جون 2015 کو ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا۔ آصف علی زرداری دھاڑتے ہوئے اسلام آباد پہنچے تھے۔ انہیں سندھ میں رینجرز کی کارروائیوں پر سخت اعتراض تھا۔ ایان علی جیل میں تھیں۔ ڈاکٹر عاصم گرفتار ہو چکے تھے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور صحافیوں کے ایک سحر زدہ ہجوم کے سامنے آصف زرداری نے گرجتی ہوئی آواز میں ایک تقریر کی۔ اس تقریر کا حاصل اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی تھی۔ مزید یہ کہا کہ “آپ تین برس کے لئے منظر پر آئے ہیں۔ سیاست دان آپ سے پہلے بھی یہاں موجود تھے، آپ کے بعد بھی یہیں رہیں گے”۔
اس تقریر کے چند روز بعد آصف زرداری بحیرہ عرب کے پار خلیجی ملک میں جا اترے۔ ڈاکٹر عاصم کی آزمائش طویل ہو گئی۔ شرجیل میمن کو ملک سے باہر جانا پڑا۔ ڈیڑھ برس بعد نومبر 2016 ختم ہوا تو سندھ کا وزیر اعلیٰ بدل چکا تھا۔ ناکام لاک ڈاؤن کے بعد پانامہ کیس عدالت عظمیٰ میں پہنچ چکا تھا۔ ڈان لیکس کا چرچا تھا۔ پرویز رشید سے وزارت اطلاعات کا قلمدان واپس لیا جا چکا تھا۔ آصف علی زرداری کو وثوق ہو چکا تھا کہ حسین حقانی ملک کے غدار ہیں۔ راولپنڈی سمیت ملک بھر میں عید میلاد النبی کی محافل کا خصوصی اہتمام کیا جا رہا تھا۔ چند ہفتے بعد ڈونلد ٹرمپ امریکی صدارت کا حلف اٹھانے والے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی نویں برسی سے تین روز قبل آصف زرداری پاکستان لوٹ آئے۔ دو اینٹیں ہوا میں بلند ہوئیں۔ ایک اینٹ 18 مہینے کے لئے منظر سے غائب ہوگئی۔ دوسری اینٹ سبک دوش ہو گئی تو پہلے اینٹ واپس آ گئی۔ اینٹ سے اینٹ ٹکرانے کی نوبت نہیں آئی۔
نواز شریف نااہل ہو گئے۔ جون 2015 میں آصف زرداری نواز شریف سے ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ اس ملاقات پر نواز شریف اور ان کے رفقا راضی نہیں ہوئے۔ 2017 میں جی ٹی روڈ کے راستے لاہور واپس آنے والے نواز شریف آصف زرداری سے رابطہ استوار کرنا چاہتے تھے۔ آصف علی زرداری نے ایک طرف یاد دلایا کہ بڑے بھائی نے چار برس تک فون کرنے کی زحمت نہیں کی۔ دوسری طرف یہ بھی کہا کہ سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی۔
ایک حساس کلب کے ارکان اپنے آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں سراسیمہ تھے۔ ان باوقار ہستیوں نے مدد کے لئے پھینکی گئی اس رسی کو دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے تھام لیا اور قومی اداروں میں تفرقہ پیدا کئے بغیر صلح کا پرچم لہرا دیا۔ اس کے کچھ روز بعد آصف علی زرداری بدعنوانی کے آخری الزام سے مکمل طور پر بری کر دیئے گئے۔ ان کے خلاف الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ احتساب عدالت نے سترہ برس تک اس مقدمے کی سماعت کی۔ ڈاکٹر عاصم کو علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت مل گئی۔ بے نظیر قتل کیس میں اعتراف جرم کرنے والے بری کر دیئے گئے۔ تفتیش میں غفلت کے ذمہ دار 17 برس کے لئے جیل بھیج گئے ہیں۔ بڑے ملزم کو اشتہاری قرار دے دیا گیا ہے۔
ملک کے معتبر ٹیلی ویژن چینلز پر بڑے ملزم کا انٹرویو نشر کرنے کے لئے جتن کرنے والے صحافی ہک دک رہ گئے ہیں۔ میاں نواز شریف کے حامی خوش ہیں کہ اگر احتساب عدالتوں سے آصف علی زرداری کو انصاف مل سکتا ہے تو گویا انصاف کا دیوتا ابھی سانس لے رہا ہے۔ آل پاکستان مسلم لیگ والوں کی آل، ملت اور برادری پریشان ہے کہ اشتہاری ملزم وطن واپس کیسے آ سکے گا جب کہ کمر کا درد موقع شناس ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکن خوشی سے پھولے نہیں سما رہے کہ این اے 120 میں ان کے ووٹ بڑھ جائیں گے۔
(بشکریہ: ہم سب ۔ لاہور)
فیس بک کمینٹ