Close Menu
  • مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • عالمی خبریں
    • تجزیے
  • English Section
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • گوجرانوالا
      • سیالکوٹ
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
Facebook X (Twitter)
ہفتہ, مئی 24, 2025
  • پالیسی
  • رابطہ
Facebook X (Twitter) YouTube
GirdopeshGirdopesh
تازہ خبریں:
  • ٹرمپ نے آئی فون امریکا میں تیار کرنے کی شرط لگا دی : یورپی یونین پر 50 فیصد ٹیرف لگانے کی دھمکی
  • ڈی پورٹ ہو کر پاکستان لوٹنے والوں کے پاسپورٹ منسوخ ہوں گے، ایف آئی آر کاٹی جائے گی: وزارتِ داخلہ
  • نیپرا نے کے الیکٹرک کیلئے 7 سالہ ٹیرف کی منظوری دیدی
  • ورلڈ بینک کی 500 ملین ڈالر کی امداد سے سیلاب متاثرین کے گھر بروقت تعمیر ہوئے: مراد علی شاہ
  • عطا ء الحق قاسمی کا کالم : استغفراللّٰہ!
  • عمران خان کیلئے بیک چینل مذاکرات، امریکی پاکستانی ڈاکٹرز کی دوبارہ پاکستان آمد
  • سہیل وڑائچ کا کالم : بلبل، پھول اور کانٹا
  • نصرت جاوید کا تجزیہ : جنوبی افریقہ میں”گوروں کے قتلِ عام” کی کہانی
  • سید مجاہد علی کا تجزیہ : پاک بھارت بات چیت، وقت کی اہم ترین ضرورت
  • کشور ناہید کا کالم : تفریحی ادارے ، بزرگوں کے مسائل اور مساجد کو تالے
  • مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • عالمی خبریں
    • تجزیے
  • English Section
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • گوجرانوالا
      • سیالکوٹ
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
GirdopeshGirdopesh
You are at:Home»تجزیے»ویزہ کہانی : زرداری اور گیلانی ۔۔ سید مجاہد علی
تجزیے

ویزہ کہانی : زرداری اور گیلانی ۔۔ سید مجاہد علی

رضی الدین رضیمارچ 25, 20173 Views
Facebook Twitter WhatsApp Email
pakistan politics articles of syed mujahid ali at girdopesh.com
Share
Facebook Twitter WhatsApp Email

پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے دور حکومت میں امریکیوں کو مسلمہ طریقہ کار کے برعکس بڑی تعداد میں ویزے جاری کرنے کے معاملہ پر دفاعی پوزیشن اختیار کررہی ہے اور جوابی وار کے طور پر سوال کیا جا رہا ہے کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں کیا کررہا تھا اور یہ کہ جن امریکی سپیشل فورسز نے اچانک حملہ کرکے 3 مئی 2011 کو القاعدہ کے لیڈر اور دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد کو ہلاک کیا تھا، وہ بھی ویزے لے کر پاکستان کی حدود میں داخل نہیں ہوئی تھیں۔ یہ ایک مضحکہ خیز صورت حال ہے ۔ ایک طرف یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ملک کا وزیر اعظم اپنے کسی سفارت خانے کو ویزے جاری کرنے کا خصوصی اختیار تفویض کرنے کا حق رکھتاہے اور یہ اختیار بعض پابندیوں کے ساتھ دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی نجانے یہ جواب کس سے مانگا جارہا ہے کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں کیا کررہا تھا۔ اصولی طور پراس کا جواب اسی وزیر اعظم کے پاس ہونا چاہئے جو امریکیوں کو ویزے جاری کرنے کا خصوصی اختیار رکھتا تھا۔
اس افسوسناک تنازعہ کا آغاز گزشتہ دنوں امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے ایک مضمون سے ہوا جو واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں دراصل اس امریکی بحث میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیروں نے انتخابی مہم کے دوران روسی سفیر کے ساتھ ملاقاتیں کرکے کس حد تک مروجہ سیاسی طریقہ کار کی خلاف ورزی کی تھی۔ تاہم اپنا مؤقف واضح کرنے کے لئے حسین حقانی نے اپریل 2008 سے نومبر 2011 تک امریکا میں پاکستان کے سفیر کے طور پر کام کے دوران اپنی سرگرمیوں کا حوالہ دینا ضروری سمجھا اور بتایا کہ مختلف ملکوں کے سفیر اپنے ملکوں کے مفادات کے لئے امریکا کی صدارتی دوڑ میں شامل دونوں بڑی پارٹیوں کے امیدواروں کے قریبی ساتھیوں سے ملتے رہتے ہیں۔ اور یہ تعلقات بعد میں امریکا اور ان ملکوں کے کام بھی آسکتے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے یہ دعویٰ کرنا بھی ضروری سمجھا کہ پاکستان کے سفیر کے طور پر انہوں نے 2008 کی صدارتی مہم کے دوران اوباما کے ساتھیوں سے جو رابطے اور دوستیاں استوار کی تھیں ، انہیں کا نتیجہ تھا کہ بعد میں وہ امریکا کو پاکستان کی جمہوری حکومت سے تعاون پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوئے اور پاکستان کے لئے کثیر مالی امداد منظور کروائی جا سکی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے ملک کی اعلیٰ قیادت کی اجازت سے جن امریکی اہلکاروں کو ویزے جاری کئے تھے، وہی بعد میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے اور اسے ہلاک کروانے کا سبب بنے۔ یوں تو حسین حقانی کے اس مضمون میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس دور میں امریکیوں کو خصوصی ویزے جاری کرنے کے بارے میں معلومات پاکستان میں زبان زد عام ہیں۔ اس کے علاوہ حسین حقانی پر فوج کے مقابلے میں سول حکومت کے لئے امریکی تعاون حاصل کرنے کے الزامات کی تحقیقات میمو کمیشن بھی کرچکا ہے۔ اسی اسکینڈل کے نتیجے میں حسین حقانی کو سفارت سے ہاتھ دھونا پڑے اور وہ بہت کد و کاوش کے بعد پاکستان سے امریکا جانے کے قابل ہوئے تھے۔ اس کے باوجود واشنگٹن پوسٹ میں مضمون پر امریکا میں تو کوئی توجہ نہیں دی گئی اور کسی نے حسین حقانی کی اس دلیل پر کان دھرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اگر ٹرمپ کے ساتھیوں نے روسی سفیر سے ملاقات کی تھی تو کوئی غیر معمولی کام نہیں کیا تھا اور اس میں امریکا کے فائدہ کا پہلو بھی نکل سکتا ہے۔ جیسے حقانی سے دوستیاں بڑھا کر اوباما کے ساتھیوں نے اپنے اہلکار کسی مشکل کے بغیر پاکستان بھجوا دیئے اور انہوں نے امریکا کے سب سے بڑے دشمن کو مارنے میں کردار بھی ادا کیا تو ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ کے ساتھیوں اور روسی سفیر کی ملاقاتوں میں بھی ایسا ہی ’خیر‘ کا کوئی پہلو نکل آئے۔ البتہ اس کے برعکس پاکستان میں ضرور طوفان برپا ہو چکا ہے۔ اس سوال پر مسلسل بحث ہو رہی ہے کہ حقانی کے ان ’اعترافات‘ کو کس حد تک ملک سے دشمنی قرار دے کر پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی گھیرا تنگ کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے زرداری کے سابقہ دوست اور معتمد کو غدار قرار دینے کے علاوہ ان کے اس بیان سے صاف انکار کیا تھا کہ اس وقت حکومتی عہدوں پر فائز پیپلز پارٹی کے کسی رہنما نے حسین حقانی کو ویزے جاری کرنے کا کوئی اختیار دیا تھا۔ تاہم اب وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والا ایک خط منظر عام پر آگیا ہے جس میں واشنگٹن میں سفیر کو معمول کی کارروائی یعنی پاکستان میں خفیہ ایجنسیوں کی کلیئرنس کے بغیر امریکی اہلکاروں کو سفارتی ویزے دینے کا اختیار دیا گیا تھا۔
اس خط سے انکار تو ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے اب الزام کی گیند حقانی کی طرف لڑھکانے اور بالواسطہ ان اداروں کو رگیدنے کی کوشش کی جارہی ہے جن کی اجازت کے بغیر حسین حقانی کو ویزے جاری کرنے کا اختیار تفویض ہوا تھا۔ اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ اسامہ پاکستان کیسے اور کیوں آیا اور پوچھا جارہا ہے کہ امریکی اسپیشل فورسز کیوں کر پاکستان میں کارروائی کرنے میں کامیاب رہیں۔ آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے یہ سوال داغ تو دیئے لیکن ان کے سبب آصف زرداری کی ان کوششوں کو شدید زک پہنچ سکتی ہے جو وہ گزشتہ برس کے آخر میں پاکستان واپس آنے کے بعد سے ملک کی فوجی قیادت کے ساتھ مفاہمت پیدا کرنے کے لئے کررہے ہیں۔ تاکہ ماضی کی تلخ کلامی کی معافی تلافی ہو سکے اور مستقبل میں سیاسی اقتدار کی بندر بانٹ میں پیپلز پارٹی کو حصہ ملنے کی صورت پیدا ہو تو فوج کا دست شفقت اس کے سر پر موجود رہے۔
ایک معمول کے پالیسی فیصلہ کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے جب سابقہ صدر اور وزیر اعظم فوج کے بعض فیصلوں پر سوال اٹھاتے ہیں، تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب اسامہ کو پاکستان میں پناہ دی جارہی تھی اور جب امریکی دستے پاکستان کی خود مختاری کو روندتے ہوئے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو قتل کرکے اس کی لاش اپنے ساتھ لے جارہے تھے تو اس وقت ملک کے صدر کا نام آصف علی زرداری اور وزیر اعظم کا نام یوسف رضا گیلانی تھا۔ اب وہی جب یہ پوچھ رہے ہیں کہ ان دو واقعات کا داغ پاکستان کے ماتھے پر کیوں آوایزاں ہوا تو پہلے یہ جواب دیں کہ وہ یہ سوال کس سے پوچھ رہے ہیں۔ کیا اس آرمی چیف سے جن کو خود پیپلز پارٹی کی حکومت نے تین سال کی توسیع دی تھی۔ لاچاری کے اس کھیل میں آپ کب تک اپنا دامن بچائیں گے۔ اور الزام تراشی کی مہم کیسے جیت پائیں گے۔ اس سے بہتر ہوگا کہ یہ مان لیا جائے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتیں اتنی ہی بے اختیار ہوتی ہیں جتنی پیپلز پارٹی کے ان برجمہروں کی حکومت تھی۔ اور اقرار کرلیا جائے کہ ’حضور اپنی بے اختیاری کو اختیار کا یقین دلانے ہم نے یہ ایڈونچر کرنے کا حوصلہ کیا تھا۔ وزیر اعظم صرف ویزے جاری کرنے کا حکم ہی دے سکتے تھے ۔ سو ہم ویزے بھی جاری نہ کرتے تو کیا کرتے جناب‘۔
(بشکریہ:کاروان)

فیس بک کمینٹ

  • 0
    Facebook

  • 0
    Twitter

  • 0
    Facebook-messenger

  • 0
    Whatsapp

  • 0
    Email

  • 0
    Reddit

Share. Facebook Twitter WhatsApp Email
Previous Article(چودھری ) نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن … وجاہت مسعود
Next Article ڈھاکہ کا 23 مارچ 1971ء ۔۔ سرور غزالی
رضی الدین رضی
  • Website

Related Posts

ٹرمپ نے آئی فون امریکا میں تیار کرنے کی شرط لگا دی : یورپی یونین پر 50 فیصد ٹیرف لگانے کی دھمکی

مئی 24, 2025

ڈی پورٹ ہو کر پاکستان لوٹنے والوں کے پاسپورٹ منسوخ ہوں گے، ایف آئی آر کاٹی جائے گی: وزارتِ داخلہ

مئی 24, 2025

نیپرا نے کے الیکٹرک کیلئے 7 سالہ ٹیرف کی منظوری دیدی

مئی 24, 2025
Leave A Reply

حالیہ پوسٹس
  • ٹرمپ نے آئی فون امریکا میں تیار کرنے کی شرط لگا دی : یورپی یونین پر 50 فیصد ٹیرف لگانے کی دھمکی مئی 24, 2025
  • ڈی پورٹ ہو کر پاکستان لوٹنے والوں کے پاسپورٹ منسوخ ہوں گے، ایف آئی آر کاٹی جائے گی: وزارتِ داخلہ مئی 24, 2025
  • نیپرا نے کے الیکٹرک کیلئے 7 سالہ ٹیرف کی منظوری دیدی مئی 24, 2025
  • ورلڈ بینک کی 500 ملین ڈالر کی امداد سے سیلاب متاثرین کے گھر بروقت تعمیر ہوئے: مراد علی شاہ مئی 24, 2025
  • عطا ء الحق قاسمی کا کالم : استغفراللّٰہ! مئی 24, 2025
زمرے
  • جہان نسواں / فنون لطیفہ
  • اختصاریئے
  • ادب
  • کالم
  • کتب نما
  • کھیل
  • علاقائی رنگ
  • اہم خبریں
  • مزاح
  • صنعت / تجارت / زراعت

kutab books english urdu girdopesh.com



kutab books english urdu girdopesh.com
کم قیمت میں انگریزی اور اردو کتب خریدنے کے لیے کلک کریں
Girdopesh
Facebook X (Twitter) YouTube
© 2025 جملہ حقوق بحق گردوپیش محفوظ ہیں

Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.