گزشتہ ہفتےایودھیا میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے رام مندر کا افتتاح کیا ،یہ وہ مندر ہے جسے پانچ سو سالہ پرانی بابری مسجد کو مسمار کرکے تعمیر کیاگیا ہے ۔ ہندوؤں کا دعویٰ تھا کہ بابری مسجد اِس مندر کو گرا کر بنائی گئی تھی،بھارتی سپریم کورٹ نے ہندوؤں کا یہ دعویٰ تسلیم کر لیا اور رام مندر کی تعمیر کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی دل جوئی کی غرض سے پانچ ایکڑ زمین مسجد کے لیے بھی مختص کرنے کا فیصلہ سنایا۔رام مندر کا اُپگھاٹن تو شان و شوکت سے کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے اسے ہندوؤں کا ویٹیکن سٹی کہا جا رہا ہے تاہم مسجد کی زمین پر تاحال الّو بول رہے ہیں ۔ تقریباً پونے چار ارب ڈالر کی خطیر رقم سے ایودھیا کی تعمیر نو کی گئی ہے جس کے بعد شہر میں نیا ہوائی اڈہ، ایک توسیع شدہ ریلوے اسٹیشناور کئی بین الاقوامی معیار کے ہوٹل قائم کیے گئے ہیں کیونکہ یہاں ہر سال تقریباً پانچ کروڑ زائرین کی آمد متوقع ہے۔رام مندر کی افتتاحی تقریب میں نریندر مودی کے ساتھ موہن بھگوت بھی شریک تھے جو آر ایس ایس کے سربراہ ہیں جبکہ بھارتی کرکٹرز اور فلمی ستاروں کی بڑی تعداد نے بھی تقریب میں شرکت کرکے اپنے کٹر ہندو ہونےکا ثبوت دیا ۔اِن تمام باتوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسےایودھیا کے بعد کا ہندوستان وہ نہیں رہے گا جو پہلے تھا، گو کہ ماضی میں بھی وہاں مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہی تھی مگر مستقبل میں شاید حالات بدتر ہوجائیں گے ۔ایسا کیوں ہوگا، یہ جاننے کے لیے ہمیں کچھ سوالوں کے جوابات تلاش کرنےہوں گے ۔مثلاً، کیا رام مندر کا افتتاح کرکے مودی نے درحقیقت دو قومی نظریے کا جشن منایا؟ کیا ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم پاکستان میں جی رہے ہیں اور آر ایس ایس کے ہندو انتہا پسندوں کے شر سے محفوظ ہیں ؟ اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو کیا آج کے انڈیا میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی صورتحال مختلف ہوتی ؟کیا جناح درست اور ابولکلام غلط تھے ؟یہ اور اِس طرح کے دیگر سوالات دراصل تاریخ کے سوالات ہیں جنہیں ترازو میں تول کرنہیں بتایا جا سکتا کہ زیادہ وزن کس پلڑے میں ہے ۔لیکن چلیے تول کر دیکھتے ہیں ۔
پہلا منظر وہ ہے جس میں ہم آج زندہ ہیں ۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستانی مسلمان شکر کا کلمہ پڑھ سکتے ہیں کہ یہاں کوئی آر ایس ایس نہیں ، کوئی موہن بھگوت نہیں ، کوئی رام مندر نہیں ۔جو بات ہمیں آج پتا چل رہی ہے وہ قائد اعظم نے سو سال پہلے ہی بھانپ لی تھی کہ ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے ،ہمارے ہیرو اُن کے ولن تھے اور اُن کے ولن ہمارے ہیرو، رام مندر کا افتتاح اِس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔مسلمان اگر اپنا علیحدہ وطن نہ بناتے تو آج لاہور میں اُن کی دکانیں اور کاروبار اسی طرح مسمار کیے جاتے جیسے رام مندر کے افتتاح کے بعد ہندوؤں نے اگلے روز ممبئی میں کیں۔متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی بے شک تیس یا پینتیس فیصد ہوتی مگر اُس آبادی کا وہی حال ہوتا جو آج غزہ میں فلسطینیوں کا ہو رہا ہے،لیکن ہم غزہ کیوں جائیں ، یو پی چلتے ہیں جہاں مسلمان بیس فیصد ہیں اور کہیں کہیں یہ تناسب چالیس فیصد تک بھی چلا جاتا ہے،لیکن اُسی یوپی میں رام مندر کا افتتاح ہوا اور اسی یو پی کا وزیر اعلیٰ ایک انتہاپسند ہندو یوگی آدھتیاناتھ ہے ۔جو لوگ کہتے ہیں کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کا وہ حال نہ ہوتا جو موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں کا ہے ، انہیں دراصل یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اُس صورت میں بھی ہندوستانی حکومت ، بیوروکریسی ، عدالتیں ، تھانے اور کاروبار، سب کچھ ہندوؤں کے قبضے میں ہی ہوتا اور اِس بات سے کوئی فرق نہ پڑتا کہ کس صوبے یا علاقے میں مسلمانوں کی حکومت ہے ، ہندو جہاں چاہتے گورنر راج نافذ کرکے حکومت پر قبضہ کر لیتے ،ثبوت کے لیے ملاحظہ ہو مقبوضہ کشمیر ،جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے ،مگر حال فلسطین جیسا ہے۔
دوسرا منظر وہ ہے جس میں ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ مسلمان متحدہ ہندوستان میں ہی رہتے۔اُس صورت میں نہ دس لاکھ بے گناہ افراد جان سے جاتےا ور نہ کروڑوں لوگ گھر سے بے گھر ہوتے۔متحدہ پنجاب اور بنگال کے ساتھ ساتھ تمام پاکستانی علاقوں میں مسلمانوں کی حکومتیں ہوتیں جہاں مسلمان ،موجودہ ہندوستان کے برعکس ، جنونی ہندوؤں کے رحم و کرم پر نہ ہوتے ۔متحدہ ہندوستان میں بی جے پی کو وہ پذیرائی نہ ملتی جو آج مل رہی ہے کیونکہ پھر بی جے پی کے پاس یہ نظریہ نہ ہوتاکہ اگر مسلمانوں نے ہندوستان میں رہنا ہے تو اسے جے شری رام کا نعرہ لگانا پڑے گا وگرنہ وہ پاکستان چلے جائیں ۔ہندوستان کی تقسیم کے باوجود کانگریس پچاس ساٹھ برس تک انڈیا کی سیاست پر چھائی رہی توذرا سوچیں کہ اگر تقسیم نہ ہوتی تو اُس صورت میں بی جے پی کہاں ہوتی؟اُس صورت میں نہ کوئی نریندر مودی ہوتا اور نہ کوئی رام مندر بنتا۔ہندوستان کی صوبائی حکومتیں اور چھوٹی بڑی ریاستیں اسی طرح ہندوستان کا حصہ ہوتیں جیسے آج یورپی یونین ہے اوروہاں ہندوؤں کی اکثریت بھی مسلمانوں کے حقوق سلب نہ کرسکتی۔آج جب ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ پاکستان بن گیا اور ہم اسلامی عقائد اور شعائر کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کر سکتے ہیں تو دراصل اِس شکرانے کی آڑ میں ہم ہندوستانی مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں جو اپنی مجبوریوں کے باعث پاکستان نقل مکانی نہیں کرسکے/سکتے اور اُس کے ساتھ ہی ہم نریندر مودی کو بھی یہ جواز فراہم کرتے ہیں کہ وہ ہندو اکثریت والے انڈیا کو ہندوؤں کی روایات اور اقدار کے مطابق تبدیل کرنے کا حق رکھتا ہے اور اسی حق کا استعمال کرتے ہوئے اُس نے رام مندر کا افتتاح کیا ہے ۔ تو پھر اب اُس پر غصہ کیسا، مودی انڈیا میں ہندوؤں کے لیےوہی کچھ کر رہا ہے جو آج ہم پاکستان میں مسلمانوں کے لیے جائز سمجھتے ہیں ۔
یہ دونوں منظر نامے بلیک اینڈ وہائٹ میں نہ صحیح ہیں اور نہ ہی غلط۔تاریخ کے سوالات ریاضی کی طرح نہیں ہوتے جن کا جواب دو جمع دو چار کی صورت میں دیا جا سکے۔آج کی تاریخ میں پاکستان قائم و دائم ہےاور ہماری نسل کے لوگ جو اِس پاکستان میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے، اِس بات کا ادراک نہیں کرسکتے کہ متحدہ ہندوستان کیسا ہوتا۔دراصل ہمارے دل میں یہ وسوسے اُن ناکامیوں کی وجہ سے آتے ہیں جو پاکستانی ریاست کے حصے میں آئیں جبکہ دوسری طرف بی جے پی کی معاشی ترقی نے ہندو انتہا پسند حکومت کے تمام عیب چھپا لیے۔ایسی صورتحال میں پاکستانی ریاست ،معاشرے اور عوام پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے رویوں میں رواداری پیدا کریں،مودی کے انڈیا پر ہمارا الزام یہی ہے کہ وہ سیکولر نہیں رہا، تو یہ الزام ہم اپنے اوپر کیوں آنے دیں؟ پاکستانی ریاست کے لیے سیکولر ہونا ہم نے گالی بنا دیا ہے ، جبکہ سیکولر ہونے کا سیدھا سا مطلب سوائے اِس کے اور کچھ نہیں جو قائد اعظم نے 11 اگست 1947 کو آئین ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا۔ہم نہ ہندوستان کا جغرافیہ تبدیل کرسکتے ہیں اور نہ تاریخ، البتہ ہم اپنی سمت ضرورت درست کرسکتے ہیں، یہ سمت نظریاتی طور پر قائد کے 11 اگست کے فرمان کے مطابق ہونی چاہیے ،اور رہی بات معاشی ترقی کی تو آپ اِس ملک کو پانچ سے دس سال کی مستحکم پالیسیاں دے دیں، معاشی ترقی خود بخود ہوجائے گی۔انڈیا اور بنگلہ دیش نےبھی یہی کیا ، وہاں کی ترقی بھی پرانی مستحکم پالیسیوں کا نتیجہ ہے ورنہ نریندر مودی اور حسینہ واجد کے پاس ایسی کوئی گدڑ سنگھی نہیں ہے جو ہمارے پاس نہیں ۔جس دن ہمارے معاشی دلدر دور ہو گئے، ہمارا نظریہ اُس روز سر چڑھ کر بولے گا۔
(گردوپیش کے لیے ارسال کیا گیا کالم)
فیس بک کمینٹ