر رہی ہے جو نظام کہن پر چلنے والے پرانے پاکستان کے نمائیندے ہیں۔ البتہ وزیر اعظم تمام دستیاب اور نا دستیاب اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان عناصر کا قلع قمع کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔
اس دوران البتہ فرانس کے ایک ادارے اپسوس نے ایک جائزہ شائع کیا ہے جس میں اپوزیشن کی بدگمانی جیسے اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں۔ اس جائزے کے مطابق ملک کے پانچ میں چار لوگ یعنی 80 فیصد یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی سمت درست نہیں ہے۔ معاشی حالت خراب ہوئی ہے اور انہیں اپنے روزگار کے بارے میں شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ 10 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ وہ کسی بھی وقت روزگار سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اس جائزہ کے مطابق ملک کے تین چوتھائی لوگ سمجھتے ہیں کہ ملکی معیشت بدحال ہے۔ پانچ میں سے دو لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی مالی حالت دگرگوں ہے جبکہ اس سروے میں شامل پچاس فیصد لوگوں کا ماننا تھا کہ ان کے نجی مالی حالات مزید خراب ہوں گے۔ سروے میں لوگوں کی بہت بڑی اکثریت نے مہنگائی اور بیروزگاری کو سنگین ترین مسائل بتایا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق عوام ملک کی معاشی صورت حال اور عمومی حالات کے بارے میں تشویش ہے اور وہ شدید بے چینی کا شکار ہیں۔
سروے میں لوگوں کے نزدیک کرپشن اور لوڈ شیڈنگ کو مہنگائی اور بیروزگاری کے مقابلے میں کم اہم قرار دیا گیا ہے۔ ایسے سروے چونکہ چند سو لوگوں کی رائے پر مشتمل ہوتے ہیں ، اس لئے انہیں کسی بھی معیشت یا معاشرے کا نمائیندہ تو نہیں کیا جاسکتا تاہم تواتر سے ایسی رائے سامنے آنے پر کوئی بھی حکومت پریشان ہوتی ہے اور عوام میں پائی جانے والی بے چینی کے عوامل جاننے اور انہیں بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ ملکی معیشت، عوام کی مالی پریشانی اور مہنگائی و بیروزگاری کی موجودہ صورت حال میں حکومت اور اس کے نمائیندوں کو بھی چاہئے کہ وہ بھارتی ایجنڈے پر گامزن عناصر کی خبر دینے اور ملک دشمنی و غداری کا فرق واضح کرنے کے علاوہ کبھی یہ بھی بتا دے کہ عام لوگ کب سکھ کا سانس لے سکیں گے؟
یا پھر کوئی ایسا راستہ تلاش کیا جائے کہ ملک سے غدار برآمد کرنے کا سلسلہ شروع ہوسکے۔ جیسا کہ گزشتہ چند روز کے دوران وزیر اعظم کے بیانات اور اس کے بعد شروع ہونے والے مباحث سے پتہ چلا ہے کہ ملک میں غدار وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں تو کیوں نہ اس جنس کو منافع بخش بنانے پر غور کیا جائے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ