تصور کا طلسم بھی کیسا طلسم ہے؟ پلک جھپکنے میں دوریاں سمٹتی اور فاصلے تحلیل ہوجاتے ہیں اور پھر تصور کی آنکھ ہمیں من چاہے منظر دکھاتی ہے۔ آج موہنجوداڑو کے آڑھے ترچھے راستوں پر چلتے ہوئے میری آنکھوں میں کتنے ہی منظرروشن ہوگئے۔ بازار میں کاروبار، گاہکوں کا شور، شطرنج کی بازی، موسیقی کی محفلیں اور کھیتوں میں لہلاتی فصلیں۔ وہ دسمبر کی ایک صبح تھی اور میں موہنجوداڑو کے گلی کوچوں میں گھوم رہا تھا۔
سردیوں کے دن مختصرہوتے ہیں، پتا ہی نہیں چلتا کہ کب دن چڑھا اور کب شام ہو گئی، لیکن سردیوں کی دھوپ بہت قیمتی ہوتی ہے، شاید کوئی بھی چیز جب نایاب ہوتی ہے، قیمتی بن جاتی ہے۔ یہ بھی دسمبر کا ایک دن تھا اور میں 250 قبل مسیح کی تاریخ کی انگلی پکڑ کر چل رہا تھا اور حیرت میرے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ کیسا شہر ہو گا اور کیسے لوگ، کبھی زندگی ان گلیوں میں ہنستی مسکراتی ہو گی اور اب ہر طرف ایک خاموشی ہے اور ہ±و کاعالم۔
ہاں کبھی کبھی یہاں وہاں چند سیاح نظر آجاتے ہیں، جن میں کچھ غیرملکی بھی ہوتے ہیں، جنہیں قدیم تاریخ کا افسوں اپنی جانب کھینچتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے بھنڈارکر کو یہاں کی کشش اپنی طرف کھینچ لائی تھی۔ بھنڈارکر بنیادی طور پر ایک تاریخ دان تھا اور بدھ سٹوپاز پر تحقیق کر رہا تھا۔ تحقیق کا سفر اسے موہنجوداڑو لے آیا، جہاں بدھ عہد کا ایک سٹوپا تھا، لیکن بھنڈارکر کی تیز نگاہوں نے محسوس کیا کہ یہاں سٹوپا کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ اس نے آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا کے سربراہ کو خط لکھا کہ اس علاقے میں بہت کچھ ملنے کا امکان ہے۔
یہ 1911ءکی بات ہے۔ اس وقت آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کا سربراہ جان مارشل تھا، جو خود بھی ایک مشہور ماہرِ آثارِ قدیمہ تھا۔ خط ملتے ہی وہ موہنجوداڑو پہنچ گیا اور دو سال تک مسلسل وہیں رہا۔ اپنی ٹیم کو وہیں بلا لیا، یوں ہڑپہ کی دریافت کے دو سال بعد 1922ءمیں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے آر ڈی بینر جی نے موہنجوداڑو پرابتدائی کھدائی (Excavation) کا آغاز کیا۔ اس کے بعد کاشی ناتھ ڈکشٹ نے 1924 – 25ءاور جان مارشل نے 1925-26ءمیں کھدائی کے عمل کی نگرانی کی۔ 1930ءکے عشرے میں جان مارشل، ڈی کے ڈکشی ٹار اور ارنیسٹ مے کے (Mackay) نے بڑے پیمانے پر کھدائی کے عمل کی قیادت کی۔ 1945ءمیں مورٹیمر ویلر (Mortimer Wheeler) اور احمد حسن دانی نے اپنی نگرانی میں مزید کھدائی کروائی۔
John-Marshall (left) and Mortimer (right)
بدھ سٹوپا کی سیڑھیوں پر قدم بہ قدم اوپرجاتے ہوئے میرے ساتھ موہنجوداڑو کا عاشق آصف موریو تھا۔ موہنجوداڑو کی ایک ایک تفصیل سے واقف۔ کئی کتابوں کا مصنف، موہنجوداڑو، جس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ کئی بار تو مجھے ایسا لگا جیسے پچھلے جنم میں کئی ہزار سال پہلے وہ انہیں گلیوں میں پلا بڑھا ہو۔ سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے میری نگاہوں کے سامنے وہ سارے نام آتے گئے، جنہوں نے اپنی زندگیوں کا بڑا حصہ اس شہربرباد کے راز دریافت کرنے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اس کھدائی کے دوران جگہ جگہ انسانی جسموں کے ڈھانچے بھی ملے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ کسی قدرتی آفت نے پورے کے پورے شہرکو شہر خموشاں میں بدل دیا تھا۔
یہ دسمبر کی صبح تھی ہلکی ہلکی دھوپ چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی میری طرح خرابوں میں خزانے ڈھونڈے والے اکا دکا لوگ گائیڈز کی قیادت میں اس شہر کی کہانی سن رہے تھے۔ یہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے 250 سال پہلے کی بات ہے جب دریائے سندھ کے کنارے اس اونچے ٹیلے پر ایک خوبصورت شہر بسانے کا پروگرام بنایا گیا اور اس کے لیے پانچ سو پچاس ایکڑ کا رقبہ مختص کیا گیا۔ یہ اس زمانے میں ایک وسیع جگہ تھی۔ یہاں پر 20 سے 30 ہزار لوگ بسنے لگے۔ یہ بنیادی سہولتوں سے آراستہ ایک جدید شہرتھا۔ جہاں ہر گھر میں کمروں کے علاوہ ایک کچن اورایک واش روم تھا۔ مکانوں کی تعمیر میں پختہ اینٹیں استعمال کی گئی تھیں، جوایک سائز کی تھیں۔ نالیوں میں استعمال ہونے والی اینٹوں پرجپسم اور چارکول کی تہہ نے انہیں واٹرپروف بنا دیا۔ چوڑی سڑکیں اور کھلی گلیاں، سیورج کا انتہائی عمدہ انتظام۔ گلیوں میں چلتے ہوئے میں نے دیکھا، نالیوں کو پتھروں سے کور (Cover) کیا گیا تھا۔
موہنجوداڑو شہرکا ایک مرکزی دروازہ تھا۔ شہریوں کو پانی کی فراہمی کے لیے سات سو سے زیادہ کنویں تھے۔ یہاں کے لوگوں کا بنیادی پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ تجارت بارٹرسسٹم کے تحت ہوتی تھی، کھدائی کے دوران ایک بیل گاڑی بھی برآمد ہوئی، جس سے پتا چلتا ہے کہ اس زمانے کے جانوروں میں بیل بھی شامل تھے اور اس زمانے میں پہیہ ایجاد ہو چکا تھا۔ یہاں سے دریافت ہونے والی اشیا میں اس وقت کے لوگوں کی معاشرت، معیشت، زراعت اور مذہبی رجحانات کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔
سب سے اہم بات یہ کہ کھدائی کے دوران کسی قسم کے ہتھیار نہیں ملے، جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ لوگ امن پسند تھے اور معاملات کو بات چیت سے طے کرتے تھے۔ آصف موریو کے پاس موہنجوداڑو کے ہر گلی کوچے کی معلومات تھیں اور وہ اونچے نیچے راستوں پر یوں چل رہا تھا جیسے راستے اپنی طرف بلا رہے ہوں، لیکن میں اب چلتے چلتے تھک گیا تھا، لیکن ابھی مجھے شہر کا وہ حصہ دیکھنا تھا، جس پر یہاں کے لوگوں کو ناز تھا۔
یہ موہنجوداڑو کا وسیع وعریض سوئمنگ پول تھا، جسےGreat Bath کہتے تھے۔ یہ 900 مربع فٹ کا تالاب ہے، جسے قریبی کنوﺅں کے پانی سے بھرا جاتا تھا۔ شہرہ? ا?فاق رومن باتھ موہنجوداڑو کے Great Bath کے بہت عرصہ بعد بنائے گئے تھے۔
اب سردیوں کی دھوپ میں حرارت بڑھ گئی تھی، میں Great Bath کی سیڑ ھیوں پربیٹھ گیا۔ آصف موریو نے کہا: آپ یہاں بیٹھ کر ریسٹ کریں، میں کچھ ٹورسٹ لے کر آگے جا رہا ہوں۔ کچھ ہی دیر میں واپس آڈںجاﺅں گا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ کچھ غیرملکی سیاحوں کے ساتھ میری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ میں اس وسیع تالاب، جسے گریٹ باتھ کہتے ہیں، کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔ بیگ سے ہرمن ہیسے کا ناول سدارتھا (Sidartha) نکالا اور پڑھنے لگا۔ وہ تھکن تھی یا دھوپ کی تھپکی، میری آنکھیں بوجھل ہونے لگیں۔ اسی دوران مجھے اپنے قریب ایک آہٹ سنائی دی۔ میں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا، وہ کوئی غیرملکی سیاح تھی۔ اس کے ہاتھ میں کیمرہ اور کمر پر رک سیک (Rucksack) تھا۔ شاید وہ بھی کھنڈروں کے اونچے نیچے راستوں پر چلتے چلتے تھک گئی تھی۔
مجھے سیڑھیوں پر بیٹھے دیکھ کر وہ بھی وہیں بیٹھ گئی۔ میں نے دیکھا، اس کے چہرے پر تھکن تھی، لیکن اس کی اجلی آنکھوں کو سورج کی کرنوں نے اور روشن کر دیا تھا۔ ”کتنا خوبصورت منظر ہے، میرے وطن میں تو اس مہینے میں سب کچھ برف سے ڈھک جاتا ہے” وہ خود کلامی کے انداز میں اپنے آپ سے بول رہی تھی۔ اچانک جیسے اسے میری موجودگی کا احساس ہوا اس سے پہلے کہ میں پوچھتا کہ وہ کون ہے اوراس کا وطن کون سا ہے۔ اس نے میرے ہاتھوں میں پکڑی کتاب دیکھ کر کہا: اوہ! یہ تومیرے ہم وطن لکھاری کا ناول ہے۔ میں سمجھ گیا، اس کاتعلق جرمنی سے ہے۔
میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ایک سال پہلے وہ دنیا کی سیاحت پر نکلی تھی اور موہنجوداڑو اس کی آخری منزل ہے۔ اس کے بعد وہ واپس اپنے وطن جائے گی۔ اس کی روشن آنکھوں میں دیس دیس کے رنگ جھلک رہے تھے، پھر اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں، سیڑھیوں سے ٹیک لگا لی اورخود سے باتیں کرنے لگی: میں یہاں ہوں اور میرے شہر میں برف پڑ رہی ہو گی۔ میرے گھر کی چھت پر دہلیز سے باہر اور گلی میں برف گر رہی ہو گی۔ اس کے شانت چہرے کو دیکھتے ہوئے، مجھے مجید امجد کی نظم کی آخری سطریں یاد آ گئیں:
فاصلوں کی کمند سے آزاد
میرا دل ہے کہ شہر میویخ ہے
برف گرتی ہے ساز بجتے ہیں
میں سوچتا ہوں تصور کا طلسم بھی کیسا طلسم ہے، پلک جھپکنے میں دوریاں سمٹتی اور فاصلے تحلیل ہو اتے ہیں اور پھرتصور کی آنکھ ہمیں من چاہے
(بشکریہ:ہم سب)
)