قیام پاکستان کے فوراً بعد تاریخ نویسی نے بٹوارے کے تناظر میں خاص اہمیت حاصل کر لی تھی۔ یہ محض زمین پر کھینچی گئی لکیر یا مالی اور عسکری اثاثوں کی تقسیم کا سوال نہیں تھا۔ دونوں نوآزاد ممالک کو ایک ہزار سالہ تاریخ کے ملبے سے اپنی ثقافتی میراث، تمدنی روایت، تاریخی بیانیہ اور مخصوص اجتماعی شناخت بھی برآمد کرنا تھی۔ نوآبادیاتی تسلط سے آزادی کی تحریک، ایک مضبوط سیاسی جماعت اور قدیم تہذیبی میراث جیسے عناصر بھارت کے حصے میں آئے۔ پاکستان میں شہریت، ریاستی بندوبست اور سیاسی خد و خال کی تشکیل کا مرحلہ زیادہ پیچیدہ تھا۔ 19 ویں صدی میں اٹلی اور آسٹرو ہنگیرین سلطنت نیز 1917ءمیں سوویت یونین کو بھی اپنے یورپین اور ایشیائی منطقوں میں یہی دشواریاں پیش آئی تھیں۔ جارجیا کے باشندے سٹالن کا لب و لہجہ اہل ماسکو کے لیے اجنبی تھا۔ 1861ءمیں اٹلی کی قومی ریاست قائم ہوئی تو ایک اطالوی مدبر ماسیمو تاپاریلی ( Massimo Taparelli) نے اپنی خودنوشت میں لکھا تھا ’ہم نے اٹلی بنا لیا ہے۔ اب ہمیں اطالوی شہری تلاش کرنا ہیں‘۔ گویا ریاست کا قیام اور ریاست سے نامیاتی تعلق رکھنے والے شہریوں کی تشکیل الگ الگ مرحلے ہیں۔
حالیہ برسوں میں سامنے آنے والے ہمارے تاریخ دانوں میں علی عثمان قاسمی، یعقوب بنگش اور ندیم فاروق پراچہ خاص مقام رکھتے ہیں۔ ہمارے تاریخ دانوں کی یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نسل اس جذباتی کیفیت سے مناسب زمانی فاصلے پر ہے جہاں ہمارے تاریخ نویس جذباتی دھندلکے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے پر مجبور تھے۔ حال ہی میں ’قوم، ملک، سلطنت : شہریت اور پاکستان میں قومی وابستگی‘ کے عنوان سے علی عثمان قاسمی کی چوتھی تصنیف سامنے آئی ہے۔ اس کتاب کا نام حفیظ جالندھری کے لکھے قومی ترانے سے مستعار لیا گیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ درویش اپنی جوانی کے خروش میں تین باہم متناقض تصورات کے اس ملغوبے کا خوب مذاق اڑایا کرتا تھا۔ بات سادہ تھی۔ سلطنت ایک قدیم تصور ہے۔ اس کی حدود طے نہیں ہوتیں اور شہریوں کا باہم تعلق بھی حکمران کی افتاد طبع کے تابع ہوتا ہے۔ قوم ایک نامیاتی شناخت ہے جو صدیوں پر محیط جغرافیائی، سیاسی، تاریخی اور معاشی حقائق سے تشکیل پاتی ہے۔ قومی ریاست کا تصور بمشکل تین سو برس پرانا ہے۔ قومی ریاست کی جغرافیائی حدود متعین ہوتی ہیں اور اس کے شہری اپنی متنوع قومی شناختوں کی نفی کیے بغیر مساوی شہری حقوق اور باہم متفقہ گروہی مفادات کی روشنی میں ایک عمرانی معاہدہ مرتب کرتے ہیں۔ گویا ایک ہی قومی ریاست میں متعدد ذیلی قومیتی گروہ موجود ہوتے ہیں۔ قومی ریاست ایک نامیاتی اکائی نہیں ہوتی بلکہ ایک عمرانی معاہدے کے تحت متعدد قومیتی گروہوں کو اپنے اندر سمو کر ایک خاص تاریخی عمل سے گزرتے ہوئے اپنی مخصوص شناخت تشکیل دیتی ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ قومی ریاست میں مختلف ذیلی گروہوں کا محض ایک دوسرے کے احترام کا اعلان کرنا کافی نہیں۔ قومی ریاست میں ان گروہوں کا باہمی تعلق فیصلہ سازی میں شرکت، معاشی انصاف اور جمہوری عمل سے تشکیل پاتا ہے۔
قومی ریاست میں طاقت کے بل پر کوئی ایک شناخت ذیلی گروہوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے تو قومی ریاست کا عمرانی معاہدہ بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہم نے قیام پاکستان کے پہلے پچیس برس میں یہ غلطی کی۔ چنانچہ متحدہ پاکستان کی اکثریت نے اقلیت کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا۔ مذہب کا رشتہ ملک کے دو حصوں کو اکٹھا رکھ سکا اور نہ مغربی پاکستان کی فوجی طاقت قومی اتحاد کی ضمانت دے سکی۔ ہمیں ماننا چاہیے کہ پاکستان بطور قوم کوئی تاریخی روایت نہیں رکھتا۔ ہم نے یہ ملک جدید سیاسی مکالمے کی مدد سے آئینی بندوبست کے طور پر حاصل کیا تھا۔ ہم اسے جمہوری تسلسل کی مدد سے مختلف ذیلی گروہوں کو مساوی شہریت اور حقوق کی ضمانت دے کر ہی ایک پائیدار قومی ریاست میں ڈھال سکتے ہیں جہاں پیداواری معیشت شہریوں کے معیار زندگی میں مسلسل بہتری کی راہ ہموار کر سکے۔ ہمارے تاریخ دانوں کی پہلی نسل میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور خورشید کمال عزیز کا باہم تعلق دلچسپ رہا۔ پچاس کی دہائی میں اشتیاق حسین قریشی اور کے کے عزیز نے مل کر ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا ’A History of Indo Pakistan‘۔ بعد ازاں اسے A Short History of Pakistan کے نام سے شائع کیا گیا۔ یہ کتاب تاریخی حقائق، واقعات اور شخصیات کے مسخ شدہ بیانئے پر مبنی تھی۔ 1971ءکے تجربے سے گزرنے کے بعد کے کے عزیز کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے اپنی ہی تصنیف کردہ کتاب میں غلط بیانات، مسخ حقائق اور غیر حقیقی واقعات پر تحقیق شروع کر دی۔ جنرل ضیا الحق کی حکومت آئی تو ایک روز پولیس نے کے کے عزیز کے گھر پر دھاوا بول کر ان کی تحقیق پر مبنی مواد ضبط کر لیا۔ کے کے عزیز نے ہمت نہیں ہاری۔ لندن میں بیٹھ کرThe Murder of History کے عنوان سے ایک شاندار کتاب لکھی جس میں واضح کیا گیا تھا کہ ہم نے من مانے نصاب کی مدد سے اپنی نسلوں کا تاریخی شعور کیسے مسخ کیا۔ آج کے کے عزیز کی چالیس کے قریب تصانیف ہماری تاریخ کے متبادل بیانئے کا اثاثہ ہیں۔
علی عثمان قاسمی نے اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک ٹھوس علمی تصنیف پیش کی ہے۔ علی عثمان کے تحقیقی رویے کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ وہ تاریخ اور سیاست کے تجریدی تصورات کو روزمرہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے اور قابل تصدیق حقائق کے ساتھ یوں جوڑتے چلے جاتے ہیں کہ ان کے علمی بیان میں دلچسپ حکایت کی سی دل کشی پیدا ہو جاتی ہے۔ پڑھنے والے کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہائیڈل برگ سے تعلیم پانے والے ڈاکٹر علی عثمان قاسمی نے عرق ریزی سے لکھی اس کتاب میں سرکاری تاریخ نویسوں کی 75 برس پر پھیلی ہوئی کاوشوں کو یوں بے نقاب کیا ہے کہ ان بتان آذری کے مٹی کے پاﺅں بھی دیکھے جا سکتے ہیں اور آئندہ نسلیں اس بے بصری کا تماشا بھی کر سکیں گی جس نے ہمارے اجتماعی شعور کو مفلوج کر رکھا ہے۔ علی عثمان قاسمی پاکستان کی قومی ریاست کا ایسا خواب دکھاتا ہے جس میں شہری کی اپنے وطن سے محبت موسم بہار کی روئیدگی کی طرح اپنا آپا دکھا سکے اور اس ملک میں بسنے والی لسانی، مذہبی، ثقافتی اور تاریخی اکائیاں اپنی نفی کیے بغیر پاکستان کی قومی ریاست کا حصہ بن سکیں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ