امینڈا گورمن نے درج ذ یل نظم 20 جنوری کو واشنگٹن میں نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں پیش کی تھی۔ انہوں نے یہ نظم خاص طور سے خاتون اول جل ٹریسی بائیڈن کی فرمائش پر اس موقع کے لئے لکھی تھی جنہوں نے امینڈا کو اس موقع پر نظم سنانے کے لئے مدعو کیا تھا۔ یہ نظم آزادی و جمہوریت کی جد و جہد کے تناظر میں ایک منشور کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسے اگرچہ امریکی سیاست اور وہاں حال ہی میں رونما ہونے والے سیاسی واقعات کے تناظر میں لکھا گیا ہے لیکن یہ نظم اپنے پیغام اور امید کے حوالے سے عالمگیر حیثیت کی حامل ہے۔ دنیا بھر کے میڈیا نے اس نظم اور نوجوان شاعرہ کو اس پیش کش پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ متعدد اخبارات کا کہنا ہے کہ یہ نظم 20 جنوری کو منعقد ہونے والی تقریب کا نقطہ عروج تھی۔ امینڈا گورمن صرف بائیس برس کی ہیں لیکن وہ امریکہ کی مسلمہ شاعرہ ہیں۔ انہیں 16 سال کی عمر میں امریکہ کی پہلی نوجوان لاریٹ پوئیٹس کا خطاب دیا گیا تھا۔ کاروان کے لئے اس نظم کا ترجمہ صحافی، ادیب اور ناول نگار انیس احمد نے کیا ہے۔ یہ نظم جمہوریت اور آزادی کا خواب دیکھنے والوں کو ایک نیا ولولہ عطا کرتی ہے۔ (مدیر)
۔۔۔۔۔۔
دن نکلتا ہے تو ہم سوچتے ہیں
گھپ اندھیرے کے تسلسل میں اجالا ہے کہاں
زیاں کے بوجھ تلے دبے
ایک قلزم ابھی ہمیں پار کرنا ہے
ہم کہ خونخواردرندوں کا لقمئہ تر بننے سے بچتے رہے
جان چکے ہیں کہ سکوت ہمیشہ امن کی علامت نہیں ہوتا
اور حق و انصاف کی مروجہ روایات اور موشگافیاں
لازم نہیں کہ انصاف کے تقاضے ہمیشہ پورے کر سکیں
پھر بھی نئی صبحوں کے امین تو ہم ہی ہیں
اس کا ادراک شاید ہمیں پہلے نہ تھا
یا شاید تھا
حالت کاجبر سہتے بھی ہم نے دیکھا
کہ ایک قوم ہے جوبہر حال قائم ہے
لیکن ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے
اور ہم وارث ہیں اس وطن کے اور ان لمحوں کے
جہاں ایک دبلی پتلی سیاہ فام لڑکی
بنت غلام ابن غلام۔۔اکیلی ماں کی گود میں پلنے والی
صدر بننے کا سپنا بھی دیکھ سکتی ہے
اور پھر چشم فلک نے دیکھا
کہ آج وہ ایک صدر کے سامنے نغمہ سرا ہے
بجا ! کہ ہم ابھی پوری طرح منجھے نہیں
ہماری تراش خراش ابھی باقی ہے
پر اس کایہ مطلب کب ہے کہ ہم
ایک بے عیب اتحاد کیلئے کوشاں ہیں
ہم تو ایک ایسا اتحاد چاہتے ہیں جو کوئی مقصد لئے ہو
ایک ایسی مملکت کی تشکیل جو چھوٹے بڑے کی تمیز کیے بغیراور بلا امتیاز رنگ و نسل سب کی فلاح کی ضامن ہو
اور پھر ہماری آنکھیں یہ نہ دیکھیں کہ ہم میں فرق کیا ہے
بلکہ یہ کہ سامنے کیا ہے
یہ تفرقے مٹ جائیں کہ مسقبل ہماری اولیں ترجیح ہے اور اس کا شعور ہمیں ہے
ہمیں اپنے اختلافات بھلا دینا ہوں گے
اور اپنے ہتھیار پھینک دینا ہوں گے
تاکہ ہم ایک دوسرے کی طرف ہاتھ بڑھا سکیں
ہم کسی کا برا نہیں چاہتے اور سب کا بھلا سب کی خیر مانگتے ہیں
اور دنیا والے یہ دیکھ کر کم از کم اتنا تو ضرور کہیں کہ ہم راستی پر ہیں
صدمے اٹھا کر بھی ہمارا شعور بڑھتا ہی رہا ہے
دکھ پہنچا تو بھی ہم نے امید کا دامن تھامے رکھا
اور تھکاوٹ سے بے حال ہو جانےپر بھی ہماری جہد جاری رہی
اور ہم آپس کے رشتوں میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یوں ہی بندھے رہیں گےفتح یاب و کامران
اس لئے نہیں کہ ہمیں آئندہ کبھی شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا
بلکہ اس لئے کہ ہم پھر کسی کو نفاق کا بیج بونے نہیں دیں گے
صحیفے ہمیں ایسی جنتوں کے خواب دکھاتے ہیں
جہاں انگور و انجیر کے باغ ہوں گے اور سب اپنے اپنے پیڑوں کے سائے تلے بیٹھےہوں گے
بے خوف و خطر
اور اگر ہمیں اپنے عصر میں جینا ہے
تو پھر فتح مبین تلوار کی دھار پر نہیں
ان پلوں پر ملے گی جو ہم نے باندھے ہوں گے
اور یہی ان راستوں کی نوید ہے
جو ان بلندیوں کی طرف کھلتے ہیں جن تک ہمیں پہنچنا ہے
مگر ہمت شرط ہے
اس لئے کہ امریکہ اس افتخار سے کہیں بڑھ کر ہے جو ہم نے وراثت میں پایا
بات گئے وقت میں جھانکنے کی ہے
ہم اس کا اندمال کیونکرکر سکتے ہیں
ہم نے ایک ایسی طاغوتی قوت کو دیکھا جوہماری قوم کو پارہ پارہ کر دینا چاہتی تھی
چہ جائکہ اس پر سب کا حق تسلیم کیا جاتا
جمہوریت کو مؤخر کر کے اس ملک کو تباہ کر دینا چاہتی تھی
اور یہ کوشش بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئی
پر سچ تو یہ ہے کہ جمہوریت وقتی طور پر مؤخر تو کی جاسکتی ہے
اسے مستقل شکست سے دوچار نہیں کیا جا سکتا
یہی سچ ہے
اور یہی ہمارا ایمان
اور اب جبکہ ہماری نگاہ مستقبل پر ہے
تاریخ ہم پر نظر رکھے ہوئے ہے
یہ نجات کی گھڑی ہے
جس کے آپہنچنے سے ہم ڈرتے رہے
ہم ایسے بھیانک لمحوں کی وراثت کا بوجھ اٹھانے سے ڈرتے رہے
اور پھر اسی خوف سے ہم نے شکتی پائی
ایک نیا باب رقم کرنے کی
اپنی زندگیوں کو مسرت و شادمانی سے ہمکنار کر دینے کی
سو ہم جو کبھی سوچتے تھے
کہ اس ابتلا و آزمائش سے کیسے نکل پائیں گے
اب حیرت میں ہیں
کہ اس آفت کو ہم نے خود پر حاوی کیونکر ہونے دیا
اب ہم لوٹ کر ادھر نہیں جائیں گے جو کبھی تھا
ہماری منزل اب آگے ہے
ایک ملک جو زخموں سے نڈھال ہے، پر قائم ہے
مہربان ہے اور بیباک ہے
جری ہے اور آزاد ہے
اب ہم کسی کو اپنا راستہ روکنے کی اجازت نہیں دیں گے
نہ ہی رخنہ ڈالنے کی
کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم نے ثبات کیا
تو ہماری ناکامی ہماری آنے والی نسلوں کو منتقل ہو جائے گی
ہماری غلطیوں کا خمیازہ انہی کوبھگتنا پڑے گا
پر ایک بات طے ہے
اگر ہم طاقت میں شفقت کو شامل کر لیں
اور حق و صداقت کا اتصال قوت سے
تو پھر پیار و محبت ہمارا نشان امتیاز بن جائے گا
اور ہمارے بچوں کی تقدیر بدل جائے گی
تو آئیے اپنے بعد ایک ایسا ملک چھوڑ کر جائیں
جو اس سے بہتر ہو جو ہمیں ملا تھا
میرے لخت لخت سینے سے اٹھتی ہر سانس یہ کہتی ہے
ہم اس زخم خوردہ دنیا کو جنت ارضی میں بدل دیں گے
ہم مغرب کی سر سبز پہاڑیوں سے اٹھیں گے
ہم تند ہواؤں میں لپٹے شمال مشرق سے طلوع ہوں گے
جہاں ہمارے آباء نے پہلے پہل انقلاب کی آہٹ سنی تھی
ہم مڈ ویسٹ کی جھیلوں سے گھری بستیوں سےبرآمد ہوں گے
ہم تپتے جنوب سے نکلیں گے
تعمیر نو کرتے اور چاک سیتے
اورہم نکل آئیں گے اس دھرتی کے ہر گوشے سے اور ہر کونے سے
جسے ہم اپنا ملک کہتے ہیں
تازہ دم اور حسین
اور جب وہ دن آیا تو ہم اندھیروں سے نکل آئیں گے
تمتماتے چہرے لئے پر جوش اور نڈر
اور تب رہائی پانے پر ایک نئی پو پھوٹے گی
کہ روشنی کو تو ثبات ہے
اگر اسے دیکھنے کی تاب ہم لا سکیں
اگر ہم اس میں تحلیل ہو جائیں
(بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )