آج 31 دسمبر 2024 ءہے۔ ٹھیک پچیس برس پہلے دسمبر 1999 کے آخری روز نئے ہزاریے کا جشن منایا گیا تھا۔ ن۔ م راشد کے لفظوں میں ’آدم کی ولادت کے نئے جشن پہ لہراتے جلاجل کے نئے خواب‘ تو ہمارے حصے میں نہیں آئے کیونکہ ہمارے استاد نے نصف صدی پہلے لکھا تھا ’ نیا سال کئی سال سے نہیں آیا‘۔ صبح شام کی بحرانی دلدل میں پاﺅں گھسیٹنے والوں کے لیے یہی مناسب ہے کہ ربع صدی کے اس سفر میں سود و زیاں کا کچھ حساب کیا جائے۔ شاید ہم جان سکیں کہ ہم حرماں نصیبوں کی پلکوں پر شب و روز کا بوجھ ہلکا کیوں نہیں ہو سکا۔ پچیس برس پہلے سنہ 2000 ءکے سیاسی خدوخال اور قومی معیشت کے بنیادی اشاریوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ معلوم تو ہو کہ ہم سے ایسی کیا خطا ہوئی کہ نئی صدی کی پہلی چوتھائی میں ہم سے آگے چلنے والے منزلیں مارتے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ جو ہمارے برابر یا شاید پیچھے تھے وہ بھی ہم سے آگے نکل گئے ۔
دسمبر 2024 ءکی اس آخری رات گبریل گارشیا مارکیزکے افسانے ’مونتیل کی بیوہ‘کی طرح تھکاوٹ ہمارے بازوﺅں ہی میں نہیں، ہربن مو میں اتر آئی ہے۔ سنہ 2000 ءشروع ہوا تو پرویز مشرف جلوہ افروز ہو چکے تھے۔ نواز شریف اور ان کے مٹھی بھر رفقا بندی خانوں میں تھے۔ پیپلز پارٹی خاموش تماشائی تھی۔ قوم کا مجموعی ردعمل غریب کی اس بیٹی جیسا تھا جس نے بیوگی اور طلاق کے متعدد مراحل دیکھ رکھے ہوں۔ 26 جنوری 2000 ءکو مشرف حکومت نے عبوری آئینی حکم (پی سی او) نافذ کر دیا۔ سپریم کورٹ اور چاروں صوبوں کی ہائیکورٹس میں صرف 14 ججوں کو غیر دستوری آئینی بندوبست کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کی توفیق ہوئی۔ وفاقی شرعی عدالت کے 7 ججوں میں سے صرف ایک مرد باصفا کو آمریت کو شریعت سے متصادم سمجھنے کی ہمت عطا ہوئی۔ 6اپریل 2000 ءکو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے نواز شریف کو 21 برس قید اور تمام جائیداد ضبط کرنے کی سزا سنائی۔ اسی برس 12مئی کو سپریم کورٹ نے عبوری آئینی حکم کے تحت حلف اٹھانے والے چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی جنرل پرویز مشرف کی حکومت کو جائز قرار دیتے ہوئے تین سال کے اندر انتخاب کروانے کا حکم دیا نیز یہ اختیار بھی عطا کر دیا کہ وہ چاہیں تو آئین بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہ انصاف کا طرفہ زاویہ تھا کہ فیصلہ دینے والے جج اس حکومت کو جائز قرار دے رہے تھے جس کے مسلط کردہ عبوری آئینی حکم کے تحت حلف اٹھا کر وہ ناجائز حکومت کوعملی طور پر پہلے سے تسلیم کر چکے تھے۔
3دسمبر 2000 ءکو اتحاد برائے بحالی جمہوریت (اے آر ڈی) قائم ہوا اور ٹھیک ایک ہفتے بعد 10دسمبر 2000 ءکو نواز شریف اور ان کے اہل خانہ جلاوطن ہو کر سعودی عرب پہنچ گئے۔ یہ اس برس کا سیاسی روزنامچہ تھا جب پاکستان کی آبادی پندرہ کروڑ چالیس لاکھ تھی۔ خواندگی کی شرح 44 فیصد تھی۔ فی کس آمدنی 412 ڈالر تھی اور زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر تھے۔ اس برس بھارت میں زرمبادلہ کے ذخائر 35 ارب ڈالر تھے جو آج 650 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ تب چین میں فی کس آمدنی 960 ڈالر تھی جو پچھلی ربع صدی میں بڑھ کر 12 ہزار ڈالر فی کس ہو چکی ہے۔ یہاں جنوبی کوریا ، جنوبی افریقہ ، ایتھوپیا ، بنگلہ دیش اور برازیل جیسے ممالک کا تذکرہ ندامت کی اس دستاویز کو طول دینے کے مترادف ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ جب یورپین یونین کی معیشت کا کل حجم 7 کھرب ڈالر سے بڑھ کر 2024 میں 19 کھرب ڈالر کو پہنچ رہا تھا تو ہم کیا کر رہے تھے۔
دسمبر 1999 میں بھارتی طیارے کے اغوا سے لے کر دسمبر 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گرد حملے تک پاک بھارت تعلقات شدید کشیدگی کا شکار تھے۔ اس دوران نائن الیون کے واقعے نے پاکستان کے لیے قومی سمت تبدیل کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا لیکن مشرف آمریت نے سیاسی استحکام اور پیداواری معیشت کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے افغان جنگ کو اپنی حکومت کی طوالت کا ذریعہ سمجھا۔ وقفے وقفے سے پاکستان کے مختلف حصوں سے بین الاقوامی دہشت گردوں کی گرفتاری 2مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موت پر منتج ہوئی۔ اس دورا ن خود پاکستان کے اندر تحریک طالبان جنم لے چکی تھی اور 2018 تک اس عفریت نے ستر ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں اور فوجی جوانوں کی قربانی لے لی تھی۔ اس سے کہیں زیادہ خطرناک بات یہ ہوئی کہ دہشت گرددھماکوں سے لرزتے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کا امکان معدوم ہو گیا۔ پاکستان کو عالمی تنہائی نے آلیا۔ ملک کے اندر معاشی سرگرمیاں مفلوج ہو کر رہ گئیں۔ معاشی ترقی کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہوتا ہے لیکن 2007 کے بعد سے ریاست دوبارہ اسی راستے پر چل نکلی جو 1988 میں ضیاالحق کی موت کے بعد اختیار کیا گیا تھا یعنی مقبول سیاسی جماعتوں کو راندہ درگاہ قرار دے کر اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے چوبی اصنام کے کانوں میں ’قم باذنی‘ کی صدا دی جائے۔ 1988 میں آئی جے آئی کھڑی کی تھی اور 2008 کے بعد دس برس اس سیاسی جماعت کومصنوعی طاقت فراہم کرنے میں خرچ کیے گئے جسے آج انتشاری جماعت قرار دیا جا رہا ہے۔ اس دوران دستوری دائرے میں پارلیمانی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کے خلاف اس قدر پراپیگنڈہ کیا گیا کہ ایک پوری نسل جمہوری عمل ہی کو بدعنوانی اور لوٹ مار کے مترادف سمجھتے ہوئے جوان ہوئی ہے۔ 2021 کے موسم خزاں میں ون پیج کا حکومتی بندوبست منہدم ہو گیا لیکن پچھلے تین برس سے قوم پراجیکٹ عمران کا تاوان ادا کر رہی ہے اور تعجب یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ 21ویں صدی کے پہلے پچیس برس میں دنیا نے جو حیرت انگیز معاشی ترقی کی ہے، اس میں ہمارا حصہ کہاں ہے؟
( بشکریہ ہم سب ۔۔۔لاہور )
فیس بک کمینٹ