صدر آصف علی زرداری نے بعض یک طرفہ فیصلوں کی وجہ سے وفاق پر پڑنے والے بوجھ کا ذکر کیا ہے اور پارلیمنٹ کے ارکان پر عوام کی سہولت کے لیے سخت محنت سے کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے خاص طور سے چولستان میں زرعی منصوبے کے لیے دریائے سند ھ سے نئی نہریں نکالنے کے معاملہ کی حمایت کرنے سے معذوری ظاہر کی۔
صدر کا یہ انتباہ صرف سندھ وفاق تعلقات ہی کی حد تک اہم نہیں ہے بلکہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے حوالے سے بھی اس بارے میں مناسب اقدام کی ضرورت ہے۔ سندھ میں حکومت پنجاب کی طرف سے ایک نئے زرعی منصوبہ کے لئے نہریں نکالنے کے فیصلہ کی مخالفت کی جارہی ہے۔ سندھ کے لوگوں کو تشویش ہے کہ اس منصوبہ سے صوبے کے حصے کا پانی کم ہوجائے گا اور پنجاب اپنے حصے سے زیادہ پانی وصول کرلے گا۔ یہ معاملات مشترکہ مفادات کونسل جیسے آئینی ادارے میں طے کرکے باہمی رضامندی سے طے کیے جاسکتے ہیں لیکن اگر متفقہ آئینی انتظام و طریقہ کار پر عمل سے گریز کا رویہ اختیار کیا جائے گا تو اس سے سیاسی اختلافات کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں میں دوریاں بڑھنے کا اندیشہ موجود رہے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی اگرچہ وفاقی حکومت میں شامل نہیں ہے لیکن اس نے صدارت سمیت متعدد آئینی عہدے حاصل کرکے موجودہ حکومت کی حمایت کی سیاسی ذمہ داری قبول کی ہے۔ پیپلز پارٹی ہی کے تعاون و اشتراک سے پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ (ن) اقتدار پر قابض ہے۔ اس دوران مسلسل یہ اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی متعدد فیصلوں سے مطمئن نہیں ہے اور وفاقی حکومت کے علاوہ پنجاب حکومت کے ساتھ اختلافات موجود ہیں جنہیں حل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ ایسی خبریں عام ہونے کے بعد وزیر اعظم کی طرف سے یہ اطلاع ضرور سامنے آتی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کی قیادت سے مل کر تمام شکایات دور کریں گے لیکن عملی طور سے پیدا ہونے والی غلط فہمیاں موجود ہیں ۔ پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران وفاق پر پڑنے والے بوجھ کا ذکر کرکے صدر آصف زرداری نے درحقیقت حکومت کو اس صورت حال سے آگاہ کرنے کی سفارتی و سیاسی کوشش کی ہے۔ تاکہ ایسے فیصلے کرنے سے گریز کیا جائے جو یک طرفہ ہوں اور جن سے بین الصوبائی تعلقات متاثر نہ ہوں۔
مسلم لیگ (ن) متعدد وجوہات کی بنا پر خود کو محفوظ محسوس کرتی ہے اور اس کا خیال ہے کہ اختلافی امور پر زیادہ توجہ دینے کی بجائے ایسے فیصلے کیے جائیں جن سے عوام کو سہولت دی جاسکے اور فوج کے ساتھ تعلقات بحال رہ سکیں۔ اس وقت ملک میں جو جمہوری ہائیبرڈ نظام کام کررہا ہے، اس میں شہباز شریف کو عسکری قیادت کا اعتماد و سرپرستی حاصل ہے۔ اس نظام کو فعال بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کو بھی اس کا حصہ بنایا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی چونکہ حکومت کا حصہ بن کر معاملات و مسائل کی سیاسی ذمہ داری قبول کرنے سے گریزاں تھی، ا س لیے اس کے ساتھ یہی طے ہؤا کہ اسے بعض عہدے دے دئے جائیں اور سیاسی معاملات میں اسے اکاموڈیٹ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی معاہدے کی ضامن عسکری قیادت ہے جس کی خواہش ہے کہ ملک میں مستحکم حکومت قائم رہے اور معاشی معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ اس حکمت عملی کے نتیجہ میں تحریک انصاف کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے اور سیاسی عمل میں اس کی شرکت کے راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ تاہم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر کے طور پر نواز شریف یہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو عسکری کی قیادت کی حمایت ہمیشہ کے لیے حاصل نہیں رہےگی۔ جیسے عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے تیار کیے گئے ہائیبرڈ نظام میں دراڑیں پڑنا شروع ہوئی تھیں، ویسی ہی مشکلات کا سامنا موجودہ حکومت کو بھی ہوسکتا ہے۔
شہباز شریف یا پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز عسکری قیادت کی اعانت کے گمان میں ایک ایسی پارٹی کے ساتھ غیر مفاہمانہ طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں جس کے تعاون کے بغیر ان کی حکومتیں قائم نہیں رہ سکتیں۔ ان کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی عسکری قیادت کی مرضی و منشا کی وجہ سے موجودہ حکومت کے ساتھ تعاون پر مجبور ہے۔ اس لیے اس کے پاس موجودہ نظام کو سہارا دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ لیکن اس تاثر کی بنا پر ایک اہم سیاسی حلیف کے ساتھ معاملات میں بگاڑ پیدا کرنا ملکی سیاسی عمل میں پیچیدگیاں اور مشکلات پیدا کرے گا۔ اسی کا اشارہ صدر آصف زرداری نے اپنی تقریر میں دیا ہے۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ مریم نواز اور گورنر سردار سلیم حیدر خان کے درمیان اختلافات سطحی نوعیت کے ہیں اور ذرا سی ہوشمندی سے کام لے کر ایسی غلط فہمیاں دور کی جاسکتی ہیں۔ تاہم اگر کسی پارٹی یا سربراہ حکومت کو یہ گمان ہو کہ اس کا ’کلہ‘ مضبوط ہے تو پھر ایسی بدگمانیاں دور کرنے کی کوشش دیکھنے میں نہیں آتی۔ حالانکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت ایسے ادوار سے گزر چکی ہے جب اسے اسٹبلشمنٹ کی چہیتی ہونے کے بعد اسی کی طرف سے سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے سابق فوجی آمر پرویز مشرف اور پھر عمران خان کو متبادل کے طور پر ملک میں قومی لیڈر بننے میں مدد دیتے ہوئے اسٹبلشمنٹ ہی نے مسلم لیگ (ن) کی سیاسی شکست و ریخت میں کردار ادا کیا تھا۔ اس تجربہ سے مسلم لیگ (ن) کو یہ سبق ضرور سیکھنا چاہئے کہ دیرپا تعاون سیاسی پارٹیوں ہی سے حاصل ہوتا ہے جو محض اقتدار ہی میں نہیں بلکہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد بھی کار آمد ہوسکتی ہیں۔ اس لیے اس وقت اقتدار کے ایک دورانیہ کے لیے مسلم لیگ (ن) کو پیپلز پارٹی جیسی سیاسی قوت کے ساتھ معاملات خراب کرنے کی بجائے انہیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔
اسی حوالے سے یہ ذکر کرنا بھی اہم ہے کہ اگر اس دلیل کو درست مان لیا جائے کہ ملک کے معاشی بحران کی وجہ سے موجودہ ہائیبرڈ انتظام کا حصہ بننا ضروری تھا تاکہ معاشی استحکام اور اداروں پر عوام کے اعتماد کا مقصد حاصل کیا جاسکے۔ گو کہ یہ طریقہ کار ملکی آئینی تقاضوں اور جمہوری ضرورتوں کے برعکس ہے لیکن اس کے باوجود سیاسی پارٹیاں اور لیڈر اس راستے پر چلنے پر آمادہ ہوجاتی ہیں۔ تاہم مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس ملک کی پرانی سیاسی قوتیں ہیں اور ان کی قیدت بھی جہاں دیدہ اور تجربہ کار ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ موجودہ انتظام کو مجبوری کے عالم میں آگے بڑھنے کا راستہ تو مانا جائے لیکن جس قدر جلد ممکن ہو ملک میں مکمل جمہوری نظام بحال کرنے کے لیے کام کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے سیاسی پارٹیوں کا باہمی اعتماد و اشتراک عمل بے حد اہم ہے۔ موجودہ حالات میں تحریک انصاف کو پہلے ہی دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسمبلیوں میں اس کی قابل ذکر نمائیندگی کے باوجود اسے سیاسی عمل میں حصہ دار بنانے کا کوئی طریقہ تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی۔ اب اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی باہمی افتراق کا شکار ہوں گی اور مل کر حکومت بنانے کے باوجود ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیاں موجود رہیں گی تو اس سے ملک میں جمہوریت کو مستقل خطرہ لاحق رہے گا۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ صدر مملکت کی تقریر کے دوران آج تحریک انصاف کے ارکان نے پارلیمنٹ کی کارروائی میں خلل ڈالنے کی پوری کوشش کی، عمران خان کے حق میں نعرے لگائے جاتے رہے یا ارکان ڈیسک بجا کر صدر کو تقریر کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ طرز عمل ملک میں سیاسی عمل کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے گا۔ تحریک انصاف ضرور اپنا احتجاج رجسٹر کرائے لیکن اسے بھی صدر مملکت کو مناسب پروٹوکول دینا چاہئے۔اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر کی تقریر کے دوران احتجاج کے بعد کارروائی کا حصہ بننا چاہئے تھا۔ تحریک انصاف پر یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ وہ تن تنہا ملکی نظام کو الٹ کر اپنی مرضی کا نظام استوار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ عمران خان کے نام پر اگرچہ تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے لوگ موجود ہیں لیکن اگر پارٹی ارکان ان ووٹروں کی رائے کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں استعمال کرنے کے قابل نہیں ہوں گے تو یہ مقبولیت بکھرنے لگے گی۔
اس پس منظر میں صدر آصف زرداری کا یہ مؤقف قابل غور ہونا چاہئے کہ ’ ایوان پارلیمنٹ کو سونپی گئی ذمہ داری کو پورا کرے۔قوم کی تعمیر، اداروں کو مضبوط کرنے، گورننس کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرے۔ آئیے قومی مفاد کو مقدم رکھیں اور ذاتی وسیاسی اختلافات کو ایک طرف کرکے معیشت کی بحالی، جمہوریت کے استحکام اور قانون کی حکمرانی کے لیے مل کر کام کریں‘۔ صدر مملکت کی ان باتوں کو ایک سیاسی حریف کی خود نمائی سمجھنے کی بجائے ، ان کے معانی پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ جمہوریت کے حقیقی مقصد کے لیے پارلیمنٹ کو بااختیار اور باوقار ادارہ بنایاجاسکے۔
( بشکریہ :کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ