پروفیسر محمد اکرام ہوشیار پوری کی نو مختصر افسانوں پر مشتمل کتاب کا عنوان ہی اس کے مزاج کا پتہ دیتا ہے۔ کتاب کے سر ورق پر سوکھے درخت سے گرتے ہوئے زرد پتے دیکھ کر مجھ پر معروف شاعر ، دانشور پروفیسر حسین سحر(مرحوم) کی ایک غزل کے شعر” میں لہلہاتی شاخ کو سمجھا تھا زندگی۔۔۔ پتہ گرا ،تو درس فنا دے گیا مجھے“ کا مطلب و مفہوم مزید واضح ہونے لگا۔کتاب کے سر ورق پر سوکھے درخت سے گرنے والا ہر پتہ درس فنا دیتے ہوئے بتا رہاتھا کہ بس ایک ہی ذات حیی و قیوم ہے۔ جسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند باقی سب” آخر جھوک فنا دی او یار“ ۔کتاب کا سر ورق اس کے عنوان کے عین مطابق ڈیزائن کیا گیا ہے جو کتاب ہاتھ میں آتے ہی قاری کو کتاب کے اوراق پلٹنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کتاب کی ایک اہم بات یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے ہر افسانے سے پہلے اس کا تنقیدی جائزہ اور افسانے کے آخر میں اس کا مرکزی خیال تحریر کر کے جہاں ایک نئی طرح ڈالی ہے وہیں بعد میں کتاب پڑھنے والوں کے لیئے اس پر کوئی رائے قائم کرنے کا حق محدود کرتے ہوئے ،کتاب پر مزید اظہارخیال کو مشکل بنا دیا ہے۔ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے یہ اہم کام اس دور میں کیا ہے جب ہر زبان پر تنگئی وقت کا گلہ رہتا ہے اور تنگئی وقت کو جواز بنا کر انتہائی قریبی رشتوں سے بھی کہیں شعوری تو کہیں لا شعوری طور پر فاصلے اور دوریاں بڑھ جانا معمول بنتا جا رہا ہے۔ کتاب کے تیسرے افسانے کا عنوان ” سوکھے درخت اور زرد پتے“ ہی کتاب کا عنوان ٹھہرا ہے۔ یہ افسانہ رنج و الم کی کیفیات سے بھر پور ، مصنف کے تلخ مشاہدات کا عکاس ہے۔ مصنف اپنے لڑکپن میں تقسیم ہند کے وقت ہونے والی ہجرت کے عمل سے گزرا ہے۔ لہٰذا ، اس کے دل و دماغ پر ان واقعات کی گہری چھاپ ہونا لازمی امر ہے۔ ان اثرات میں موت کا خوف ایک خاص اثر رکھتا ہے ۔ اوپر تلے موت سے ہمکنار ہونے والے کردار مصنف کو موت کے کرب میں مبتلا کیئے رکھتے ہیں۔اس افسانے میں ماضی کی چند خوشگوار یادیں بھی ہیں اور تقسیم ہند کے وقت اور بعد از تقسیم پیش آنے والے مصائب اور آلام کا ذکر بھی۔۔یہ افسانہ ایک خاص دور کے مخصوص پس منظر کی عکاسی بڑے احسن طریقے سے کرتا ہے۔ افسانے کے بعض جملے قاری کو ان حالات کی تصویر دکھاتے ہیں۔مثال کے طور پر۔” بہت سی عورتیں زرد پتوں کی طرح زندگی کی شاخوں پر لگی ہوئی تھیں“ ۔ ” اس کے ذہن کی شاخوں سے بہت سی یادوں کے چمٹے زرد پتے لرز رہے تھے“ اسی افسانے کا ایک اور جملہ آج کے حالات کی تصویر کشی کرتاہے“ شاید جسے مرنا ہو تا ہے، اسے ہسپتال میں داخل کروا دیا جاتا ہے“ ۔ کتاب کا پہلا افسانہ” بانسری کی دھن“ ایک ادھورے عشق کی کہانی ہے ۔جو دیہات کی زندگی کے پس منظرمیں لکھا گیا ہے۔ اس افسانے کے کرداروں اور واقعاتی ترتیب پر پنجاب کی مشور لوک داستان ہیر رانجھا کی چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ ” گجری “ الہڑ مٹیار جو اس افسانے کا مرکزی کردار ہے ، وہ نڈر اور بے باک تو ہے مگر مزاحمتی کردار نہیں ہے۔کہانی کے آخر میں گجری بغیر کسی قابل ذکر مزاحمت کے، ہتھیار ڈال کر اپنی محبت سے دستبردار ہو کر وٹے سٹے کے نتیجے میں کسی اور کی ڈولی میں بیٹھ جاتی ہے اور نور کی بانسری کی دھن ڈھولک کی تھاپ اور گانوں کی آوازوںمیں آہستہ آہتہ گم ہو جاتی ہے۔کہانی کے پلاٹ سے قطع نظر ، اس افسانے میں مصنف نے بہت خوبصورت ،پراثراور سحر انگیزمنظر کشی کی ہے جو مصنف کی جمالیاتی اور جذباتی حس کا پتہ دیتی ہے۔ملاحظہ ہو۔” ندی کا پانی اسی طرح بہتا رہا، نجانے اس کے کنارے کتنے دلوں نے اپنی اپنی محبت کے گیت گائے۔ کتنے چکور اس چاند کی چاندنی میں ڈوب گئے۔ کتنے پھول کھلے اور مرجھا گئے۔کتنوں کا ملاپ ہوا ، اور کتنے بچھڑ گئے“ ۔” شام کے دھندلکے چھا رہے تھے، دور مغربی افق پر درختوں کی شاخوں میں سورج ان دونوں کو چوری چوری جھانک رہا تھا،جو کبھی بادلوں میں منہ چھپا لیتا اور کبھی پھر جھانکنے لگتا“ ۔ تاش کے باون پتے ، ایسا افسانہ ہے جواس دور کی مکمل عکاسی کرتا ہے، جس سے نئی نسل ناواقف ہے۔ جب تفریح کا واحد ذریعہ سنیما ہوا کرتا تھا۔افسانے کا مرکزی کردار شاہد ر وقت دلیپ کمار کی طرح زلفیں اپنے ماتھے پر لٹکائے رکھنے کی وجہ سے زلفی مشہور ہو جاتا ہے۔ چودھری ایک ایسا کردار ہے جو نیکی کی آڑ میں برائی بلکہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس میں معاشرے کی منافقت پر کھل کر بات کی گئی ہے ۔
ایک افسانہ جس کا عنوان دائرہ اور لکیریں ہے ، میرے نزدیک اس کتاب کا شاہکار افسانہ ہے۔ جو ہر اس آدمی کی کہانی ہے جو ایک بھر پور زندگی گزارنے کے بعد ریٹائر منٹ کی عمر کو پہنچتا ہے۔ مصنف لکھتا ہے ” معاشرے نے اب مجھے ایک بے کار اور فالتو چیز سمجھ کر نظر انداز کر دیا ہے ۔ وہ دن گئے جب ہر ایک کو میری ضرورت ہوا کرتی تھی اور میرے آرام کا وقت بھی ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی نذر ہو جا تاتھا“ ۔ ،،، زندگی کا دائرہ۔۔۔موت و حیات کی لکیریں۔۔۔وہی ازلی۔ابدی رشتے، یعنی، بیٹی، ماں، نانی، دادی، پیدائش، شادی بیاہ کے علاوہ تقرر، سروس، ریٹائرمنٹ اور پنشن کے چکر۔۔۔تندرستی، بیماری اور موت کی لکیریں پھیلتی رہیں،سمٹتی رہیں اور ابھرتی رہیں “ ۔ ان الفاظ میں دکھ کا احساس بھی ہے، شکوہ بھی اور دل کے کسی گوشے میں پچھتاوے کی چبھن بھی۔ان چند الفاظ میں مصنف نے موت وحیات کی پھیلی ہوئی لکیروں اور زندگی کے دائروں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے ۔افسانہ وقت کی بات کا موضوع روز مرہ زندگی کی ایک حقیقت ہے، جہاں ہر کوئی پرانے تعلق ، پرانے رشتے، جن کے بارے میں ایک وقت پر یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کے بغیر زندگی ادھوری ہے، انہیں بھلا دیا جاتاہے۔ حقیقت سے قریب تر ان الفاظ پرافسانے کا اختتام قاری پر اپنا اثر چھوڑتا ہے۔” اور جب میرے سامنے میرے بچوں کا مستقبل ہوتا ہے اور ان کے معصوم چہروں کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں، تب میں اپنے گھریلو اور کاروباری منصوبوں کی تکمیل میں ہمہ تن مصروف ہو کران گزرتے ہوئے تمام واقعات کو کو صرف وقت کی ایک بات سمجھ کر ٹال دیتا ہوں“ ۔ الغرض دیگر افسانے اداس پھول ، مایوس کلیاں، دو گز زمین،بابا حکیم اور پھل مکھانے، کھلاں چھولے ۔یہ تما م افسانے اپنے اندر ایک مقصدیت کے ساتھ ساتھ وہ تمام حقیقتیں لیئے ہوئے ہیں، جو ایک عام آدمی کی روز مرہ زندگی کا لازمی جزو ہیں۔جس سے مصنف کی مظبوط قوت مشاہدہ کا پتہ چلتا ہے۔ ان افسانوں میں کہیں کہیں ، مشاہدے سے زیادہ تجربے کا عنصر دکھائی دیتا ہے ۔ سوکھے درخت اور زرد پتے نامی کتاب اپنے اندر ماضی کی یادوں کا ذخیرہ، انسانی رو یوں کا مشاہدہ اور زندگی کے تلخ و شیریں حقائق سموئے ہوئے ہے۔ یوں اسے انسانی احساسات اور جذبات کی ترجمان کہا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر محمد ریاض انجم نے یہ گم گشتہ فن پارے تلاش کر کے قارئین تک پہنچانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے اور سینئر صحافی جناب امتیاز گھمن نے انہیں اپنے اشاعتی ادارے ،،ملٹی میڈیا افیئرز،، کے زیر اہتمام ایک کی صورت میں شائع کر کے قارئین تک پہنچایا ہے۔ مصنف کے صاحبزادے جناب زاہد اکرام ڈی او سی ملتان نے کتاب کی اشاعت اور بعد ازاں ایک خوبصورت تقریب رونمائی کا اہتمام کر کے اپنے والد محترم پروفیسر محمد اکرام ہوشیار پوری کے کام کو متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کر تے ہوئے، اپنے مرحوم والد کا ادبی اثاثہ محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ ادب نوازی کا ثبوت بھی دیا ہے۔ اس خوبصورت کتاب کی خوبصورت تقریب رونمائی کو تقریب کے منتظم جناب سجاد جہانیاں اور شاکر حسین شاکر نے مزید خوبصورت بنا دیاہے یہ سب حضرات مبارکباد کے مستحق ہیں۔
(ملتان ٹی ہاﺅس میں منعقدہ تقریب رونمائی میں پڑھا گیا)
فیس بک کمینٹ