فہیم عامرکالملکھاری

پرچم کشائی کی اجازت ، لب کشائی منع ہے ۔۔ فہیم عامر

عجب آزاد مرد ہیں اپنے ڈاکٹر صاحب بھی۔ محض پابندِ صوم و صلواۃہی نہیں بلکہ پابندِ محاورہ بھی ہیں۔ بس نالہ پابندِ نے نہیں۔ آدھی پی ایچ ڈی کرنے کو اپنا گر بتاتے ہیں اور بقیہ آدھی کو سرکاری قصور۔ ہر معاملہ پر ایک الگ منطقی مگر علیحدہ ہی نقطہء نظر رکھنا کوئی ان سے سیکھے۔ ایک دن اخبار میں سریے کی خرید کا ٹنڈر نوٹس دیکھا تو بولے لیجیئے، جس عمارت میں ’ٹنڈر‘ نوٹس کا سریا لگے گا وہ عمارت وزن کیا خاک جھیل پائے گی۔ اعلیٰ معاشیات دان بھی ہیں یوں کہ کئی ماہ سے حجامت کا خرچ بچا رکھا ہے۔ حجام کو زرِکثیر ادا کرنے کی بجائے، ریڑھی سے ہر ہفتے پونی خرید کر گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر لیتے ہیں کیونکہ اب ان کے ریشِ دراز پونی کی حدِ منصبی سے آگے نکل گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے یہ پالیسی اپنائی ہوتی تو ملک نہ صرف آئی ایم ایف کا قرض اتار دیتا بلکہ مزید مقروض ہونے کی نیّت سے سی پیک کی جھک جھک سے بھی بچ جاتا۔ کسی شاگرد نے استفسار کیا کہ حضور کی ’بچت پالیسی‘ اپنا کر؟ تو بھِنا کر بولے نہیں ٹنڈ پر پونی لگا کر۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر ان کا نقطہء نظر کچھ ایسا ہی ہے۔ راقم نے اپنے جنرل نالج میں اضافہ کی غرض سے پوچھا کہ حضرت، اس مرتبہ پریڈ میں چین اور ترکی کے فوجی دستوں نے کرتب کیوں دکھائے تو جواب دیا کہ ترکی کا تو معلوم نہیں مگر چین کے عسکری کرتب تو بعین وہی ہیں جو سود خور پٹھانوں کے قرض دیتے وقت ہوتے ہیں۔ امریکا کو تو اب تک پتہ چل ہی چکا ہو گا کہ اب ہم ان کا قرض لوٹانے والے نہیں۔ مگر چین نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ سوچ لو میاں، اگر سی پیک میں لگایا ہوا اربوں ڈالروں کا سرمایہ واپس نہ ہوا تو ہمارے عسکری کرتب غور سے دیکھ لو۔ اب حکمرانوں کو چاہیئے کہ فی الفور تمام قومی ادارے تباہ کر کے نجی کمپنیوں کو بیچ دیں اور قرض ادا کرنے کی سوچیں کیونکہ قرض کی ادائی اور بات ہے اور فرض کی ادائی اور بات۔ ارے میاں، حکومت کو ایک نکتے کی چھوٹ تو جائز ہے۔ پھر بولے، تمہارے جنرل نالج سے خیال آیا کہ ہر فوج اسی جنرل کے تابع رہے تو اچھا ہے۔ ایک خبر پر تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔ بولے یہ ذرا سیّد علی گیلانی کی سنو۔ اس نے 23 مارچ کو پاکستانی حکومت اور فوج کو تو یومِ پاکستان کی مبارکباد دی سو دی، ساتھ پاکستانی عوام کو بھی مبارکباد دے ڈالی۔ بھئی، تمہارا تو بطور کشمیری رہنما بنتا ہے، پاکستانی عوام کا اس بکھیڑے سے کیا لینا دینا۔۔۔۔ ہنستے جاتے، کھانستے جاتے، سگریٹ کے کش لگائے جاتے اور بولتے جاتے۔۔ کہہ رہے تھے کہ یہ کشمیری رہنما پاکستانیوں کو یومِ پاکستان کی مبارک 23 مارچ کو دے رہا ہے تو کیا کشمیریوں کو یومِ کشمیر کی مبارکباد 5 مئی کو دے گا۔۔۔۔ ذرا دم لے کر بولے، کہتا ہے پاکستان مسلمانوں کے لیئے عظیم نعمت ہے۔۔۔ ہاں بھئی، مسلمان، جو سلوک مسلمانوں سے کرتے ہیں اس کے پیشِ نظر، مملکتِ پاکستان سے بڑھ کر ان کے لیئےاور کیا نعمت ہو سکتی ہے۔۔۔ بولے ذرا حضرت جی کی دانش ملاحظہ فرمایئے، مبارکبادی کے لیئے تو پاکستانی حکومت اور عوام کے ساتھ فوج کو شامل رکھا مگر شکرگزار صرف ان کے ہوئے جنہوں نے محض سیاسی، سفارتی اور اخلاقی سطح پر ان کی یعنی کشمیری عوام کی مدد کی۔ ہماری حیرت بھانپ کر بولے، میاں میں اس لیئے ہنس رہا ہوں کہ ایک تو حضرت اپنی ذاتی مدد کو کشمیری عوام کی مدد کہہ رہے ہیں اوپر سے عسکری تعاون کے ذکر پر یوں سنبھل کر بیٹھے ہیں جیسے جانتے نہیں، پہچانتے نہیں۔۔۔ ہم نے یاد دلایا کہ اس میں کیا ہے، مبارکباد تو نریندر مودی نے بھی دی ہے۔ اس پر پھر قہقہے لگانے لگے اور بولے یومِ پاکستان پر مودی سے زیادہ کس کو خوشی ہو سکتی ہے؟ اگر برِصغیر میں ایسے ماحول کی داغ بیل ہی نہ پڑتی جو 23 مارچ 1940 کو پڑی تو مودی جیسا شخص کبھی وزیرِاعظم بن سکتا تھا؟
ہم بھی ہار کہاں ماننے والے تھے سو سوال سے پہلے ہی اپنا چہرہ ایسا بنا لیا کہ دور سے ہی مجسم استفہام نظر آئیں۔ پوچھا، تو وہ جو عین دلی میں یومِ پاکستان کی تقریب ہوئی اور عبدالباسط نے کہا کہ آزادی کی تحریکوں کو وقتی طور پر دبایا جا سکتا ہے لیکن دائمی طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا اور جو انہوں نے پرچم کشائی کی اور کیک کاٹا اور بچوں کو اکٹھا کر کے ملّی نغموں پر ٹیبلو کروائے اور سبزوسفید ملبوس پہنائے۔۔۔ وہ؟ ڈاکٹر صاحب نے گویا ہمارے سوالات سنے ہی نہیں، بولے، یار، تو صحافی ہے ایک بات تو بتا، وہ جو ایک ڈیپلومیٹک افسر محمود اختر گرفتار ہوا تھا وہ پاکستان آ گیا کیا؟ میں نے کہا معلوم نہیں۔ اس پر گویا ہوئے، بچّو، یہ بات تو پاکستان اور بھارت دونوں پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ آزادی کی تحریکوں کو زیادہ دیر تک دبایا نہیں جا سکتا، مگر بھائی صاحب، یہ تو بھارت و پاکستان کے مقتدر طبقات کا ایک دوسرے کو خراجِ تحسین دینے کا ایک طریقہ ہے۔ یعنی یہ کہ مذکورہ آفاقی عمرانی اصول کے باوجود ہم اپنے اپنے کلبھوشن یا دیووں اور ذکی الرحمان لکھویوں کے ذریعے کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کوگزشتہ 77 سال سے دبائے بیٹھے ہیں۔ باقی رہے ملبوس اور ٹیبلو یا کیک و پرچم کشائی تو ۔۔۔۔ غالِب یہ خیال اچھا ہے۔ اور کچھ یومِ پاکستان کی تقریبات تو بہرِ ملاقات بھی ہو جاتی ہیں۔ ہم نے پوچھا مثلاً۔۔۔۔ تو ڈاکٹرگویا ہوئے۔۔۔ مثلاً نیویارک میں بھی ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل حضرت انٹونیو گوٹریس اور ہماری مندوب ملیحہ لودھی شریک ہوئیں۔ مندوب علیہہ یعنی مسٹر گوٹریس نے پہلے کہا کہ پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے اور بعد میں اس کی نفی کر دی۔ ہم نے حیرت سے پوچھا۔۔۔۔ نفی؟؟؟؟؟ تو بولے، ہاں، گوٹریس نے ہماری قومی عقل کو داد دیتے ہؤے کہا کہ پاکستان مہاجرین کی میزبانی میں سب سے آگے رہا ہے۔ اب تم ہی بتاؤ کہ پاکستان افغان مہاجرین کے سوا کس کی میزبانی کرتا رہا؟ کیا سکینڈینیویّن ممالک کے لوگ پاکستان میں پناہ لینے آتے ہیں؟ بھئی، اس نے کوئی اسامہ بن لادن کا ذکر تو نہیں کیا اور وہ چاہتا تو یہ گلہ بھی کر سکتا تھا کہ آپ نے ریمنڈ ڈیوس کی میزبانی کیوں نہیں کی؟ تاہم ملیحہ اس کی یہ بات بھانپ گئیں اور ایسا احتجاج کیا کہ سالا گوٹریس سر پکڑ کر بیٹھ گیا، اپنا۔۔۔ ہماری ملیحہ کا نہیں۔ ہمارا استفہامیہ چہرہ دیکھ کر وضاحت کی کہ اخباری رپورٹ کے مطابق گوٹریس کی ہرزہ سرائی پر ملیحہ نے وہ ملّی نغمے سنائے، وہ ملّی نغمے سنائے کہ گوٹریس دردِ شقیقہ میں مبتلا ہو کر بھاگا۔ یہ ملیحہ لودھی کا لودھی پن تھا یعنی غیرتِ قومی وگرنہ وہ کوئی جے ڈاٹ نہیں کہ دیارِغیر میں خوش الحانی کرتی پھرتیں اور نوٹ کماتیں، انہیں قطعاً مولانا طارق جمیل کی شاگردہ ماجدہ نہ سمجھا جائے۔
اب ان کی گفتگو ایک مونو لاگ کی یعنی یک الاپی صورت اختیار کر گئی تھی۔ بولے عمران خان نے کیا خوب کہا ہے کہ 23 مارچ 1940 کو مسلمانانِ ہند نے اپنے مستقبل کا تعیّن کیا۔ یعنی انہوں نے ایک صائب لیڈر کی طرح قوم کو اس غلط فہمی سے نکالا ورنہ لوگوں کا کیا ہے جو اس گمان میں رہتے کہ مسلمانانِ ہند نے 15 اگست 1947 کو اپنے مستقبل کا تعیّن کیا یا یہ سمجھتے کہ 23 مارچ کو کیوبا کے باسیوں نے اپنے مستقبل کا تعیّن کیا۔ ویسے اب دعا کرو کہ خان صاحب اس بات پر قائم رہیں۔
میاں، یہی دیکھ لو کہ یومِ پاکستان کے پر مسرت موقع پر جہاں کراچی میں تینوں مسلح افواج کے نمائندوں نے اپنی ذاتی نگرانی میں گورنر زبیر اور وسیم اختر میئر سے مزارِ قائد پر حاضری دلوائی وہیں کچھ من چلوں نے ’رن فار کراچی‘ کے نام سے میراتھون ریس منعقد کی۔ یوں تو ان کا ’رن فرام کراچی‘ منعقد کرنا بھی حق بجانب ہے مگر میں تو جانوں کہ نوجوانوں نے کسی طرح فلم ’زندہ بھاگ‘ دیکھ لی تھی۔ تاہم، مزارِقائد پر گورنر، میئر اور کابینہ کے ارکان نے تو تقاریر کیں مگر رینجرز کے ڈپٹی بریگیڈیئر نادر شاہ صرف مسکرا دیئے، فاتحہ پڑھی (نجانے قائد پر یا سول حکومت کی خاصہ بردای پر)، چادر چڑھائی اور یہ جا، وہ جا۔
پھر کراچی میں پہلی بار پاک فضایہ نے فلائی پاسٹ کا مظاہرہ کیا۔ یعنی جنگی طیّاروں نے کرتب د کھائے۔ اگر تم ایسے نا لائق نے یہ سمجھا کہ فلائی پاسٹ میں اونٹوں نے فضاء میں رقص کا مظاہرہ کیا ہو گا تو یہ غلط سوچ ہے۔ اس موقع پر گورنر زبیر نے کہا کہ کراچی میں ایسی تقریب کا ہونا اچھی بات ہے اور پاک فضایئہ نے جنگوں میں قربانیاں دیں۔ اب ان دو فقروں میں کیا ربط ہے یہ تو میں نہیں جانتا مگر ان کا یہ کہنا کہ پاک فضایئہ نے کراچی کے شہریوں کو تحفہ دیا ہے تو میں سمجھ گیا کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ اس دن اہلیانِ کراچی کے گھروں میں گفٹ ہیمپر تقسیم کیئے گئے تھے۔ بھائی، یہ یومِ پاکستان تھا کوئی عامر لیاقت کا رمضان شو نہیں، یوں بھی پاک فضایئہ اپنی کار کردگی کے لیئے مبارکباد کی مستحق ہے کہ اگر وہ سی 130 طیارے ہی نہ رکھتی تو یہ بلڈی سویلیّن ادھر شیروانیاں پہن کر ایوارڈ تقسیم کرتے نظر آتے؟؟ ڈاکٹر کا بےلاگ اور بن بریک تبصرہ ابھی جاری تھا۔ بولے۔۔۔۔۔ آرمی چیف نے کہا ہے کہ ملک سے فسادیوں کے خاتمے کے لیئے قوم ثابت قدم رہے۔ قوم کو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے کہ انہوں نے صرف کہا ہے، اگر اخبار میں یہ لکھا ہوتا کہ آرمی چیف نے ’حکم صادر‘ کیا ہے کہ فسادیوں کے خاتمے کے لیئے قوم ثابت قدم رہے تو تم جیسے ٹٹ پونجیوں کے پاس حکم کی تعمیل کے سوا اور کوئی چارہ رہ جاتا اور پھر تم اس بات کا بھی شکر کرو کہ انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ثابت قدم رہنے کے لیئے قوم کو کیا، بلکہ کیا کیا کرنا ہو گا۔ اگر وہ کہہ دیتے کہ ثابت قدم رہنے سے مراد ہے کہ ہر شہری مردم شماری میں اعداد و شمار بتانے کے بعد ملٹری عدالت میں حاضر ہو کر تصدیق بھی کرے گا کہ اس نے جو کہا ہے سچ کہا ہے اور سچ کے سوا کچ نہیں کہا تو تم کیا کر لیتے؟ اب تمہارا فرض بنتا ہے کہ اپنی اپنی فیس بک پر لکھو ’تھینک یو قمر نوید باجوہ‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ شہید اور غازی ہمارے ہیرو ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ شر پسند کہیں گے کہ چیف نے ممتاز قادری کا ذکر کیا ہے جو بیّک وقت غازی بھی ہے اور شہید بھی تو یہ تاثر بھی بالکل غلط ہے۔ شہید سے انکی مراد شہید ہے، غازی سے مراد غازی اور نیازی کا تو انہوں نے ذکر تک نہیں کیا پھر اس پر گفتگو بے معنی ہے۔ ڈاکٹر کا بیان جاری رہا۔۔۔۔۔۔کہہ رہے تھے، ذرا غور کیجیئے، دبئی میں بھی یومِ پاکستان دھوم دھام سے منایا گیا۔ برج الخلیفہ پر ایل ای ڈی بتیوں سے پاکستان کا پرچم بنایا گیا۔ شکر ہے اس میں نجم سیٹھی نے مداخلت نہیں کی ورنہ پی ایس ایل کے فا ئنل کی طرح اب بھی بحث چھیڑ کے بیٹھ جاتا کہ نہیں میں تو یومِ پاکستان لاہور ہی میں کراؤں گا۔ حالانکہ معاشی نقطہء نگاہ سے دبئی پاکستان ہی کا ایک شہر ہے، کسی بھی پاکستانی سرمایہ دار سے پوچھ لیجیئے اگر آپ کی اس تک رسائی ہو پائے تو۔
اب بولے، اسلام آباد میں تقسیمِ اعزازات کی تقریب بھی ہوئی جس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے شرکت کی اور پھر سر کھجاتے ہوئے پوچھا، میا ں یہ مسلح افواج کیا ہوا۔ اس میں لفظ مسلح اضافی نہیں کیا؟ بس افواج ہی کافی ہے۔ خیر، سنا ہے کہ ان دس فوجیوں کو ستارہء بسالت سے نوازا گیا جو رتبہء شہادت پا چکے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ عسکری میدان میں خدمات سر انجام دینے والے چھتیس فوجی افسران کو بھی ہلالِ امتیاز ملٹری علیحدہ سے دیا گیا اور دیگر ادیبوں، شاعروں یا سول سائنسدانوں وغیرہ کو بھی ہلالِ امتیاز دیا گیا، مگر یہ سادہ ہلالِ امتیاز تھا کوئی ہلالِ امتیاز ملٹری نہیں۔
پر میاں، میں تو سوچوں ہوں کہ شائد یومِ پاکستان پر عام پاکستانیوں کو بھی کچھ دیا گیا ہو گا۔ میں نے حسبِ معمول پوچھا مثلاً تو انہوں نے بھی حسبِ معمول ہی جواب دیا، مثلاً مفت غذا کی ضمانت، بچوں کو مفت تعلیم کا ایوارڈ، مفت علاج معالجے کی سہولیات کا تحفہ، صاف پانی، امن و سلامتی سے بے خوف و خطر زندہ رہنے کا حق، لکھنے والوں کو آزادیء اظہار کا حق، طالبِ علموں کو طلبہ یونین بنانے کا حق، ہر مسلک، ہر مذہب کے لوگوں کو بے خوف عبادت کا حق، روزگار کی ضمانت وغیرہ۔ بھائی، اگر یہ یومِ پاکستان ہے تو پاکستانیوں کے لیئے بھی تو کوئی پیکیج ہو گا نا۔۔۔! چند بڑے سیاستدان، اعلیٰ فوجی قیادت اور بیوروکریٹ تو صرف پاکستان نہیں ہیں نا۔ اصل پاکستان تو پاکستان کے مزدور، کسان اور محنت کش طبقات ہیں، میں ہوں، تم ہو، ماجا نائی ہے، بھولا چوڑہ ہے، مادھوری خواجہ سرا ہے، مائی شیداں ہے۔۔۔ وہ وہ پچاس سے اوپر کی طوائف بھی تو پاکستان ہے جس کے پاس اب کوئی گاہک نہیں آتا، رستم چنے والا ہے۔۔۔ ہاں، جن کو نوازا گیا، بیشک وہ بھی اہم ہیں مگر دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین۔۔۔۔ وہ بھی تو پاکستان ہیں۔ اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ میں نے کہا، حضور، کس دنیا میں ہیں؟ یہ پاکستان ہے اور پاکستان کا یومِ پاکستان۔ آپ تکفیری ناکفیری کی ہر وقت رٹ لگاتے رہتے ہیں، جناب، اصل تکفیری یہ حکمران طبقات ہیں جنہوں نے تمام محنت کش طبقات کو ذرائعِ پیداوار کے ثمرات حاصل کرنے سے خارج کر رکھا ہے۔
آپ اپنے خیالات اپنے پاس ہی رکھیئے۔ یہ 23 مارچ ہے، حضور۔۔۔۔۔ اور 23 مارچ کو پرچم کشائی کی اجازت ہے۔۔۔۔۔ لب کشائی کی نہیں۔ تب کہیں جا کروہ خاموش ہوئےاور میں نے کفِ افسوس ملتے ہوئے سوچا۔۔۔ ’عجب آزاد مرد ہیں، یہ اپنے ڈاکٹر صاحب بھی‘۔

فیس بک کمینٹ

متعلقہ تحریریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker