اس صبح مجھے سکول سے خاصی تاخیر ہو چکی تھی، اور میں ڈانٹ ڈپٹ سے ڈرا ہوا تھا۔ خاص طور پر سر ہامل نے کہا ہوا تھا کہ وہ اسم صفت اور فعل کا امتحان لیں گے، اور مجھے ان کے بارے میں ٹھیک سے پتہ نہیں تھا۔ ایک لمحے کے لئے میں نے سکول سے دور رہنے اور کھیتوں میں آوارہ گردی کا سوچا، یہ ایک گرم اور خوبصورت دن تھا۔ درختوں کے تنوں پر بیٹھے سیاہ پرندوں کی سیٹیاں سن سکتا تھا اور سرخ کھیتوں کے اس طرف لکڑی کاٹنے کے کارخانے میں پرشیا کے لوگ جو آرا مشین چلا رہے تھے، میں یہ سب اس لئے کرنا چاہتا تھا کہ امتحان سے بچ سکوں مگر میرے اندر مزاحمت کی طاقت نہیں تھی اور میں اتنی تیزی سے سکول کی طرف دوڑا جتنا تیز میں چل سکتا تھا۔
میں جیسے ہی کوتوال کے دفتر کے پاس سے گزرا میں نے دیکھا یہاں چند لوگ ایک بورڈ کے گرد جمع تھے جس پر نوٹس آویزاں کیا گیا تھا۔ گزشتہ دو سالوں سے ہماری تمام بری خبریں اسی بورڈ پر آویزاں کی جاتی تھیں۔ ”ہم جنگ ہار گئے“ ہیڈ کوارٹر کی طرف سے فوج میں جبری بھرتی کا حکم، میں نے بغیر رکے سوچا ”اب کیا ہو گا؟“ پھر جب میں دوڑتے ہوئے چوک کے پاس سے گزرا۔ ایک محافظ لوہار جو اپنے شاگردوں کے ساتھ کھڑا ”اعلان نامہ“ پڑھ رہا تھا مجھے پکار کر کہا ”بچے…. اتنی جلدی نہ کرو، تم جلد ہی سکول پہنچ جاؤ گے“۔ میں نے سوچا وہ مذاق کر رہا ہے۔ میں دوڑا سر ہامل کے چھوٹے سے حصے کی طرف جو سکول میں اس کے لئے وقف تھا پھولی ہوئی سانس کے ساتھ۔ عام طور پر اس وقت سکول کے آغاز کے وقت بہت شور ہوتا تھا جو گلیوں میں بھی سنائی دیتا۔ ڈیسک کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں، اکٹھے ہو کر سبق دہرانے کی آوازیں، ہمارے کان اس کے عادی ہو چکے تھے اور استاد کا بید جسے وہ ڈیسک پر مارتے رہتے۔
”ایک دم خاموشی؟“
عام دنوں میں میں اپنے ڈیسک تک پہنچنے تک اس شور پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا۔ مگر اس دن مکمل خاموشی تھی۔ ایک اتوار کے دن کی طرح۔
اگرچہ میں دیکھ سکتا تھا کمرے کی کھڑکیوں سے کہ میرے ساتھی اپنی جگہوں پر پہلے ہی بیٹھے تھے اور سر ہامل کمرے میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ ایک آہنی رولر اپنی بغل میں دبائے۔ میں نے دروازہ کھولا اور اس مکمل خاموشی کے ماحول میں داخل ہو گیا۔ آپ اندازہ کر سکتے ہو۔ میں شرما رہا تھا اور خوفزدہ بھی تھا، لیکن نہیں! سر ہامل نے میری طرف دیکھا ان کی نظر میں غصہ نہیں تھا بہت تحمل تھا۔
”فوراً اپنی نشست پر پہنچ جاؤ میرے چھوٹے فرانڑز، ہم تمہارے بغیر ہی شروع کرنے والے تھے“۔
میں نشست کی طرف بڑھا اور فوراً بیٹھ گیا۔ اس وقت تک میں اپنی گھبراہٹ پر جزوی طور پر قابو پا چکا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارا استاد آج اپنا خوبصورت نیلے کوٹ پہنے ہوئے ہے۔ دھاری دار گلوبند اور سیاہ ریشمی کڑھائی والا پاجامہ جسے وہ صرف ان دنوں میں پہنتے جب تقسیم انعامات کا موقع ہوتا یا سکول کے آغاز کا دن۔ اس کے علاوہ جماعت میں گہری سنجیدگی تھی مگر میرے لئے سب سے حیرانی کا باعث کمرے کا وہ پچھلا حصہ تھا جو عام طور پر خالی رہتا تھا۔ وہاں گاؤں کے چند لوگ بیٹھے تھے، اتنے ہی خاموش جتنے ہم۔ تین کونوں والے ہیٹ پہنے معزز بزرگ، سابق کوتوال، سابق پوسٹ ماسٹر اور ان کے ساتھ اور لوگ۔ وہ سب پریشان لگ رہے تھے۔ اور معززین کے پاس پرانے ہجوں ولی ایک کتاب تھی جس کے کونے کُترے ہوئے تھے۔ جسے ان میں سے ایک نے اپنے گھٹنوں پر کھول کر رکھا ہوا تھا اور اپنی عینک کو ترچھا کیا ہوا تھا۔
اسی دوران جب میں اس سب پر حیران ہو رہا تھا۔ سر ہامل نے آغاز کیا اور یہ اتنا ہی تحمل آمیز اور سنجیدہ آواز میں تھا جسے انہوں نے مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے اپنایا تھا۔ انہوں نے ہم سے کہا۔ میرے بچو! یہ آخری دفعہ ہے جب میں تمہیں پڑھاؤں گا۔ برلن سے حکم آیا ہے کہ السیشن اور لوریانی میں جرمن زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں کچھ نہ پڑھایا جائے۔ نیا استاد کل آ جائے گا۔ فرانسیسی کی یہ آخری جماعت ہے۔ تو میری درخواست ہے بہت توجہ سے سنو۔ ان چند الفاظ نے مجھے مغلوب کر دیا۔ اچھا یہ وہ بدمعاشی تھی جو کوتوالی کے دفتر کے سامنے آویزاں تھی۔
فرانسیسی میں میری آخری جماعت!
میں ابھی ٹھیک سے لکھنا نہیں جانتا تھا، تو میں نہیں سیکھ سکوں گا۔ میں یہیں رک جاؤں گا جہاں میں ہوں۔ میں اپنے ساتھ بہت ناراض تھا کہ میں نے کتنا وقت ضائع کیا۔ وہ سبق جو میں نے چھوڑ دئیے۔ میں گھونسوں کے پیچھے بھاگتے سارا دن دریا میں پھسلتے ہوئے گزاردئیے، میری کتابیں جو صرف لمحہ بھر پہلے تھکا دینے والی لگ رہی تھیں، اتنی بھاری کہ اٹھانا مشکل، میری گرامر کی کتاب میری مقدس تاریخ کی کتاب اب مجھے پرانے دوستوں کی طرح محسوس ہو رہی تھیں جن سے مجھے بچھڑ جانے کا خوف پیدا ہوا اور ایسا ہی سر ہامل کے بارے میں بھی۔ ایسا خیال کہ وہ دور جا رہا ہے اور میں اسے پھر کبھی نہیں مل سکوں گا۔ مجھے ان کی دی ہوئی سزائیں بھول گئیں۔
بیچارہ! یہ آخری سبق کا تقدس تھا کہ اس نے یہ لباس پہننا تھا اور اب مجھے گاؤں کے ان معززین کی کمرے میں موجودگی بھی سمجھ آ گئی۔ ایسا لگتا تھا انہیں کبھی کبھی سکول نہ آنے کا پچھتاوا تھا۔ ہمارے استاد کی ایماندارانہ چالیس سال کی نوکری کا شکریہ ادا کرنے کا ایک طریقہ تھا اور اجداد کی سرزمین کو عزت دینے کا جو اب برباد ہو رہی تھی۔ میں انہی خیالات میں گم تھا کہ مجھے اپنا نام پکارنے کی آواز آئی۔ یہ میری سبق کی قراءت کرنے کی باری تھی۔ میں کیوں اسم کی حالتوں کے اصولوں کو شروع سے آخر تک پڑھنے کے قابل نہیں تھا۔ اونچی آواز میں بغیر اٹکے۔ لفظوں کو پہلے لفظوں سے ملا جلا دیا اور اپنی نشست پر کھڑا جھوم رہا تھا، بھاری دل کے ساتھ سر اٹھانے سے خائف۔ میں نے سر ہامل کو کہتے سنا۔ میں تمہیں ماروں گا نہیں۔ میرے چھوٹے فرانٹز۔ تم بہت سزا بھگت چکے۔ ایسے ہی ہر دن ہم خود سے کہتے ہیں کہ ابھی کافی وقت ہے۔ میں اسے کل یاد کر لوں گا۔ اور پھر تمہیں پتہ ہے کیا ہوتا ہے۔؟
آہ ہمارے السیشنوں کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم آج کا سبق کل پر ڈال دیتے ہیں۔ اب وہ لوگ ہمارے بارے میں کہتے ہیں ”تم فرانسیسی ہونے کا دعویٰ کیسے کرو گے؟، تم فرانسیسی زبان نہ بول سکتے ہو نہ پڑھ سکتے ہو۔ اس صورت حال میں پیارے فرنٹرز صرف تم نادم نہیں ہو۔ اپنے آپ کو مخاطب کریں تو ان ملامتوں میں ہم سب حصہ دار ہیں۔
تمہارے والدین اس بارے میں محتاط نہیں ہیں کہ تم نے کیا تعلیم پائی؟ وہ تم کو کھیتوں یا کارخانے میں کام کرنے کے لئے بھیج دیں گے۔ چند سوس کمانے کے لئے۔ اور میں خود کو ملامت کیوں نہ کروں؟ میں نے کیا تمہیں اپنے باغ کو پانی دینے کے لئے بھیجا بجائے پڑھنے کے؟ اور جب میں دریائی مچھلی کے شکار پر گیا کیا میں نے تمہیں وہاں دیکھ کر تمہاری حوصلہ شکنی کی؟
ایک بات سے دوسری بات نکالتے سر ہامل نے فرانسیسی زبان کے بارے میں گفتگو شروع کی۔انہوں نے کہا یہ دنیا میں خوبصورت ترین زبان تھی۔ نہایت صاف، برقرار رہنے والی، ہم اسے یاد رکھتے ہیں اور کبھی نہیں بھولتے۔ جب کوئی آدمی غلام بن جاتا ہے ”جتنا زیادہ وہ اپنی زبان سے جڑا رہتا ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسی اس کی قید کی کنجی زبان میں ہے“ اس کے بعد سر نے گرامر کی کتاب اٹھائی اور ہمارا سبق پڑھا۔ میں حیران ہوا کہ کتنی آسانی سے میری سمجھ میں آ گیا۔ جو کچھ انہوں نے کہا مجھے نہایت آسان محسوس ہوا۔ بہت آسان۔ میں جانتا ہوں کہ پہلے میں نے اتنے غور سے نہیں سنا اور یہ ان کی وجہ سے بھی تھا کہ اس سے پہلے انہوں نے سمجھاتے وقت اتنے تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ایسا کہا جا سکتا ہے کہ بیچارہ استاد جاتے ہوئے ہمیں سارا علم سونپنے کی خواہش رکھتا ہے۔ ایک ہی پھونک سے ہمارے ذہنوں میں بھرنا چاہتا ہے۔
جب سبق ختم ہوا ہم لکھنے کی طرف آئے اور اس دن سر ہامل کچھ بالکل ہی نئی مثالیں تیار کر کے لائے تھے، جو انہوں نے اپنے ہاتھ سے خوشخط کر کے لکھیں۔ ”فرانس، الساس، فرانس، الساس، یہ چھوٹے چھوٹے جھنڈوں کی طرح تھیں تمام جماعت میں لہراتے ہوئے، ہماری نشستوں پر معلق۔ آپ دیکھ سکتے ہیں ہم نے کتنی محنت سے کام کیا اور کتنی خاموشی سے۔ حتیٰ کہ کاغذ پر پن کی رگڑ بھی سنائی نہیں دی۔ ایک بار ایک مرغا اندر آ گیا مگر کسی نے اس پر دھیان نہیں دیا۔ نہ ہی ان چھوٹے بچوں نے جو ابھی سیدھی لکیر بھی نہیں کھینچ سکتے تھے مگر خواہش اور شعوری طور پر لکیریں بنا رہے تھے جیسے یہ لکیریں فرانسیسی ہیں۔
سکول کی چھت پر کبوتر آہستگی سے بول رہے تھے اور میں نے اپنے آپ سے کہا جیسے میں نے ان کو سنا۔
”میں حیران ہوں گا اگر وہ ان کو زبردستی جرمن زبان میں گانے کے لئے کہیں گے“۔ دیر بہ دیر جب بھی میں نے کاغذ سے نظریں اٹھائیں میں نے سر ہامل کو کرسی پر ساکت بیٹھے پایا۔ سب چیزوں کو گھورتے ہوئے جیسے وہ اپنے ساتھ اس چھوٹے سے سکول کو بھی اٹھا لے جانا چاہتے ہیں ۔ ذرا سوچو! چالیس سال سے وہ یہاں ہیں۔ سکول کا ایک مخصوص حصہ، جماعت کے سامنے جیسا کہ اس وقت کے ساتھ ساتھ جماعت کے ڈیسک استعمال سے خراب ہوتے رہے ان کی پالش ہوتی رہی۔ احاطے میں لگا اخروٹ کا درخت بڑا ہو گیا۔ انگور کی بیل جسے انہوں نے خود لگایا تھا۔ اب کھڑکی سے ہوتی ہوئی چھت تک پہنچ چکی۔ کتنی دل دکھانے والی چیزیں ہیں۔ اس بیچارے آدمی کے لئے کہ اسے ان سب چیزوں کو چھوڑنا پڑ رہا ہے۔ اس کی بہن کمرے میں چکر کاٹ رہی ہے اور سامان باندھ رہی ہے کیونکہ کل انہوں نے جانا ہے۔ اس خطے سے ہمیشہ کے لئے۔
تاہم ان میں آخر تک جماعت کو پڑھانے کی ہمت تھی۔ لکھنے کے بعد وہ تاریخ کے مضمون کی طرف آئے اور تمام چھوٹے بچوں نے مل کر گایا با…. بی…. بی…. بو…. بو…. وہاں کمرے کے پچھلے حصے میں بوڑھے معززین نے اپنی عینکیں پہن لیں اور قدیم ہجوں والی کتاب کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ انہوں نے بھی بچوں کے ساتھ ہجے کرتے ہوئے آواز ملائی۔ میں نے دیکھا سر بھی اپنی آواز ساتھ ملا رہے تھے۔ ان کی آواز جذبات سے بھرا گئی۔ اور میرے لئے ان کو ایسے دیکھنا ایک مزاحیہ بات لگ رہی تھی۔ ہم سب ہنس رہے تھے رو رہے تھے، آہ…. میں اس آخری جماعت کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔
اچانک گرجے کی گھڑی نے بارہ بجائے، دعائے تبشیر پڑھی گئی۔ اسی دوران پروشیاﺅں کے مشق سے لوٹنے کا نقارہ بجایا گیا اور ان کی للکار کی آواز ہماری کھڑکیوں سے اندر آتی سنائی دی۔
سر ہامل موت کی طرح زرد، اپنی کرسی سے اٹھے اس سے پہلے وہ مجھے کبھی اتنے لمبے محسوس نہیں ہوئے۔
”میرے دوستو“ انہوں نے کہا…. ”میرے دوستو، میں…. میں….“
مگر کسی چیز نے ان کی آواز کو گھوٹ دیا۔ وہ اپنا جملہ مکمل نہ کر سکے۔
وہ تختہ سیاہ کی طرف بڑھے، چاک کا ایک ٹکڑا اٹھایا، اور اپنی تمام ہمت جمع کر کے اتنے بڑے حروف میں لکھا جتنا وہ لکھ سکتے تھے۔
”فرانس دائم آباد“
پھر وہ اپنا سر دیوار کے ساتھ لٹکائے وہاں کھڑے رہے، بغیر کچھ بولے۔ انہوں نے ہمیں اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، ”بس…. جاؤ“۔
فیس بک کمینٹ