چین کے صوبہ سنکیانگ میں مسلمانوں پر داڑھی رکھنے اور پردہ کرنے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق سنکیانگ کے حکام نے اس بارے میں نیا قانون منظور کیا ہے۔ اس قانون کے تحت اب برقعہ پہننے والی خواتین کو پبلک مقامات پر جانے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ اسی طرح مردوں کو ایک خاص حد سے زیادہ لمبی داڑھی رکھنے سے روکا جائے گا۔ اس طرح کی پابندیوں پر پہلے بھی عمل کروایا جاتا ہے اور اس صوبہ سے چینی حکام کی زیادتیوں کے بارے میں اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں۔ لیکن تازہ قانون کے تحت اب حکام لوگوں کو ان پابندیوں کے لئے مجبور کرسکیں گے اور خلاف ورزی پر سزا دی جا سکے گی۔ اگرچہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات سامنے آتے ہیں لیکن کسی بھی ملک میں انہیں اپنے دینی عقائد کے مطابق عمل کرنے سے روکنے کی ایسی کوشش کبھی نہیں کی گئی۔ یہ اقدامات بنیادی انسانی حقوق اور عالمی معاہدوں کے منافی ہیں۔ سنکیانگ چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے ۔ اس کی آبادی 22 ملین کے لگ بھگ ہے جن میں نصف آبادی یغور مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ روایتی طور پر مسلمان رہے ہیں اور اپنی زبان اور ثقافت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ تاہم 1949 میں چین کی کمیونسٹ حکومت نے آزاد مشرقی ترکستان کی حکومت ختم کرکے اسے اپنے ملک کا ایک صوبہ بنالیا تھا۔ اس وقت اس علاقے کی 80 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ لیکن سرکاری سرپرستی میں ایک طرف مسلمانوں کی ثقافت اور رہن سہن کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف مسلمانوں کو اپنے ہی علاقے میں اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے بڑی تعداد میں ہان چینی باشندوں کو اس علاقے میں نقل مکانی پر آمادہ کیا گیا اور انہیں مراعات دے کر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز کیا گیا۔ جبکہ مسلمان آبادی کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان حالات میں ترکستان اسلامی پارٹی کے نام سے چین سے علیحدگی کی تحریک بھی چلائی جارہی ہے جسے چین طاقت کے زور پر دباتا رہا ہے۔ بعض علیحدگی پسند یغور باشندوں نے عسکری گروہ بھی منظم کئے ہیں جو اپنے وطن کی آزادی کے لئے مسلح جد و جہد پر یقین رکھتے ہیں۔ چین انہیں دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے۔
یغور باشندوں کا کہنا ہے چین نے 1949 میں ناجائز طور پر مشرقی ترکستان پر قبضہ کیا تھا اس لئے انہیں علیحدہ ہونے کا حق حاصل ہے۔ اس سیاسی بحث سے قطع نظر چینی حکومت کی طرف سے اس علاقے کی مسلمان آبادی کے خلاف غیر انسانی پالیسیاں قابل مذمت ہیں۔ چین کی سیاسی اور اقتصادی حیثیت کی وجہ سے اس قسم کے ظالمانہ فیصلوں پر دنیا کی طرف سے کوئی خاص رد عمل دیکھنے میں نہیں آتا۔ خاص طور سے مسلمان ملکوں میں تو یغور مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی آگاہی بھی موجود نہیں ہے۔ حالانکہ سنکیانگ کے ایک کروڑ سے زائد مسلمان ریاستی جبر کا شکار ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان طویل مدت سے قریبی تعلقات استوار ہیں۔ اب پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبہ کے تحت ان تعلقات کو مزید مستحکم کیا جارہا ہے۔ اس راہداری میں سنکیانگ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے چونکہ گوادر سے آنے یا جانے والا تجارتی اسباب اسی صوبے کے راستے چین پہنچے گا۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں تیل اور معدنیات کے وسیع ذخائر کا سراغ لگایا گیا ہے۔ چین میں قدرتی گیس کا سب سے بڑا ذخیرہ بھی سنکیانگ میں ہی موجود ہے۔ اس کے باوجود چینی حکام مسلمانوں کے ساتھ مفاہمت کی حکمت عملی کی بجائے ان کی قوت کم کرنے اور ان کے حقوق سلب کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کے حوالے سے کوئی واقعہ سامنے آئے تو پاکستان میں اس پر احتجاج اور مذمتی بیانات سامنے آتے دیر نہیں لگتی۔ یورپ اور امریکا کے اکا دکا واقعات کو میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور ان پر مباحث بھی ہوتے ہیں لیکن سنکیانگ کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر حکومت یا مذہبی رہنما خاموشی اختیار کرنا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔ میڈیا بھی ایسی خبروں کو پھیلانے سے گریز کرتا ہے۔ حیرت ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا درد محسوس کرنے والے اور یورپ میں برقع و حجاب کے بارے میں مباحث کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دینے والے سنکیانگ میں زبردستی اسلامی شعائر ختم کروانے کی سرکاری مہم پر مہر بہ لب رہتے ہیں۔ حیرانی ہوتی ہے کہ کیا یہ اسی ملک کے عوام اور رہنما ہیں جو عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے اقدام نہ کرنے پر تو اپنی ہر حکومت کومطعون کرتے ہیں لیکن یغور مسلمانوں کے خلاف قانون سازی اور جبری اقدامات پر معمولی نکتہ چینی کرنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔
(بشکریہ:کاروان)
فیس بک کمینٹ