سکرنڈ اپنی شوگر مل کے حوالے سے جانا جاتا ہے اورنواب شاہ آصف علی زرداری کا آبائی شہر ہے۔بلکہ نواب شاہ ہی کیوں آصف زرداری کے آباﺅ اجداد کاتعلق سکرنڈ کے ایک گوٹھ فتوہل زرداری سے بتایا جاتا ہے۔سکرنڈکو تحصیل کادرجہ 1853ءمیں ملا۔ اس طرح اس کاشمارسندھ کی ابتدائی تحصیلوں میں ہوتا ہے۔نواب شاہ کوضلع کادرجہ 1912ءمیں دیاگیا۔ جب سکرنڈ تحصیل قرارپائی تو نواب شاہ ایک چھوٹا سا شہرتھا۔ اب سکرنڈ کی شوگر مل ہویاآصف زرداری کا نواب شاہ دونوں کا ایک ہی سانس میں ذکر کیاجاتا ہے۔تو دوستوں سکرنڈ اور نواب شاہ مجھے آواز دیتے تھے۔اس لیے نہیں کہ میرا شوگر مافیا سے کوئی تعلق تھا بلکہ اس لیے کہ وہاں مجھے ہزاروں سال پرانی تہذیب کے آثار پر اپنے قدم رکھنا تھے۔ میں جو پانچ ہزار سال قدیم شہر ملتان کا باسی ہوں ۔قبل مسیح کے آثار دیکھنے کے لیے سندھ جارہاتھا۔سندھ جس کادارالحکومت کبھی ملتان ہوتاتھا۔
رات دس بجے ملتان سے بس روانہ ہوئی تو میرا خیال تھا کہ یہ رحیم یارخان یا بہاولپور میں کچھ دیر کے لیے ضروررکے گی۔ مجھے ناصر ظہیر نے کہا تھا کہ آپ کا ہمسفر عمران علی خان راستے میں آپ کے دماغ کی لسی بنادے گا لیکن میں نے ناصر کی اس بات کو اہمیت نہ دی۔مجھے معلوم تھا کہ وہ صرف حسد میں ایسی بات کررہاہے ۔اسے گلہ تھا کہ میں ایک مرتبہ شہزاد عمران خان اور ایک مرتبہ عدنان قریشی کو اپنا ہمسفر بناچکا ہوں۔ اس مرتبہ وہ اپنی باری کامنتظر تھا لیکن اس سے پہلے عمران علی خان نے اپنا اور میرا ٹکٹ بک کروالیا اور ناصر ظہیر سے کہہ دیا کہ اس مرتبہ میری باری ہے۔جہاں تک دماغ کولسی بنانے والی بات تھی بس روانہ ہوئی تو وہ تمام خدشات بھی غلط ثابت ہوگئے ۔عمران اپنے ساتھ نمکو، چپس کے پیکٹ اور پانی کی بوتل اورگلاس بھی لایاتھا لیکن پانی توہم اس وقت پیتے اگرہمیں کہیں گاڑی رکنے کا امکان نظرآتا۔ کچھ دیر گفتگوکے بعد عمران تونیند کی آغوش میں چلاگیا اور پھرمیری بھی اسی وقت آنکھ کھلی جب کنڈکٹر نے سات گھنٹے بعد زور سے آواز دی کہ سکرنڈ والے آجائیں۔ہم صبح پانچ بجے ایک تاریک ہوٹل کے کنارے کھڑے تھے کچھ دیر بعد اندھیرے سے شناسائی ہوئی تو سب سے پہلے پانی کا ایک ایک گلاس نوش کیاگیا کہ چائے اورکیک رس اس کے بعد کی بات تھی۔
ہمیں انجمن ترقی پسند مصنفین سندھ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹرخادم منگی نے روانگی سے قبل حنیف سومرو صاحب کانمبر دیا تھا اور کہا تھا کہ آپ کا قیام وطعام سومرو صاحب کے ذمے ہے۔کانفرنس کے دوران وہی آپ کی میزبان ہوں گے۔سومروصاحب کے ساتھ ہماری روانگی سے قبل بھی بات ہوئی لیکن صبح پانچ بجے انہیں کیسے فون کرتے۔ سفر کی تھکان دور کرنے کے لیے ہم نے چائے بنوائی اس خیال سے کہ جتنی دیرمیں چائے بنے گی اذانوں کا وقت ہوجائے گا اوراس کے بعد ہی ہم حنیف سومرو صاحب سے رابطہ کریں گے۔ چھے بجے کے قریب ڈرتے ڈرتے سومرو صاحب کوفون کیاتوانہوں نے پہلی گھنٹی پرہی محبت کے ساتھ سوال کیا سائیں آپ پہنچ گئے ہیں میں تو آپ کاانتظار کررہا تھا۔اب ہم انہیں کیابتاتے کہ ہم توویسے ہی پہنچے ہوﺅں کے شہر سے آئے ہیں اورکوئی ایک گھنٹے سے اذانوں کاانتظارکررہے تھے۔ حنیف صاحب نے کہا کہ آپ نے پہلے فون کیوں نہ کیا میں تو جاگ رہاتھا۔آپ کاانتظارکررہاتھا۔آپ کہاں بیٹھے ہیں۔
” کوئی ٹرکوں والاہوٹل ہے۔“
کہنے لگے آپ کا وائٹ روز ہوٹل میں قیام ہے ،میں وہیں آرہا ہوں۔
ہوٹل والے سے پوچھا کہ وائٹ روز ہوٹل کتنی دورہے۔اس نے سڑک کی دوسری جانب روشنیوںکی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگاوہ سامنے ہی توہے ۔مسافروں نے اپنے بیگ اٹھائے اور وائٹ روز ہوٹل پہنچ گئے۔عمران نے دیکھتے ہی اسے سکرنڈ کا رمادا قراردے دیا۔کچھ ہی دیر میںسومرو صاحب مانک ملاح کے ہمراہ ہوٹل میں موجودتھے۔روانگی سے قبل طے ہواتھا کہ23دسمبر کوسومرو صاحب ہمیں سکرنڈ کے تاریخی مقامات کی سیر کرائیں گے۔لیکن اس سیر کے لیے سورج نکلنے کاانتظار بھی توکرناتھا۔حنیف سومرو صاحب گیارہ بجے دوبارہ ملاقات کاوعدہ کرکے روانہ ہوگئے اورہمارے پاس بھی آرام کے لیے یہی وقت تھا اوراس کے بعد ہم نے روانہ ہونا تھاسکرنڈ کے ہزاروں سال پرانے ان آثار کی جانب جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ موہنجوداوڑ اور ہڑپہ سے بھی پہلے کی تہذیب ہے۔
(جاری ہے)
فیس بک کمینٹ