سیاستدان ہو کہ صحافی دونوں کو زندہ رہنے کے لیے خبر چاہیے۔ اور خبر بھی کراچی، لاہور، پشاور یا اسلام آباد میں چاہیے۔ پارہ چنار میں 24 افراد کی ہلاکت اور 74 کا زخمی ہونا ایک اور افسوس ناک واقعہ ضرور ہے مگر خبر نہیں۔ اگر ہے بھی تو تین بلیٹنز کے بعد چوتھے گھنٹہ وار بلیٹن کی شہ سرخی بننے کے قابل نہیں۔ خیبر ایجنسی میں نمازِ جمعہ کے موقع پر ایک مسجد میں بم پھٹنا اور تیس سے زائد نمازیوں کا مرنا کافی نہیں۔ آپریشن ضربِ عضب کے لیے ضروری ہے کہ کم ازکم کراچی ایئرپورٹ پر حملے میں دس دہشت گرد مارے جائیں۔ نیشنل ایکشن پروگرام اور فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے کوئٹہ کی ہزارہ برادری کی نسل کشی اور ہزاروں کی تعداد میں ہجرت اور یوحنا آباد اور گوجرہ کی کرسچن بستیوں کا جلنا کافی نہیں تاوقتیکہ پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ڈیڑھ سو بچے اور اساتذہ نہ مریں۔ آپریشن ردّ الفساد اور فوجی عدالتوں کا احیا تبھی ممکن ہے جب لاہور کے چیئرنگ کراس پر دس شہریوں کی ہلاکت اور پاک افغان سرحد بند کرنے کے لیے سیہون میں 72 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو جائے۔ کوئٹہ سول ہسپتال میں پچاس وکلا اور شاہ نورانی کے مزار پر ساٹھ سے زائد لاشیں گرنے سے کام نہیں چلے گا۔
حالانکہ پارہ چنار پاک افغان سرحد سے ایک پتھر کی مار پر ہے مگر یہ کوئی ایسا بڑا واقعہ تو نہیں جس کے لیے کابل حکومت سے رسمی احتجاج بھی کیا جا سکے۔ چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بڑے بڑے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں۔ چلڈرن آف لیسر گاڈ۔۔۔ خبر تو اصل میں یہ ہے کہ پاناما کیس کا فیصلہ اگلے ہفتے سنایا جائے گا کہ نہیں۔ خبر یہ ہے کہ فاسٹ باؤلر محمد عرفان کو چھ ماہ کے لیے قومی کرکٹ کھیلنے سے روک دیا گیا۔ خبر تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کو سندھ ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کر دیا۔ خبر تو یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی نے کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف دو گھنٹے کے لیے شاہراہِ فیصل بند کردی۔ اور سب سے بڑی خبر تو یہ ہے کہ عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تاکہ یہ یقین کیا جا سکے کہ جنرل صاحب آج بھی جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں کہ نہیں۔ یہ چیک کیا جا سکے کہ تھرڈ ایمپائر کی انگلی اب بھی کام کرتی ہے کہ نہیں۔
اور اس سے بھی بڑی خبر مریم نواز کی یہ ٹویٹ ہے کہ وزیرِ اعظم کے گردے میں ایک چھوٹی سی پتھری ہے مگر آپریشن کی ضرورت نہیں۔ وزیرِ اطلاعات مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم کے پیٹ میں کچھ درد سا اٹھا تاہم اللہ تعالی کے فضل و کرم سے وزیرِ اعظم اپنے فرائض بخیر و خوبی انجام دے رہے ہیں۔ یہ اتنی بڑی خبر ہے کہ دو نیوز چینلز کے ٹاک شوز میں ان اسباب کا سیر حاصل تجزیہ بھی ہوگیا کہ ایسے وقت جب پاناما کیس کا فیصلہ سر پر ہے وزیرِ اعظم کے پیٹ میں درد اٹھنے کا مطلب اور مقصد کیا ہے؟ کیا یہ ججوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش تو نہیں؟ کہنے کو پاکستان کا رقبہ سات لاکھ چھیانوے ہزار پچانوے مربع کلومیٹر اور آبادی اٹھارہ سے بیس کروڑ کے درمیان ہے۔ لیکن میڈیا کے خبری نقشے کا پاکستان دیکھا جائے تو یہ ملک چھ شہروں (اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ، لاہور اور کراچی) پر مشتمل ہے جس کا رقبہ دس ہزار دو سو تئیس مربع کلو میٹر اور آبادی پانچ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس میڈیائی پاکستان کو چھینک بھی آ جائے تو بریکنگ نیوز ہے۔ اور باقی پاکستان خود کشی کر لے تب بریکنگ نیوز ہے۔ پیمرا جب لائسنس بانٹ رہا تھا تو جانے عقل کہاں بٹ رہی تھی؟
(بشکریہ:بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ