صدر جنرل پرویز مشرف پر تین حملے ہوئے۔ پہلا سنہ دو ہزار میں کامران عاطف نے کیا۔ اسے دو ہزار چھ میں سزائے موت سنا دی گئی۔ دوسرا چودہ دسمبر دو ہزار تین کو راولپنڈی کے جھنڈا چیچی پل پر اور تیسرا اسی جگہ سے کچھ فاصلے پر گیارہ روز بعد ہوا۔ دونوں حملوں میں فضائیہ اور بحریہ کے چودہ جونئیر رینکرز ملوث پائے گئے۔ کورٹ مارشل میں تیرہ کو سزائے موت اور ایک کو عمر قید ملی۔ ان میں سے ایک (عدنان رشید) مفرور ہے یا مارا گیا کچھ نہیں معلوم۔ مگر یہ کیسز یوں تیزی سے نمٹ گئے کیونکہ سب ملزموں کا تعلق کالعدم دہشت گرد تنظیموں سے ثابت کر دیا گیا۔
انیس سو بیاسی میں ضیا الحق کے فالکن طیارے پر چکلالہ ایئرپورٹ سے ٹیک آف ہوتے ہی سام میزائل سے حملہ ہوا۔ میزائیل فائر کرنے والے الذولفقار کے اناڑی لمڈے تھے۔ پکڑے گئے اور سزا پائی۔
مگر انہی ضیا الحق کا سی ون تھرٹی طیارہ جب چھ برس بعد سترہ اگست انیس سو اٹھاسی کو فضا میں پھٹا تو یہ کام کسی الذولفقار یا مذہبی دہشت گرد نے نہیں کیا تھا۔ لہٰذا نصف درجن ملکی و بین الاقوامی تحقیقاتی کوششوں کے باوجود آج تک نہیں معلوم کہ آموں کی پیٹی یا بے ہوش کر دینے والی گیس کا سلنڈر یا کچھ اور کس نے کس کے کہنے پر کیسے نصب کیا۔
ضیا الحق کی موت سے چار ماہ قبل دس اپریل انیس سو اٹھاسی کو اوجھڑی کیمپ پھٹ گیا۔ وفاقی وزیر خاقان عباسی سمیت سو سے زائد افراد ہلاک اور ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ اگر صرف دہشت گرد کارروائی ہوتی تو ایک ہفتے میں حقائق سامنے آجاتے۔ جونیجو حکومت نے حقائق اور ذمہ داروں کا کھوج لگانے کے لیے اسلم خٹک کی قیادت میں ایک پارلیمانی کمیٹی اور لیفٹننٹ جنرل عمران اللہ کی قیادت میں عسکری کمیٹی بنائی۔عسکری کمیٹی نے وزیرِ دفاع رانا نعیم احمد کو حتمی رپورٹ پیش کردی۔
اوجھڑی حادثے کے انچاس روز بعد جونیجو کا دھڑن تختہ ہو گیا۔ اگلے ہی روز بقول رانا نعیم آئی ایس آئی نے میرے دفتر پر چھاپہ مارا۔ جو اشیا اٹھائی گئیں ان میں وہ بریف کیس بھی تھا جس میں اوجھڑی کیمپ کی رپورٹ تھی۔ باقی چیزیں واپس کر دی گئیں۔ بریف کیس رکھ لیا گیا۔ آج انتیس برس بعد بھی اوجھڑی کی کہانی بس ایک حادثہ ہے۔
راولپنڈی کمپنی باغ میں لیاقت علی خان کا قتل اگر صرف سید اکبر کی گولی سے ہوا تو پھر ایس پی خان نجف خان نے سید اکبر سے قیمتی راز اگلوانے کے لیے زندہ پکڑنے کے بجائے سب انسپکٹر محمد شاہ کو اسے گولی مارنے کا حکم کیوں دیا؟
لیاقت قتل کیس تحقیقاتی کمیشن کی اڑتیس سماعتوں میں نواسی گواہ پیش ہوئے۔ کمیشن نے تین مرحلوں پر مشتمل سازش کا امکان ظاہر کیا۔ قاتل سید اکبر سے متعلق تحقیقی مواد جاری کر دیا گیا۔ باقی مواد کے بارے میں کمیشن کی رائے تھی کہ اس کا افشا ہونا قومی مفاد میں نہیں۔
فروری انیس سو اٹھاون میں لاہور ہائی کورٹ میں سابق وزیرِ داخلہ مشتاق گورمانی بنام زیڈ اے سلہری کیس میں جج نے اٹارنی جنرل سے کہا لیاقت علی خان کیس کی فائل پیش کی جائے۔ اٹارنی جنرل نے اگلی سماعت میں کہا فائل چیف سیکرٹری مغربی پاکستان کی تحویل میں ہے۔ عدالت نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا تو جواب ملا یور آنر فائل غائب ہے۔
جس طرح کمپنی باغ میں بظاہر ایک پولیس افسر نے دوسرے پولیس افسر کے حکم پر قاتل کو گولی مار دی اسی طرح چھپن برس بعد اسی کمپنی باغ عرف لیاقت باغ کے باہر ایس پی خرم شہزاد نے ڈی آئی جی سعود عزیز کے حکم پر جائے حادثہ کو بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے ڈیڑھ گھنٹے بعد دھو ڈالا۔
یوسف رضا گیلانی حکومت کے اصرار پر اقوامِ متحدہ کا تحقیقاتی کمیشن پاکستان آیا۔ کمیشن کی رپورٹ کہتی ہے کہ اتنی اہم شخصیت کے قتل کے بعد جائے وقوعہ فوری دھونے کا اہم فیصلہ محض دو جونئیر پولیس افسر اپنی صوابدید پر کیسے کر سکتے ہیں۔ مگر اقوامِ متحدہ کا جو کمیشن گیلانی کی دعوت پر آیا اسی کی رپورٹ پرکھنے کے لیے وزیرِ اعظم نے کیبنٹ سیکرٹری عبدالرؤف چوہدری، ڈپٹی چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل سجاد غنی اور خیبر پختون خوا کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ فیاض طورو پر مشتمل ایک تین رکنی کمیٹی بنائی۔
کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ اقوامِ متحدہ کمیشن کی رائے کے برعکس جائے حادثہ دھونے کا فیصلہ ملٹری انٹیلی جینس کے سربراہ میجر جنرل ندیم اعجاز کے کہنے پر نہیں بلکہ دونوں پولیس افسروں نے ازخود کیا۔اور یہ بات جنرل صاحب نے تحریراً بتائی ہے۔
(جو ڈرائنگ روم دانشور کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی پانچ سالہ دور میں قاتلوں تک کیوں نہ پہنچ سکی وہ لال بھجکڑ شاید بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں اب تک آنے والی کسی بھی سیاسی حکومت کا بس ایک ہی کام ہے۔ کھاؤں کدھر کی چوٹ بچاؤں کدھر کی چوٹ)۔
بے نظیر قتل کے اگلے روز سے ہی یہ تاثر پھیلانا شروع کیا گیا کہ اس قتل کے پیچھے القاعدہ اور ٹی ٹی پی کا ہاتھ ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ ستائیس دسمبر کی صبح آئی ایس آئی کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بی بی سے ملاقات میں کہا کہ آپ پنڈی نہ جائیں کیونکہ دہشت گرد آپ کے درپے ہیں۔
اگر ایسا ہی تھا تو پھر اس بابت انٹیلی جینس اطلاعات کو اقوامِ متحدہ کے کمیشن سے بھی شئیر کیا جانا چاہیے تھا تاکہ حتمی رپورٹ میں کمیشن اس نتیجے پر نہ پہنچتا کہ ہم سے متعلقہ افسروں اور انٹیلی جینس ایجنسیوں نے تعاون کم کیا اور رکاوٹیں زیادہ ڈالیں۔
بی بی خود کو لاحق خطرے کی قائل ہوئیں یا نہیں مگر دس برس میں آٹھ جج بدلنے کے باوجود خصوصی عدالت بھی اس پر قائل نہ ہو سکی کہ یہ واردات محض ٹی ٹی پی اور القاعدہ کی مشترکہ پیش کش تھی۔ اس کا ثبوت پانچوں ملزموں کی بریت کی شکل میں مل گیا۔ کسی متبادل تحقیقاتی لیڈ کا راستہ دو پولیس افسروں کے اعتراف نے بند کردیا۔
چنانچہ خصوصی عدالت کو اس نتیجے پر پہنچنا ہی تھا کہ دونوں پولیس افسر ہی جائے حادثہ دھونے اور بہتر سیکورٹی انتظامات نہ کرنے کے ذمہ دار ہیں لہٰذا سترہ برس قید دی جاتی ہے۔ ویسے قومی مفاد میں سترہ برس قید بری نہیں۔ جان ہے تو جہان ہے۔
بقول جاوید ہاشمی ڈاکٹر قدیر خان سے کہا گیا یا تو ٹی وی پر اقبالِ جرم کر لو ورنہ امریکی طیارہ تمہیں لے جانے کے لیے کھڑا ہے۔ ڈاکٹر صاحب قومی مفاد میں فوراً اپنی قربانی پر تیار ہو گئے۔ ان کی نشری تقریر کا لبِ لباب تھا کہ جو بھی ایٹمی راز اور ٹنوں وزنی سینٹری فیوجز سمگل ہوئے خدا کی قسم بس میں نے ہی کئے (اگر یہ سچ ہے تو جیمز بانڈ کو ڈاکٹر صاحب کے قدموں میں گر کے کچھ سیکھ لینا چاہیے)۔
مگر اہم بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب ماشاللہ خوش و خرم آج ہمارے درمیان ہیں۔ یہ معجزہ یوں ممکن ہوا کہ
میں اپنے جرم کا اقرار کر کے
کچھ اور ہے جسے چھپا گیا ہوں (جون ایلیا)
(بشکریہ:بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ