جو لوگ پچپن کے ہیں انھیں یاد ہوگا کہ بچپن میں والدہ جب محلے کی دکان پر سبزی ترکاری لینے بھیجتی تھیں توسبزی والا دھنیا، پودینہ اور سبز پیاز کی ایک ایک گٹھی مفت میں ہی بطور جھونگا باقی سبزی کے ساتھ تھیلے یا ٹوکری میں ڈال دیتا تھا (ابھی پلاسٹک کی قاتل تھیلیاں ایجاد نہیں ہوئی تھیں)۔
یہ قبلِ مسیح کی نہیں مجھ سے پہلے کی صرف ایک نسل کی اقدار کی بات ہے جب کسی بھی دیہاتی کے نزدیک شہر کی تعریف یہ تھی کہ ایسا پردیس جہاں مسافر کو آرام و قیام و طعام کا انتظام خود کرنا پڑتا ہے ، دودھ اور لسی بھی دکانوں پر فروخت ہوتے ہیں اور کنجڑہ گاجر کے بھی پیسے لیتا ہے۔شکر ہے یہ نسل یہ دیکھنے سے پہلے پہلے گذر گئی کہ آج کی دنیا میں پینے کا پانی بھی کولڈ ڈرنک کے بھاؤ دستیاب ہے۔میری ہی زمین سے کھینچا پانی پچیس پیسے فی لیٹر میں خرید کر مجھے ہی بوتل بند پانی کی صورت پچاس روپے فی لیٹر میں فروخت کیا جا رہا ہے اور میں خوشی خوشی خرید بھی رہا ہوں کیونکہ جو پانی بچپن میں نلکے سے منہ لگا کے غٹاغٹ پی جاتا تھا اس میں خود میں نے ہی زہر ملا دیا۔
بچھا دیا گیا بارود اس کے پانی میں
وہ جوِ آب جو میری گلی کو آتی تھی ( فراز )
( مجھے یقین نہ آیا جب روم میں ہر سڑک پر موجود سرکاری نلکوں سے میں نے سیاحوں کو بوتلوں میں پانی بھرتے دیکھا۔پاکستان کے بڑے شہروں میں آج کتنے لوگ ہیں جنھیں یاد ہو کہ انھوں نے آخری بار سرکاری نلکے سے چلو بھر کے پانی پیا تھا۔مگر اسی پاکستان میں آج بھی سیکڑوں جوہڑ ایسے ہیں جہاں جانور اور انسان ایک ساتھ پانی پیتے ہیں اور زندہ بھی ہیں )۔
مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ جانے کب میری ہی بھینس کا دودھ ساٹھ روپے لیٹر میں مجھ سے خرید کر اسے گرم کر کے ڈبے میں ڈال کر مجھے ہی ایک سو بیس روپے میں لوٹا دیا گیا۔
اب سے تین دہائی پہلے تک ایسی خبریں بھی مقامی اخبارات میں بکثرت شایع ہوتی تھیں کہ فلاں دکان دار چینی بلیک کرتے ہوئے گرفتار ، فلاں تاجر کے گودام پر چھاپہ گندم کی سو بوریاں برآمد ذخیرہ اندوز فرار ، مجسٹریٹ نے آج فلاں بازار میں اچانک چھاپا مار کر دس گراں فروشوں کو جرمانے کیے۔اب میڈیا کو دہشت گردی ، میگا کرپشن ، قبضہ مافیا ، سیاسی کردار کشی اور ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے سے فرصت کہاں کہ عوامی مفاد کی چھوٹی چھوٹی خبروں اور مسائل کو جگہ مل پائے۔
چنانچہ اسی ہفتے سولہ اکتوبر کو عالمی یومِ خوراک پر عالمی ادارہِ خوراک نے بھوک اور خوراک کے زیاں سے متعلق جو تازہ اعدادی تصویر جاری کی وہ بھی بریکنگ نیوز کے درجے پر پوری نہیں اترتی۔رپورٹ کے مطابق آج بھی دنیا کی آٹھ ارب آبادی کے لیے یہ زمین اتنا پانی اور خوراک پیدا کر رہی ہے کہ قاعدے سے کسی کو نہ تو بھوکا سونا چاہیے نہ ہی پیاسا مرنا چاہیے۔مگر انسانی ضرورت کی ہر بنیادی شے پر لالچ کا قبضہ یا تو مکمل ہو چکا ہے یا مکمل ہونے کو ہے۔وافر خوراک کے باوجود اس کرہِ ارض کا ہر نوواں شخص فاقے ، ناقص خوراک یا ناکافی غذائیت سے دوچار ہے۔
ہر برس دنیا میں جتنی اموات بھوک پیاس سے ہو رہی ہیں وہ ملیریا ، ٹی بی اور ایڈز سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہیں۔آج بھی اکیاسی کروڑ لوگ نہیں جانتے کہ کل کھاناملے گا کہ نہیں۔فاقے اور خوراک کے امکان کے درمیان معلق ان اکیاسی کروڑ انسانوں میں سے پچاس کروڑ عورتیں اور بچے ہیں۔ان میں سے ساٹھ کروڑ لوگ دیہی علاقوںمیں بستے ہیں۔یعنی وہ دیہی علاقے جو شہروں کے رازق ہیں مگر اپنی ہی زمین پر اپنے لیے بھوک کی فصل کاٹ رہے ہیں۔
دنیا میں اس وقت نوزائیدہ بچوں کی جتنی اموات ہو رہی ہیںان کی بنیادی وجوہات پر دھیان دیا جائے تو پینتالیس فیصدکے ڈانڈے کہیں نہ کہیں غذائی قلت یا ناقص غذا سے جا ملیں گے۔ستم بالائے ستم کہ جو بھی خوراک میسر ہے اس میں سے تینتیس فیصد کھیت سے پیٹ تک پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں یا پھر ذخیرے کی صورت یا کسی کی پلیٹ یا کچن میں تیار ہونے کے باوجود ضایع ہو جاتی ہے۔اگر اسی کو محفوظ کر کے ضرورت مند تک پہنچا دیا جائے تو کوئی بھوکا نہ سوئے اور ایک ٹریلین ڈالر کی تیار یہ خوراک بھی ضایع ہونے سے بچ جائے۔اس میں سے آدھی خوراک خوشحال ممالک میں ضایع ہو جاتی ہے۔
اقوام ِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کا اندازہ ہے کہ ناکافی غذائیت کے سبب پیدا ہونے والی جسمانی لاغری اور بیماریوں کے تدارک سے اس دنیا کو ساڑھے تین ٹریلین ڈالر کا پیداواری فائدہ ہو سکتا ہے۔اس رقم سے وہ نظام بنایا جا سکتا ہے جس میں ہر ذی روح کو درکار لازمی کیلوریز لازماً مل سکتی ہیں۔آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ رزق خدا دیتا ہے مگر بھوک انسان نے پیدا کی ہے۔صاف ہوا خدا کی دین ہے مگر اسے زہریلا انسان بنا رہا ہے ، زندگی رواں رکھنے والی سورج کی روشنی سب کے لیے برابر ہے مگر اس کا راستہ روکنے والی آلودگی ایجادِ بندہ ہے۔
پانی ، ہوا اور روشنی سے توانائی پیدا کرنے کے زمانے سے پہلے کی قحط سالی و وبائی امراض کے لیے تو آپ قدرت سے شکوہ کر سکتے تھے مگر آج یہ سب ہونا انسانیت سوز جرائم کی فہرست میں آنا چاہیے۔ خرابی پیداوار میں نہیں تقسیم کے نظام میں ہے جو لالچ پر استوار ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے،یہاںایک زبردست نہری نظام اور قابلِ کاشت زمین بھی وافر ہے۔خدا ترسی کے حساب میں بھی پاکستان کا شمار انسانی مدد و خیرات کرنے والے دس بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔بنیادی اشیائے خورو نوش ، سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار ، انسانی خوراک و صحت کے لیے موزوں نباتات اور ضرورت کے اعتبار سے مال مویشی کی آبادی میں بھی یہ ملک تقریباً خود کفیل ہے۔ دودھ کی پیداوار میں پاکستان عالمی سطح پر پانچویں یا چھٹے نمبر پر ہے۔
پھر بھی کیا کیا جائے کہ چالیس فیصد پاکستانی بچوں کی مکمل ذہنی و جسمانی نشوونما محض اس لیے ممکن نہیں کیونکہ انھیں بڑھوتری کے زمانے میں مناسب اور ضروری خوراک دستیاب نہیں ہوتی۔دس تا پندرہ فیصد پاکستانی بچے ایسے ہیں جنھیں فاقہ کشی کے تجربے سے براہِ راست گذرنا پڑتا ہے۔ایک عام پاکستانی کارکن آج جو کما رہا ہے اس کا ستر فیصد خوراک اور دوا دارو میں ہی صرف ہو جاتا ہے۔آپ کسی بھی دن کے کسی بھی حصے میں کسی بھی خیراتی تنظیم کے دسترخوان یا خدا ترس ریسٹورنٹ کے باہر یا کسی بھی مزار کے احاطے میں لنگر پر پلنے والوں کی تعداد گن لیں۔پہلے سے زیادہ ملے گی۔
اس پر طرفہ یہ کہ پاکستان بھی ان ایک سو تیس ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے اقوامِ متحدہ کے ملینیم ڈویلپمنٹ ہدف پر دستخط کیے ہیں۔اس ہدف کے تحت دو ہزار تیس تک رکن ممالک کو اپنے ہاں بھوک کا لیول زیرو تک لانا ہے۔
عمران خان پہلے پاکستانی وزیرِ اعظم ہیں جنہوں نے اپنی پہلی تقریر میں بھوک اور بیماری کے چرنوں میں اپنا بچپن قربان کرنے والے بچوں کا ذکر کیا۔مگر تدارک کیسے ہو۔آج ایسے جدید سستے پائیدار اور ماحول دوست طریقے کھلے عام دستیاب ہیں جن پر عمل کر کے صاف پانی اور غذائیت کے بحران سے تھوڑے عرصے میں نجات مل سکتی ہے۔مگر ان بے حس انسان نما لالچی دیوتاؤں سے کون سی ریاست اور حکومت لڑنے کی جرات کرے گی کہ جن کا رزق ہی میری بھوک میں، جن کی سیرابی میری پیاس میں اور جن کی صحت ہی میری بیماری میں پوشیدہ ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ