وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کے وزیر خارجہ پرنس فیصل بن فرحان السعود کے ساتھ ملاقات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ تمام افغان فریقوں کو بات چیت کے ذریعے بحران کا سیاسی حل تلاش کرنا چاہئے۔ علاقے میں امن و استحکام کے لئے بامقصد مذاکرات ہی سود مند ہوسکتے ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ ایک روزہ دورہ پر پاکستان آئے تھے تاکہ اسی سال مئی میں وزیر اعظم پاکستان کے دورہ سعودی عرب میں ہونے والی پیش رفت پر بات چیت کی جائے۔ یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
اس وقت دنیا اور خاص طور پر جنوبی ایشیا میں افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ اب تک اس جنگ زدہ ملک سے جو معلومات حاصل ہورہی ہیں ، ان کے مطابق طالبان نے افغان فورسز پر عسکری دباؤ میں اضافہ کیا ہے اور ایک کے بعد دوسرے ضلع پر قبضہ کیا ہے۔ طالبان کا تو دعویٰ ہے کہ اس نے ملک کے پچاسی فیصد اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے تاہم پاکستانی فوج کے ترجمان سمیت ذرائع کا یہی قیاس ہے کہ یہ پیش قدمی اس سے بہت کم ہے اور طالبان اپنی فوجی کامیابی کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔ ایک طرف بین الافغان مذاکرات میں تعطل اور افغان حکومت و طالبان کے درمیان کسی امن معاہدے کی عدم موجودگی میں یہ محسوس کیاجارہا ہے کہ طالبان اس ماہ کے آخر میں امریکی افواج کا انخلا مکمل ہونے کے بعد عسکری دباؤ میں اضافہ کریں گے۔ البتہ حال ہی میں طالبا ن کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک انٹرویو میں یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ طالبان کی پیش قدمی عسکری کامیابی نہیں ہے بلکہ انہوں نے مقامی قبائیلی لیڈروں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے بیشتر علاقوں پر تسلط حاصل کیا ہے۔
طالبان کی عسکری قوت کا خوف اور ان کی جنگ جوئی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا تصادم اس وقت پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان کو اندیشہ ہے کہ افغان سرزمین پر کسی نئی فوجی کشمکش کے نتیجے میں ایک تو پناہ گزینوں کی بڑی تعداد پاکستان کا رخ کرے گی۔ پاکستان ایسا بوجھ برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیوں کہ افغانستان سے دنیا کی عدم دلچسپی کے سبب یہ امکان نہیں ہے کہ عالمی ادارے و ممالک 2001 کی طرح افغان پناہ گزینوں کے لئے مالی وسائل فراہم کریں گے ۔ اس معاملہ کے معاشی پہلو کے علاوہ پاکستان کو اس بات کا بھی شدید خطرہ ہے کہ پناہ گزینوں کے نئے ریلے کی آمد کے ساتھ ہی افغانستان سے انتہا پسندوں کے نئے ٹولے بھی پاکستان میں داخل ہوسکتے ہیں جو پاکستان میں بھی تخریب کاری میں ملوث ہوں گے اور افغانستان میں جنگ کا حصہ بن کر بھی پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کریں گے۔ اس لئے اصولی طور سے پاکستان کی یہی خواہش ہے کہ کسی طرح افغان حکومت اور طالبان و دیگر متعلقہ گروہ بات چیت سے معاملہ طے کرلیں اور کسی ایسے سیاسی نتیجہ پرپہنچ جائیں جس سے کابل میں شراکت اقتدار کا فارمولا طے ہوسکے۔ سعودی وزیر خارجہ کے سامنے جب وزیر اعظم پاکستان نے یہ معاملہ رکھا تو اس کے دو ہی مقصد ہوسکتے ہیں۔ ایک تو اہم اسلامی ملک کے طور پر سعودی حکومت کو صورت حال اور پاکستانی مؤقف سے آگاہ کرکے ان سے سفارتی تعاون کی امید کی جائے۔ دوسرے دنیا کو یہ باور کروایا جائے کہ پاکستان افغانستان کے پر امن حل کا خواہش مند ہے اور کسی قسم کی جنگ جوئی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔
افغانستان کے سوال پر پاکستانی مؤقف کو سفارتی قبولیت دلوانے کی حد تک کو سعودی وزیر خارجہ سے افغان مسئلہ پر پاکستانی نقطہ نظر کے مطابق بات چیت قابل فہم ہے۔ تاہم موجودہ سفارتی و سیاسی ماحول میں پاکستان کو یہ امید نہیں کرنی چاہئے کہ سعودی عرب ماضی کی طرح افغانستان میں کوئی کردار ادا کرے گا۔ سعودی حکام اس وقت خود اپنے ملک میں مذہبی سخت گیری کم کرنے کے لئے اقدامات کررہے ہیں اور وہ ایسے گروہوں کی پشت پناہی سے گریز کریں گے جو مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھا کر سیاسی قوت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یوں بھی واشنگٹن میں حکومت کی تبدیلی اور صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ریاض کو امریکہ سے تعلقات میں توازن پیدا کرنے کے لئے سخت محنت کی ضرورت ہے۔ وہ افغانستان میں کسی ایسے گروہ کی حمایت سے گریز کریں گے جس سے واشنگٹن کے ساتھ مشکلات میں اضافہ ہو اور غیر ضروری غلط فہمیاں پیدا ہوں۔ پاکستان بھی ا س پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ امریکہ و سعودی عرب کے درمیان خیر سگالی کے لئے پل کا کردار ادا کرسکے یا کسی دوسرے طریقے سے سعودی عرب کو سفارتی مدد فراہم کرے۔ اس لئے افغان مسئلہ پر سعودی عرب کے اثر و رسوخ کی امید رکھنا بے سود ہوگا۔
افغانستان سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق وہاں پاکستان کو طالبان کا پشت پناہ سمجھا جاتا ہے۔ بھارتی حکومت اور دنیا کے اہم اداروں اور ممالک میں اس کی لابی یہی تاثر قوی کرنا چاہتی ہےکہ پاکستان طالبان کے ذریعے افغانستان میں ان بنیادوں کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جو امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں نے بیس سالہ جنگ جوئی اور سرمایہ کاری کے نتیجہ میں استوار کی تھیں۔ ان میں اہم ترین بنیاد انسانی حقوق کی بنیاد پر ایسا حکومتی انتظام ہے جس میں خواتین کو سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور شراکت دار بنایا گیا ہے۔ یہ اندیشہ موجود ہے کہ طالبان اقتدار میں آنے کے بعد خواتین پر پھر سے قدغن عائد کریں گے اور اسلامی نظام نافذ کرنے کے نام پر ایک بار پھر معاشرے میں سخت گیر قواعد و ضوابط متعارف کروائے جائیں گے۔ طالبان ان اندیشوں کو مسترد کرتے ہیں۔ پاکستانی ذرائع بھی یہ تاثر دیتے ہیں کہ اب طالبان تبدیل ہوچکے ہیں اور اب وہ ملا عمر والا نظام بحال کرنے کی کوشش نہیں کریں گے بلکہ افغانستان کی تعمیر نو کے لئے دنیا سے تعلقات استوار کرنے اور امداد لینے کے خواہش مند ہوں گے۔ یہ امداد صرف اسی صورت میں مل سکتی ہے اگر طالبان جبراً کوئی نظام مسلط کرنے کی کوشش نہ کریں۔ تاہم بین اافغان مذاکرات میں تعطل اور طالبان کی طرف سے اشرف غنی کی حکومت پر شدید عدم اعتماد کی موجودہ صورت حال میں اندیشہ ہائے دور دراز کی صورت حال بہر طور موجود ہے۔
پاکستان ایک تو افغانستان میں بدامنی سے متاثر ہونے والے ممالک میں سر فہرست ہوگا لیکن اس کے باوجود ہمسایہ ملک میں کسی ممکنہ سیاسی تصفیہ کے لئے پاکستان کی سرکاری حکمت عملی غیر واضح ہے۔ خاص طور سے اسلام آباد ایک طرف یہ اعلان کرتا ہے کہ اب طالبان کے ساتھ اس کے مراسم نہیں ہیں اور طالبان اس کی بات نہیں سنتے۔ یہ اعلان کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ کابل میں اشرف غنی کی حکومت یہ توقع کرنا بند کردے کہ پاکستان کسی طرح طالبان کو کسی سیاسی معاہدہ پر راضی کرلے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کے بقول اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ طالبان سیاسی و عسکری طور پر اتنے طاقت ور ہوگئے ہیں کہ انہیں کامیابی اپنے پاؤں چھوتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں وہ پاکستان کی بات کیوں سنیں گے؟
کسی کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے افغان طالبان کے ساتھ کس نوعیت کے کیسے تعلقات ہیں یا ا ن میں کس حد تک دراڑ پڑ چکی ہے۔ لیکن یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے اور تمام پاکستانی حکام اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ طالبان نے پاکستان کی کوششوں سے امریکہ کے ساتھ مذاکرات شروع کئے تھے اور اسی کے اثر و رسوخ کی وجہ سے امریکہ طالبان معاہدہ ہؤا تھا۔ جب اس پہلو پر اس قدر اصرار کیاجائے گا کہ اسے پاکستانی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیاجائے اور اس کے اعتراف کے علاوہ اس ’خدمت‘ کی بنیاد پر مراعات کی توقع بھی کی جائے تو غیر جانبداری سے سوچنے والے عناصر اور تجزیہ نگار ضرور یہ سوال بھی اٹھائیں گے کہ ایک دو سال کے دوران ایسے کون سے حالات پیدا ہوگئے کہ پاکستان نے طالبان پر جو رسوخ تین دہائیوں کی محنت سے حاصل کیا تھا ، وہ یک بیک زائل ہوگیا ہے۔
اس کے باوجود عمران خان کی طرف سے طالبان کے طاقتور ہونے کی وجہ کو پوری طرح سے تسلیم نہ کرنے والے عناصر بھی کسی حد تک یہ مانتے ہیں کہ طالبان اب بوجوہ زیادہ خود مختار ہیں ۔ اب دو دہائی پہلے کے مقابلے میں، پاکستان کے علاوہ دنیا کے متعدد ممالک کے ساتھ ان کے براہ راست تعلقات ہیں جن میں روس اور چین بھی شامل ہیں۔ بلکہ اب تو بھارت میں کسی نہ کسی طرح طالبان کے ساتھ مواصلت کی کوشش کررہاہے اور انہیں افغانستان کی ایک اہم سیاسی حقیقت کے طور پر قبول کرتا ہے۔ تاہم سرکاری طور پر افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ مساوی سلوک نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان کا یہ مؤقف کمزور پڑتا ہے کہ وہ اس معاملہ میں فریق نہیں ہے۔ اسلام آباد کی طرف سے کابل حکومت کے بارے میں مسلسل جارحانہ اور معاندانہ رویہ اختیار کیا جارہا ہے اور جب بھی یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر طالبان نے طاقت کے زور پر کابل پر قبضہ کیا تو پاکستان کا کیا مؤقف ہوگا تو اس کا جواب دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان اگرچہ افغان حکومت کے ان الزامات کو مسترد کرتا ہے کہ وہ طالبان کا سہولت کار ہے یا طالبان کی مدد کے لئے جنگجو عناصر پاکستان سے افغانستان بھیجے گئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی کابل حکومت کے اہم عہدیداروں کو بھارتی ایجنٹ قرار دے کر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ مودی حکومت کا ایجنڈا نافذ کرنا چاہتے ہیں اور افغانستان میں امن تباہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ افغان تنازعہ کے دو اہم فریقوں کے بارے میں پاکستان کہ یہ دو رخی خارجہ و سیکورٹی حکمت عملی درحقیقت پاکستان کے اصل ارادوں کے بارے میں شبہات پیدا کرتی ہے۔ ایسے میں جب سرکاری اثر و رسوخ میں رپورٹنگ کرنے والا مین اسٹریم میڈیا بھی طالبان کی فتح کا بگل بجاتے ہوئے امریکی شکست کا اعلان کرتا ہے۔ اور یہ خبر دی جاتی ہے کہ بس امریکیوں کے نکلنے کی دیر ہے، طالبان کابل پر قبضہ کرکے اسلامی حکومت قائم کرلیں گے تو یہ شبہات مزید تقویت پکڑتے ہیں۔اس صورت حال میں دشمن تو سوال اٹھا ہی رہے ہیں ، پاکستان کے دوستوں کو بھی یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ طالبان کسی ایسے گروہ کا نام ہے جو پاکستان سے انسیت رکھتا ہے یا یہ کوئی ایسا گروہ ہے جس نے پاکستانی پالیسی اور مزاج کو یرغمال بنا رکھاہے؟
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ