دو روز قبل بھائی پیٹر جیکب کے ہمراہ فیصل آباد جانے کا موقع ملا۔ عبداللہ پل سے نیچے اترے تو ڈسٹرکٹ ہسپتال کی دیوار پر ایک بینر نظر آیا۔ اکابر ملت اور عمائدین شہر کی ایک فرقہ وارانہ تنظیم کے جلسے کا اعلان تھا۔ لکھا تھا ’آپریشن ردالفساد کی حمایت میں …سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے خلاف‘۔ معلوم ہو گیا کہ ان دنوں صورتِ بربادی یاراں کیا ہے… کدھر کی ہوا چل رہی ہے؟ یاران سرپل نے بارش سے بچنے کے لئے کس رنگ کی چھتری تان رکھی ہے۔ اس نابغہ ذہن کو بے ساختہ داد دینے کو جی چاہا جس نے دہشت گردی کے لئے فساد کی اصطلاح تجویز کی ہے۔ سکندر مرزا ہمارے ملک میں سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ ایک سرکاری خبر منظوری کے لئے لائی گئی۔ لکھا تھا ‘پولیس فائرنگ سے پانچ افراد ہلاک‘۔ سکندر مرزا نے قلم پھیر کر لکھ دیا۔ ’پولیس فائرنگ سے پانچ شرپسند ہلاک‘۔ یہ خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہوا… جنرل ضیاالحق سریرآرائے سلطنت تھے تو اسی مقصد کے لئے تخریب کار کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ یہ وہی دن تھے جب ادیبوں کی ایک کانفرنس میں جنرل ضیانے دانش کو سیم اور تھور قرار دیا تھا۔ دانشور کا لفظ تب سے ہمارے منظور شدہ نصاب میں تحقیر اور دشنام کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ محترم آصف علی زرداری ان دنوں صوبائی اسمبلی کا انتخاب ہار گئے تھے۔ کچھ عرصے کے لئے ہم نے مغرب سے بنیا د پرست کی اصطلاح بھی مستعار لی تھی۔ نائن الیون کے بعد مغربی آقاؤں نے دہشت گردی کی اصطلاح متعارف کرائی۔ ہمیں بہت دقت پیش آئی۔ برسوں بحث رہی کہ دہشت گردی کیا ہوتی ہے۔ ہمارے درمیان ایسے مہربان موجود تھے جو مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھانے والوں کو اثاث البیت سمجھتے تھے۔ عجب کٹھنائی تھی۔ ایک طرف فوجی آمر پرویز مشرف نے روشن خیالی کا پرچم اٹھا رکھا تھا اور دوسری طرف وہ بیدار مغز تھے جنہوں نے ایک مذہبی جنونی کے ہاتھوں خاتون صوبائی وزیر کے قتل پر کالم باندھا۔’گوجرانوالہ میں ایک روشن خیالی ماری گئی‘۔ گجرات کے ایک مدبر نے، جو اپنے گھر میں ٹیلی وژن کی موجودگی پر ناخوش تھے، اس دبدھا سے نکلنے کے لئے صوفی کانفرنس کا نسخہ تجویز کیا تھا۔ مذہب کے نام پر انتہا پسندی پھیلانے والوں کو بہت دقت پیش آرہی تھی کہ حریف قبیلے کے لئے کون سی گالی ایجاد کی جائے۔ قائداعظم اور ان کے رفقا پر اینگلو محمڈن کی پھبتی کہی جاتی تھی۔ ادب میں ترقی پسند تحریک شروع ہوئی تو ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر نے ترقی پسندے کی تضحیک آمیز ترکیب استعمال کی تھی۔ ستر کی دہائی آتے آتے سرخے کی گالی عام ہو گئی۔ ہم نے قدیم اور جدید کی اس کشمکش میں ٹیڈی، ہپی، بیل باٹم، برگر اور ممی ڈیڈی جیسی گردان بھی سن رکھی ہے۔ پھر اللہ کے ایک بندے نے لبرل کی امرت دھارا اصطلاح استعمال کی۔ یہ نئے زمانے کی گالی ٹھہری۔ آئین اور تاریخ وغیرہ کی بحث سے شغف رکھنے والوں نے سیکولر کا لفظ بھی بطور دشنام کے استعمال کیا۔ دلبری ٹھہری زبان خلق کھلوانے کا نام… ایک واقعہ سن لیجئے۔ 2015 ء میں لاہور کے معروف تجارتی مرکز حفیظ سینٹر میں کچھ دکانوں پر قابل اعتراض اور اشتعال انگیز کلمات نظر آئے۔ خدا کے کسی بندے نے توجہ دلائی تو پولیس نے یہ کلمات مٹا دئیے۔ دو روز بعد حفیظ سینٹر پر ایک وسیع و عریض بینر آویزاں کیا گیا۔ ایک طرف لکھا تھا ’پاک فوج کو سلام ‘ اور دوسرے کونے پر لکھا تھا ’پشاور سکول کے شہدا کو سلام‘ اور بیچ میں دس گز کے ٹکڑے پر وہی فرقہ وارانہ کلمات لکھے تھے۔ عجب نہیں کہ یہ بینر تخلیق کرنے والا ذہن رسا اب لاہور سے فیصل آباد منتقل ہو گیا ہو۔ جنرل راحیل شریف کے نام اشتہاری درخواستیں بھی تو فیصل آباد ہی سے تولد ہوئی تھیں۔ اسلام آباد پاکستان کا صدر مقام ہے۔ یہاں جمہوری مکالمے کی شاندار روایات جنم لے رہی ہیں۔ اسلام آباد شہر کے کھمبوں پر لٹکتے اشتہار ملک میں سیاسی توازن کا درجہ حرارت بیان کرتے ہیں۔ یہاں محترم ظہیر الاسلام عباسی اور محترم اشفاق پرویز کیانی کی تصاویر آنکھوں کو تراوت دیتی تھیں۔ پھر محترم راحیل شریف کے سپاسنامے یہاں نمودار ہوئے۔ عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان سے تعلق خاطر کا اظہار بھی بینرز سے کیا گیا۔ حافظ آباد کے سکندر نامی مجاہد بندوق اٹھا کر اسلام آباد کی سڑک پر آن بیٹھے تھے۔ اب اس شہر سے آواز آئی ہے کہ لبرل ازم نے ملک کو دہشت گردی سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ یہ سوال پوچھنے کی تاب کسے کہ دہشت گردی کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ فوجی عدالتوں میں دو برس کی توسیع منتخب نمائندوں نے دی ہے۔ ستر ہزار شہری دہشت گردی کی نذر ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں فوجی جوانوں کی فہرستیں پاک بھارت جنگوں میں شہید ہونے والے فوجی جوانوں سے کہیں طویل ہیں۔ سوال ہے کہ فوجداری قوانین میں لبرل ازم کو جرم کیوں قرار نہیں دیا جا رہا؟ قومی اسمبلی کے محترم رکن علی محمد خان صاحب نے اعلان کیا ہے کہ سیکولر افراد اپنے طور طریقے ٹھیک کریں ورنہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ 2013 ء کے انتخابات سے قبل محترم منور حسن نے بھی تجویز دی تھی کہ لبرل افراد کو اقلیتوں میں شمار کیا جائے۔ افسوس کہ دنیا کے کسی قانون کے تحت پاکستان کے سیکولر شہریوں کو شہریت سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ وزیر داخلہ محترم نثار علی خان صاحب، علاوہ دیگر علوم کے، دو موضوعات پر عبور رکھتے ہیں۔ ماڈل ایان علی اور سوشل میڈیا۔ چودھری صاحب اپنے ایمان کا باآواز بلند اعلان کرنے کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ملک کے وزیراعظم محترم نواز شریف نے جمہوریت کی حقیقی روح کے مطابق زبان،ثقافت اور عقیدے کی رنگا رنگی کو پاکستان میں احترام دینے کا اعلان کیا ہے۔ ہماری فوج کے سربراہ نے مکا لہرا کر ہم سب کے پاکستان کی حفاظت کا عہد کیا ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر کچھ مذہبی پیشواؤں کی تقاریر گردش میں ہیں جن میں انہوں نے ملک کے منتخب وزیراعظم کو ننگی گالیاں دی ہیں۔ رحمت خداوندی کے یہ پھول انہی تقدس مآب ہستیوں کے منہ سے جھڑ رہے ہیں جنہوں نے گزشتہ برس اسلام آباد کے چوک میں وزیراعظم، فوج کے سربراہ اور عدالت عظمیٰ کے محترم ارکان کو غلیظ گالیاں دی تھیں۔ میکسم گورکی زندہ ہوتے تو انہوں نے چودھری نثار صاحب سے سوال کیا ہوتا کہ تہذیب کے فرزندو، تم لکیر کے کس طرف ہو؟ وزیراعظم کے وژن کو سرعام اشتعال انگیزی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس ملک میں ستر برس میں سیکولر ازم اور الحاد کا فرق واضح نہیں کیا جا سکا وہاں لبرل کی نسبتاً پیچیدہ سیاسی اور معاشی اصطلاح کا مطلب کون سمجھے گا؟ یہ گالی اس ملک میں امن اور فساد، رواداری اور تفرقے، پسماندگی اور ترقی میں کشمکش کا استعارہ بن رہی ہے۔ جاننا چاہیے کہ راولپنڈی سازش کیس کے اسیر فیض احمد فیض نے وطن کی محبت میں ڈوبا ہوایہ مصرع لکھا تھا۔ ‘نثار میں تیری گلیوں پہ‘ …تو فیض صاحب کا اشارہ ہرگز چودھری نثار کی طرف نہیں تھا۔
(بشکریہ روز نامہ جنگ)