حکمران جماعت تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے پر سنگین بدعنوانیوں کے الزامات سے آج بھی نکل نہیں پا رہیں عام آدمی کو بڑھکوں اور دھمکیوں کے کھیل میں الجھا رکھا ہے جس کا بد ترین اثر مہنگائی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے لگتا ہے کہ حکمرانوں کی گرفت ہی نہیں رہی سونے پر سہاگہ اب مزید قرض کیلئے بین الاقوامی اداروں سے گفت و شنید شروع کر دی گئی ہے جس سے مہنگائی کا ایک اور بڑا طوفان بالکل سامنے نظر آ رہا ہے کیونکہ جو ادارے ایسی حکومتوں کو قرض دیتے ہیں وہ واپسی کیلئے شرائط کڑی رکھتے ہیں اور ان کے مطالبے میں بنیا د ی ضرورت اور استعمال کی اشیاء میں اضافہ ہوتا ہے جس سے پورا معاشی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے مگر کسے پرواہ ہے اور اب تو حکمرانوں اور حکمرانی کیلئے انتظار کرنے والے تقریباً سب غیر ملکی امداد کی وصولی میں بھی اوپن ہو رہے ہیں کفایت شعاری کے نام پر نہ صرف ہزاروں وفاقی اور صوبائی ا سامیاں ختم کی جا رہی ہیں جس سے سینکڑوں ادارے بند ہو جائیں گے یعنی مز ید بے روز گاری کاعفریت عنقریب ہے لیکن داد کے مستحق ہیں وہ سیاستدان جو ایسے مسائل کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی بجائے سیاسی بالا دستی کے کھیل میں مگن ہیں ۔
دنیا عالمی وبا کرونا سے بچنے کیلئے کوشاں ہے دنیا کی حکومتیں اور ان کے رہنما ویکسین کے حصول کیلئے پریشان نظر آتے ہیں جس میں امیر ممالک بھی شامل ہیں مگر ایک ہم ہیں جن کو یہ فکر گھن کی طرح کھائے جا رہی ہے کہ اڑھائی سال بعد حکمران کون ہو گا؟۔عام آدمی کے حال کا انہیں کوئی دکھ یا فکر نہ ہے کپاس کی پیدوار میں ریکارڈ کمی ان کیلئے شاید معمول کی بات لگتی ہے خوردنی تیل‘ گندم اور دالیں ادھار کے ڈالروں سے لے کر بڑھکیں مارنے پر زور ہے حکمرانوں سمیت اپوزیشن کو کب عام آدمی کا خیال آئے گا اس کا انہیں کوئی علم نہیں ہے البتہ اقتدار میں آنے کے بعد پہلی مرتبہ وزیراعظم عمران خان نے جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا نہ صرف ذکر کیا ہے بلکہ اس کے ازالے کیلئے زبانی جمع خرچ کر دیا ہے۔ وزیر مملکت ملک عامر ڈوگر،رکن اسمبلی اورنگ زیب خان کچھی‘ نور خان بھابھہ سمیت ڈیرہ غازیخان چیمبر کے موجودہ صدر اور ملتان چیمبر کے سابق صدر معروف صنعت کار خواجہ جلال الدین رومی سے ملاقات میں جنوبی پنجاب میں الگ سیکرٹریٹ کے قیام کا مقصد تعلیم‘ صحت اور روز گار میں برابر مواقع کا حصول قرار دیا اور بتایا کہ خطے میں زراعت کے ساتھ صنعت کی ترقی کیلئے دن رات کوشاں ہیں اگر زراعت مضبوط ہو گی تو معیشت خود ترقی کرے گی،وزیراعظم نے وسائل کا رخ جنوبی پنجاب کی طرف موڑنے کا عندیہ بھی دیا اس موقع پر خواجہ جلال الدین رومی نے اس سال ریکارڈ ایکسپورٹ کو حکومت کی بہترین پالیسی قرار دیا جس میں شرح سود میں کمی اور بجلی کے نرخوں میں کمی بڑی وجہ تھی جس کی بدولت زرمبادلہ کے ذخائر 13ارب ڈالر ہو چکے ہیں وزیراعظم نے معروف صنعتکار سے ہاؤسنگ کے شعبے میں بھر پور حصہ لینے کا کہا اور امید ظاہر کی کہ اس سے جمود کا شکار معیشت بحال ہو گی۔خواجہ جلال الدین رومی نے وزیراعظم کے زرعی ویژن کی تعریف کی اور کراپ زوننگ کو وقت کی آواز قرار دیا جس سے نہ صرف کپاس بلکہ گندم کی ایک مرتبہ پھر خود کفالت میں مدد ملے گی۔
ادھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بلاول بھٹو زرداری تحریک عدم اعتماد لانے کو آئینی طور پر عمران خان کو وزیراعظم تسلیم کرنا قرار دیا ہے اس لیے یہ کہنا بند کردیں کہ وہ سلیکٹڈ وزیراعظم ہیں کیونکہ انہیں عوام نے منتخب کیا ہے۔انہوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ پی ڈی ایم کوایک غیر فطری اتحاد قرار دیا اورکہا کہ اتحاد دیر پا دکھائی نہیں دیتا، وقتی طور پر کچھ مصلحتوں کے تحت یکجا ہیں یہ بکھر جائیں گے، جس کا آغاز ہوچکا ہے، پہلے استعفے دینے کا فیصلہ کیا لیکن پھر اس میں یکسوئی نہیں رہی۔اس کے بعد انہوں نے 31 جنوری کو لانگ مارچ پر اتفاق کیا لیکن اب بلاول بھٹو کہہ رہے ہیں کہ ہمیں تحریک عدم اعتماد لانی چاہیے، ہم اس تحریک کا آئینی انداز میں سامنا کریں گے اور اسے شکست دیں گے۔امریکہ کی نئی حکومت کے بارے میں کہنا تھا کہ نئی حکومت سے رابطہ کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہے جو ہم کریں گے، میں سمجھتا ہوں امریکا کی موجودہ سوچ اور ہماری بہت سے پالیسیوں میں اتفاق ہے۔ میرا ایک پیغام ہے امریکا میں ڈیموکریٹس آج سے 4 سال قبل حکومت چھوڑ کر گئے تھے، ان 4 سالوں میں دنیا، خطہ اور پاکستان تبدیل ہوا ہے اور اس بدلے ہوئے پاکستان کے ساتھ انہیں رابطہ کرنا ہے۔ ان 4 سالوں میں بھارت بھی تبدیل ہوا ہے اور آج کیا وہ سیکیولر وہ شائننگ انڈیا دکھائی دے رہا ہے؟ نہیں بلکہ آج تو بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ یہ وہ سیکولر انڈیا نہیں ہے بلکہ ہندو توا کی نئی شکل، آر ایس ایس کی سوچ کا نیا عملی مظاہرہ دکھ رہا ہے۔ ان نئے اصولوں پر، ایک نیا پاکستان، ایک نئی سوچ اور نئی ترجیحات پر ان سے رابطہ کریں گے اور ہم نے ایک جیو اسٹریٹجک پوزیشن سے جیو اکنامک پوزیشن کی طرف بہت بڑا شفٹ کیا ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے بھارت کی موجودہ پالیسیز سے کشمیری نالاں اور لا تعلق ہیں اور اقلیتیں خود کو غیر محفوظ تصور کررہی ہیں۔
دوسری جانب نا معلوم وجوہات کی بناء پر مظفرگڑھ تھرمل پاور اسٹیشن کو2 سال کیلئے بند کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا، ہزاروں ملازمین کی نوکریاں خطرے میں پڑ گئیں،محمودکوٹ روڈ پر واقع پاکستان بلکہ ایشیا ء کا سب سے بڑا تھرمل پاور اسٹیشن 1350 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے اس کے 6 پیداواری یونٹوں میں سے 3 یونٹ اس وقت فعال ہیں جبکہ 3 یونٹ بند ہیں اس حالت میں بھی یہ تھرمل پاور اسٹیشن 1100 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے گزشتہ 2 سالوں سے اسے وقفے وقفے سے بند کیا جاتا تھا لیکن اب 2 سال کیلئے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے ایسے وقت میں جبکہ ملک کے مختلف حصوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے مظفرگڑھ تھرمل پاور اسٹیشن کو بند کرنا مزید بجلی کی کمی کرنا ہے جس کے نہ صرف صنعت بلکہ دوسرے شعبے بھی متاثر اور لوڈشیڈنگ میں مزید اضافہ ہو گا۔
فیس بک کمینٹ