اتوار کو فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ پر منعقد ہونے والے ایک جلسہ میں پیر حمید الدین سیالوی کی بلّی بھی تھیلے سے باہر آگئی۔ چودہ پندرہ ارکان اسمبلی کے استعفے جیب میں ڈالے پھرنے کا دعویٰ کرنے والے پیر صاحب کی ہدایت پر بالآخر قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے تین ارکان نے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے ہوئے ختم نبوت کی تحریک کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کیا ہے۔ ان لوگوں نے علاقے کے مشائخ اور مختلف روحانی خانوادوں کے دباؤ اور پیر حمیدالدین کے اپنے حلقوں میں اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ استعفے دیئے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان ارکان نے اس طرح آئیندہ انتخابات میں اپنی تشستیں محفوظ کرنے کا اہتمام کرلیا ہو یا کم از کم انہیں یہ یقین ہو کہ پیر حمیدالدین کے مریدوں کے ووٹ انہیں ایک بار پھر کامیاب کرواسکیں گے لیکن ان استعفوں سے پیر حمیدالدین نے پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت کے لئے جو ہوّا کھڑا کیا ہؤا تھا ، اس کا پردہ بہر حال فاش ہو گیا ہے۔
جلسہ عام میں اس اعلان کے بعد پیر حمیدالدین اور ان کے نمائیندوں کے علاوہ مستعفی ہونے والے اراکین اسمبلی بھی اخباری نمائیندوں سے ملنے یا بات کرنے سے کتراتے رہے۔ ان میں کم از کم ایک رکن اسمبلی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو پیر صاحب کو جانتے نہیں لیکن علاقے کے علمائے کرام اور معززین کے دباؤ میں انہیں استعفی کا اعلان کرنا پڑا۔ اس قسم کے بیان سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ہوا کا رخ بدلتے ہی یہ ارکان شہباز شریف سے معافی تلافی کے طلبگار بھی ہو سکتے ہیں۔ اب اس میں کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ سب سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرنے کے طریقے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس مقصد کے لئے مذہب اور ختم نبوت جیسے حساس معاملہ کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد سے شریف خاندان اور مسلم لیگ (ن) پر جو برا وقت آیا ہے ، اس میں ملک کے تمام چھوٹے بڑے سیاسی اداکار یہ سوچ کر اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جب شریف خاندان پر سیاست کے دروازے بند ہو جائیں گے تو وہ بھی بڑھ چڑھ کر یہ دعویٰ کرسکیں گے کہ ان کی سیاسی جد و جہد کے نتیجہ میں ملک کو اس ’بدعنوان اور حریص‘ سیاسی خاندان سے نجات مل سکی ہے۔ لیکن فی الوقت تو یوں لگتا ہے کہ شریف خاندان کا زوال نوشتہ دیوار سمجھ کر اچھل کود کرنے والے بہت سے سیاستدانوں کو کافی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور یہ امید کرنی ہوگی کہ 2018 کے انتخاب ایسے خوابوں کے لئے بری تعبیر نہ بن جائیں۔ پیر حمیدالدین سیالوی پر تو یہ وقت انتخابات سے بہت پہلے ہی آگیا ہے۔ اگر وہ صرف دھمکی دینے اور اپنی گدی پر بیٹھ کر غرّانے سے ہی کام چلاتے تو عزت بھی بچی رہتی اور شہباز شریف اور ان کے نائیبین بھی ان کی منت سماجت کے لئے حاضری دیتے رہتے۔ لیکن اپنی ’قوت‘ کی ہانڈی بیچ چوراہے پھوڑنے کے بعد لاہور میں بیٹھے ہوئے شہباز شریف اطمینان کا سانس لے سکتے ہیں کہ پیر صاحب نے جو توپ چلانی تھی ، وہ تو چل چکی ، اب مزید پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔
نواز شریف یا مسلم لیگ (ن) کو کمزور سمجھ کر وار کرنے والے سیاسی اور نیم سیاسی یا مذہب کے نام پر سیاست کمانے کی کوشش کرنے والے عناصر کو یہ لگتا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے ختم ہونے کے بعد سیاسی اقتدار کا کچھ نہ کچھ حصہ ان کے ہاتھ بھی آسکتا ہے۔ لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں کہ اس کوشش میں وہ جس قوت کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں ، وہ اس ملک میں جمہوریت کے حقیقی فروغ کو اپنے اختیار اور ایجنڈے کے لئے درست نہیں سمجھتی۔ جبکہ استعفے دینے والے اور مانگنے والے ہر طرح کے عناصر کو اگر کوئی اہمیت حاصل ہو سکتی ہے تو وہ جمہوری عمل ہی کے نتیجے میں ہوگی۔ اگر ملک میں جمہوری نظام کا ہی بستر گول ہو گیا تو ان سب لوگوں کا حال بھی چرخا جلا کر کھیر پکانے کے بعد ڈھول بجانے والوں جیسا ہی ہوگا۔ کیوں کہ پکی ہوئی کھیر کھانے کے لئے کوئی دوسرا موجود ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی مشکلات میں اضافہ اگرچہ اس کے سیاسی مخالفین کی اقتدار کی دوڑ جیتنے کی خواہش کی وجہ سے بھی ہؤا ہے لیکن پنجاب اور مرکز میں اس کی حکومتیں پے در پے ایسی غلطیاں کررہی ہیں جو نہ صرف مخالفین کو گروہ بندی کا موقع فراہم کرتی ہیں بلکہ حکومت کی پوزیشن اور مؤقف کو بھی کمزور کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ اس کا مظاہرہ فیض آباد دھرنے کے موقع پر انتہائی بدنما طریقے سے سامنے آیا ہے۔ حکومت اس بات کا دفاع کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی کہ ایک حلف نامہ میں ’ میں حلف اٹھاتا ہوں ‘ یا ’میں اقرار کرتا ہوں ‘ میں معانی یا عملی لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہو سکتا۔ جو نمائیندہ یہ اقرار کرتا ہے کہ وہ ختم نبوت پر ایمان رکھتا ہے ، وہ درحقیقت حلف ہی اٹھا رہا ہوتا ہے۔ لیکن اس قضیہ پر حکومت کو وزیر قانون کی قربانی دینا پڑی اور مظاہرین سے معافی کا طلب گار بھی ہونا پڑا۔ حالانکہ ان مٹھی بھر مظاہرین نے مغلظات بکتے ہوئے اور الزام تراشی کرتے ہوئے ہر کسی کو دائرہ ایمان سے نکال باہر کیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس ماحول میں معاہدہ ہونے اور فیض آباد دھرنا ختم ہونے کے بعد بھی لاہور کا دھرنا جاری رہا اور اس دوران پیر حمید الدین سیالوی مسلم لیگ (ن) کے درجن بھر سے زائد اراکین اسمبلی کے استعفے جیب میں رکھنے کا دعویٰ کرتے ہوئے حکومت کو اپنی شرائط ماننے پر مجبور کرنے لگے۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے میڈیا کے نمائیندوں، تجزیہ نگاروں ، سیاسی مخالفین یا حکومت کے ترجمانوں نے ہرگز یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ کوئی بھی مذہبی رہنما یا پیر حکومت کو کس طرح ایک اقلیتی گروہ کی حفاظت کرنے سے روک سکتا ہے۔ رانا ثناء اللہ نے صرف یہی یقین دہانی کروائی تھی کہ احمدیوں کی حفاظت ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن سیاسی دباؤ سامنے آنے پر اپنی بات پر اصرار کرنے کی بجائے وہ یہ وضاحت کرنے لگے کہ ان کی بات کو غلط سمجھا گیا ہے اور وہ اس پر معافی کے خواستگار ہیں۔ جب حکومت اور اس کے نمائیندے ایک بنیادی اصولی مؤقف پر قائم رہنے کا حوصلہ نہیں کریں گے تو معاشرے میں انارکی اور انتشار عام کرنے والے عناصر کا قوت پکڑنا ناگزیر ہے۔
پیر حمیدالدین سیالوی کے حوالے سے سب سے افسوسناک یہ مطالبہ ہے کہ رانا ثناء اللہ کلمہ پڑھ کر اپنے ایمان کی تجدید کریں۔ کسی بھی ایک فرد کو خواہ سماجی یا دینی لحاظ سے وہ کسی بھی رتبہ پر فائز ہو ، دوسروں کے ایمان اور عقیدہ کے بارے میں ایسی ہرزہ سرائی کرنے اور فتوے جاری کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن اگر حکومت میں شامل لوگ خود ہی ان عناصر کو با اثر سمجھ کر ان کی منت سماجت پر اتر آئیں گے اور اصولی بات پر قائم رہنے سے گریز کریں گے تو قانون کا مذاق بھی اڑایا جائے گا، شہری حقوق بھی متاثر ہوں گے اور سیاسی نقصان بھی اٹھانا پڑے گا۔ پیر سیالوی کو اپنے دعوؤں کی سچائی خود اپنے ہی آئینے میں دکھائی دے رہی ہوگی لیکن اصولوں سے گریز کرنے والی حکومت کی بے بسی اور کمزوری سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔
بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ