ہر کچھ عرصے بعد نئی اصطلاحات کا فیشن شروع ہو جاتا ہے اور پھر ان کی جگہ مزید نئی اصطلاحات آ جاتی ہیں اور پرانی والی غیر محسوس طریقے سے غائب ہو جاتی ہیں۔جیسے جمِ غفیر ملین مارچ اور جنگوں میں بھاری مادی و جانی نقصان کولیٹرل ڈیمیج ہو گیا ، جھوٹ کے لیے متبادل سچائی ( آلٹر نیٹو ٹرتھ )کی اصطلاح ظہور میں آ چکی ہے۔جنگی طیارہ یا جنگی بحری جہاز اسٹرٹیجک پلیٹ فارم بن چکا ہے۔
نفسیاتی جنگ یا مایوس غیر ریاستی گروہوں کی ریاست سے نبرد آزمائی یا پروکسی گروہوں کا استعمال ففتھ کالمسٹ کی اصطلاح سے ترقی کر کے ففتھ جنریشن وار ہو چکی ہے۔فوج کے شعبہِ تعلقات ِ عامہ کے میجر جنرل آصف غفور سے لے کے وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی تک اور ان کی دیکھا دیکھی بہت سے میڈیا چیمپئن ففتھ جنریشن وار کی اصطلاح نہایت سخاوت سے استعمال کر رہے ہیں۔مگر یہ ففتھ جنریشن وار ہے کیا بلا ؟ جتنے منہ اتنی باتیں۔
ہر فیشن ایبل اصطلاح کی طرح ففتھ جنریشن وار بھی نوے کے عشرے میں امریکی عسکری دانش سے پھوٹی۔ موٹی موٹی تقسیم یوں ہے کہ فرسٹ جنریشن وار قدیم لڑائیاں تھیں جن میں دشمن پر غلبے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ جس قبیلے ، ریاست یا بادشاہت کی فوج عددی اعتبار سے بڑی ہوگی وہی کامیاب ہو گی۔سیکنڈ جنریشن وار کا تصور یہ تھا کہ جس کے پاس دشمن سے بہتر اسلحہ ، تیز رفتاری اور بہتر فوجی تربیت ہوگی وہی کامیاب ہوگا۔یہ دور منجنیق اور آتشیں تیروں سے شروع ہوا ، برق رفتار منگول گھڑ سواروں سے ہوتا بارودی بندوقوں کا مرحلہ پار کر کے انیسویں صدی کے اواخر تک بھاپ سے چلنے والے بحری جہازوں اور مشین گن کے متعارف ہونے پر ختم ہوا۔
تھرڈ جنریشن وار میں حربی جدت کاری کے ساتھ ساتھ دشمن کو حیران کر دینے والی اچانک حکمتِ عملی اور جنگی چالوں پر زور رہا۔اس کا ابتدائی مظاہرہ پہلی عالمی جنگ میں ہوا اور دوسری عالمی جنگ میں ہٹلر کی بلٹز کریگ پنسر حکمتِ عملی سے نارمنڈی کے ساحلوں پر اتحادیوں کی پانسہ پلٹ لینڈنگ اور جاپان کے خلاف ایٹم بموں کے بھونچکا کر دینے والے استعمال اور پھر انیس سو چھپن کی جنگِ سویز ، انیس سو سڑسٹھ اور تہتر کی عرب اسرائیل جنگوں میں دشمن کو ششدر و مفلوج کر دینے کی حکمتِ عملی تک عروج پر پہنچ گیا۔
فورتھ جنریشن وار فیصلہ کن بے پناہ طاقت کا سرعت سے استعمال کر کے دشمن کو مفلوج و مغلوب کر دینے والی حکمتِ عملی کا مظاہرہ تھا۔کویت پر پوری قوت کے ساتھ اچانک عراقی قبضہ ، عراق کو کویت سے صرف بہتر گھنٹے میں کھدیڑنے کی امریکی اتحادیوں کی فیصلہ کن حکمتِ عملی اور پھر عراقی فوج کا دورانِ پسپائی کچلا جانا ، نائن الیون کے بعد افغانستان پر ڈیزی کٹر بمباری اور کابل پر سرعت کے ساتھ شمالی اتحاد کی امریکی حمائیت یافتہ ملیشیا کا قبضہ ، دو ہزار تین میں عراق پر مسلسل بے پناہ بمباری کے بعد امریکی بری فوج کی بغداد تک تیز رفتار پیش قدمی۔یہ سب فورتھ جنریشن وار کے نمونے ہیں۔
مگر اس کے ساتھ ہی ففتھ جنریشن وار بھی شروع ہو گئی۔نوے کی دہائی میں عراق کی مسلسل اقتصادی ناکہ بندی کے ذریعے اسے اندر سے کھوکھلا کرنا ، عراق کے کیمیاوی و حیاتیاتی اسلحے اور وسیع تر تباہی کے ہتھیاروں کے ذخیرے اور صلاحیت کے بارے میں انتہائی مبالغہ آمیز پروپیگنڈے کے ذریعے اسے بین الاقوامی اچھوت میں تبدیل کرنا۔اس کے بعد عراق کو مکمل طور پر فتح کرنا بچوں کا کھیل ثابت ہوا۔
نائن الیون میں ورلڈ ٹریڈ ٹاورز کی تباہی کے ذریعے سب سے بڑی سپر پاور کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ نے اعلان کیا کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز بھی ففتھ جنریشن وار کا عامل فریق بن چکے ہیں۔اس واقعے نے جہاں امریکا کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے سحر کو توڑا وہیں القاعدہ کے ہاتھ پرکشش پروپیگنڈے کا قیمتی ہتھیار بھی آگیا۔اس کشش کے سبب القاعدہ ایشیا سے افریقہ تک مقامی جنگجوؤں کے لیے ایک موثر فرنچائز ہو گئی۔اور القاعدہ کی کوکھ سے جنم لینے والی داعش نے پروپیگنڈے اور سرپرائز کے عنصر کو ساتھ ملا کر ففتھ جنریشن وار کے آرٹ کو مزید سیقل کر دیا۔
ہم ففتھ جنریشن وار میں غیر علانیہ کم خرچ بالا نشیں پراکسی جنگوں کو بھی شامل کر سکتے ہیں جو روایتی کمر توڑ مہنگی جنگوں کے مقابلے میں برس ہا برس جاری رکھی جا سکتی ہیں۔ پراکسی جنگوں کا مقصد تیز رفتار کامل فتح حاصل کرنے سے زیادہ دشمن کو مسلسل مصروف رکھنا اور چرکوں پر چرکے لگاتے رہنا ہے تاکہ دشمن جھنجھلاہٹ اور خوف کے عالم میں حواس باختہ ہو کر ایسی حرکتیں شروع کر دے کہ جن کے بارے میں مزید پروپیگنڈہ کر کے علاقائی و عالمی سطح پر مزید تنہا اور بدنام کر کے الگ تھلگ اور کمزور کیا جا سکے۔
ففتھ جنریشن وار کا ایک حصہ ذہنی خلفشار ، احساس عدم تحفظ یا احساسِ کمتری پیدا کرنا بھی ہے۔کامیابی کی صورت میں دشمن کو زیر کرنا اور آسان ہو جاتا ہے۔یہ جنگ سائبر اسپیس سے لے کر انتخابی عمل میں غیر مرئی مداخلت اور جعلی خبروں و تصاویر کے ذریعے نفاق اور کنفیوژن پیدا کرنے تک ہر محاذ پر لڑی جاتی ہے۔ جیسے امریکی صدارتی انتخابات میں جعلی خبروں کا پھیلاؤ اور اس تناظر میں روسی مداخلت کے شبہات امریکی نظام ِ انتخاب پر ایک سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔
ایک برطانوی مشاورتی کمپنی کیمبرج اینیلٹیکا جو حال ہی میں ختم ہو گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے فیس بک اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز سے حاصل کروڑوں صارفین کے بلا اجازت حاصل کیے گئے ڈیٹا کو متعدد ممالک کے شہریوں کو ایک خاص طرح کی رائے مرتب کرنے اور ووٹروں کو ایک خاص رجحان کی طرف جھکانے کے لیے سائنسی چابک دستی سے استعمال کیا۔کہا جاتا ہے کہ کیمبرج اینیلٹیکا نے اوباما کے دوسرے دورِ حکومت میں امریکی کانگریس کے وسط مدتی انتخابات میں امریکی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے، گزشتہ صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کو جتوانے اور برطانیہ میں بریگزٹ کے حامی کیمپ کو کامیاب کروانے کے علاوہ دنیا بھر میں تقریباً دو سو انتخابی مہمات پر پچھلے آٹھ برس میں اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔
کیمبرج اینلٹیکا کی خدمات سے میکسیکو کی سابق حکمران پارٹی پی آر آئی ، کینیا کی حکمران جماعت کے علاوہ بھارت میں بی جے پی اور کانگریس نے بھی استفادہ حاصل کیا اور ووٹروں کی رائے کو ایک خاص رخ دینے کی کوشش کی۔مجھے نہیں معلوم کہ اس مذکورہ عمل کو ففتھ جنریشن وار کے تشریحی دائرے میں شامل کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان میں گزشتہ عام انتخابات کو ایک خاص سمت میں لے جانے کے عمل کو ففتھ جنریشن وار کی کیٹگری میں رکھا جانا چاہیے کہ نہیں۔
اگر ففتھ جنریشن وار کے اجزائے ترکیبی کو پوری طرح سمجھے بغیر اس کے کمبل میں ہر محروم یا مخالف طبقے کے غصے یا ناپسندیدہ مطالبات کو لپیٹنے کی کوشش کی جائے تو خطرہ یہ ہے کہ جو عناصر واقعی ففتھ جنریشن وار کے اصل جنگجو ہیں وہ اس کنفیوژن کا فائدہ اٹھا کر ریاست ، ریاستی اداروں اور شہریوں کے لیے مزید خطرات اور عدم تحفظ کا موجب بن سکتے ہیں۔
لہذااس اصطلاح کو اندھے کی لاٹھی کی طرح گھمانے کے بجائے دیکھ بھال اور احتیاط سے استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ اس کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو ہر ایرے غیرے پر انسدادِ دہشت گردی کی دفعات اندھا دھند ٹھوکنے کے نتیجے میں ہو رہا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ