23 مارچ 1971 ڈھاکہ میں وہ آخری سرکاری طور پر منایا جانے والا یوم پاکستان تھا جو موجودہ بنگلہ دیش اور سابقہ مشرقی پاکستان میں منایا گیا ۔ لیکن 1971 میں اس دن صرف ڈھاکہ میں ہی یہ تقریب منعقد ہو سکی چونکہ مشرقی پاکستان تو 3 مارچ 1971 سے ہی بنگلہ دیش قرار دیا جاچکا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ 16 دسمبر کو افواج پاکستان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد سرکاری طور پر اس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ بنگلہ دیش کے ‘بابائے قوم‘ تو خیر کافی بعد میں پاکستانی جیل سے رہا ہوکر بنگلہ دیش پہنچے اور مسند صدارت پر براجمان ہو سکے۔ 3 مارچ 1971 کو بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان دھان منڈی ڈھاکہ سے کیا گیا۔ اور ڈھاکہ نے کسی کچے دھاگے کی مانند پاکستان سے جڑا اپنا بندھن توڑ لیا۔ ڈھاکہ کسی کٹی پتنگ کی مانند ہوا کے دوش پر لہرا رہا تھا۔ اسے لوٹنے کے لیے کئی سر آسمان کی طرف تاک رہے تھے۔ کئی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر جلتے سورج کی تپش میں چندھیائی نظروں سے اس کٹی پتنگ کے ڈولنے کا مطالعہ کر تے اندازہ لگا رہے تھے کہ کب اور کہاں یہ زمین سے آلگے گی۔ ڈھاکہ میں تو خیر سے بلکہ شر سے سول نافرمانی، دفاتر کا بائیکاٹ، سکولوں و کالجوں میں بندش کا سلسلہ فوج بیرک میں بیٹھی دیکھ رہی تھی۔ مگر اندرونی مشرقی پاکستان میں بہاریوں کی نسل کشی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ سنتہاہار، پاکسی، راجباڑی، پارتی پور، سلہٹ وغیرہ وہ علاقے تھے جن کی بابت ہمیں ڈھاکہ میں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے ۔ سنتہار میں امی کے بڑے ماموں جن کا خاندان قریب قریب 30 نفوس پر مشتمل تھا، ایک مٹی کے بنے بڑے سے گھر میں رہا کرتا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ کس طرح نانی امی، امی کی بڑی ممانی اندرونی برآمدے میں بچھے ایک چوبی تخت پر بیٹھی چھالیہ کاٹ رہی ہوتی تھیں۔ اور گاہے بگاہے آنگن میں کھیلتے بچوں کو تنبیہ بھی کرتی جاتی تھیں رسو تم ہٹو۔۔۔۔ کنؤیں کے قریب نہ جاؤ۔ پھر وہ آواز لگاتیں اے ناجو تم نے پانی بھرلیا۔۔۔ کنؤیں پر اس کا ڈھکن ڈالو بچے کھیل رہے ہیں۔ اس گھر میں کئی ایک چھوٹے چھوٹے خاندان رہا کرتے تھے۔ اسی مناسبت سے کئی ایک رسوئیاں تھیں۔
اس گھر کے کچھ فاصلے پر امی کے چھوٹے ماموں کا خاندان رہائش پذیر تھا۔ راجباڑی میں امی کی ایک ماموں زاد بہن رہا کرتی تھیں۔ ان کی لڑکی اور داماد بھی ان کے گھر سے متصل گھر میں رہا کرتی تھیں۔ پاکسی میں ہم اپنے سارے دوست چھوڑ آئے تھے اور ڈھاکہ میں سگے نانا نانی کے گھر رہ رہے تھے۔ ابا حج کرنے گئے ہوئے تھے۔
22 مارچ کی شب تک ہمارے جوگی نگر کے گھر پر ڈھاکہ کے بیشتر مکانوں اور عمارتوں کی طرح کالا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ ایسا کرنا ہم لوگوں کی جان کی سلامتی کے لیے ضروری تھا۔ پاس پڑوس کے ہندو، مسلم، بنگالی اور بہاریوں نے مل جل کر طے کیا تھا کہ ہر گھر پر کالا چھنڈا لہرایا جائے گا اور ہجوم کو باہر نواب پور روڈ پر ہی روکے رکھا جائے گا۔ کالے چھنڈے لہرانے کی علامت غیر سرکاری طور بنگلہ دیش کی آزادی کو تسلیم کرنے کا اعلان تھا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے اس حکم کی تعمیل کرنے کے بعد کسی بلوائی کو دھاوا بولنے اور لوگوں کے گھروں میں گھسنے کا اصولی جواز باقی نہیں رہتا تھا۔ 23 مارچ کی صبح فوج نے چھاؤنی سے نکل کر شہر اور گلیوں کو صاف کرنا شروع کردیا ۔ شیخ صاحب کے مغربی پاکستان سدھارنے سے ان کے احکامات معطل سمجھے جانے لگے۔ ڈھاکہ تو فوراً ہی آزاد ہوگیا۔ مگر باقی ماندہ مشرقی پاکستان جو پہلے ہی مکتی باہنی کے ہتھے چڑھا ہوا تھا، عتاب زدہ قرار پایا۔ ای پی آر کے اسلحہ ڈپو پہلے ہی لٹ چکے تھے۔ جب مطلع چھٹا تو سب سے پہلے سنتاہار سے یہ اندوناک خبر ہمیں ڈھاکہ میں ملی کہ امی کے بڑے ماموں کا پورے کا پورا خاندان شہید کر دیا گیا ہے۔ بچے عورتیں سب کے سب۔ امی کے دوماموں زاد بھائی جو گھر پر حملے کے وقت موجود نہ تھے زندہ بچ کر ڈھاکہ پہنچے تو ان کے ساتھ یہ روح فرسا خبر بھی آئی۔ رفتہ رفتہ لوگ باگ ڈھاکہ پہنچتے رہے اور قتل وغارت گری کی خبریں آتی رہیں۔
پاکسی میں ہمارے جاننے والے خاندانوں کے تمام مرد قتل کیے جا چکے تھے۔ عورتوں اور بچیوں کو مسلم ہائی سکول پاکسی میں بند کرکے رکھا گیا تھا کہ ان کی بے حرمتی کے بعد انہیں قتل کیا جائے گا یا فروخت کر دیا جائےگا۔ پاربتی پور میں ایسے ہی ایک سکول سے لاشیں نکال کر صفائی کرنے میں فوج نے لوگوں کی مدد کی۔ پاکسی میں بروقت ان عورتوں اور بچوں کو بچالیا گیا۔ راجباڑی میں بھی یہی کچھ ہوا۔
اس 23 مارچ کے بعد 14 اگست بھی اسی سال آخری دفعہ منایا گیا ۔ بنگلہ دیش کی حکومت بضد ہے کہ مکتی باہنی نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اور وہ آج بھی اصل میں ان ایام کے چند ایک بانیوں کو جو کہ خود بھی ڈھاکہ سے تھے۔۔۔ بھلا نہیں پائے ہیں۔
(بشکریہ:کاروان)