ہم بلامبالغہ اس بات پر یقین کر سکتے ہیں کہ چاہے وہ پاکستانی فوج ہو، مذہبی اسکالرز ہوں، محققین ہوں ، ادیب ہوں ، شاعر ہوں یا کاروباری حضرات یہ سب اپنے پیشہ سے بے حد لگاﺅ محسوس کرتے ہیں اور شعوری طور پر مطمئن اور خوش ہوتے ہیں کہ جو کام وہ کر رہے ہیں وہ ان کی مرضی کے عین مطابق ہے۔ لہذا وہ کام کم اور مقصد حیات اور نفسیاتی و روحانی تسکین کا سبب زیادہ ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی پھول پودے لگاتا ہے یا رنگین مچھلیاں پالتا ہے یا سمندر کنارے لمبی لمبی چہل قدمی کرتا ہو۔
اپنے پیشے سے لگاﺅ اور کام کرنے کی لگن کا تعلق لاشعور میں بسنے والے اس احساس سے ہے جو انسان کے دل میں ہر وقت جاگزیں رہتا ہے اور اسے یہ میرا کام ہے کا احساس دلاتا رہتا ہے، اور جب معاملہ ایسا ہوجائے تو پھر احساس ذمہ داری، بہتر سے بہتر کر گزرنے کی دھن، خود بہ خود کرنے کی جستجو کارکردگی میں چار چاند لگا دیتی ہے۔ اداروں کیلئے لوگوں کو شعوری طور پر کام میں دل لگانے اور کارکردگی بہتر بنانے پر مائل کرنا ایک نہایت ہی مشکل کام ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا کہ کسی بھی ادارے کیلئے بڑا ہی کٹھن مرحلہ اور کڑا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو ادارے کے اغراض و مقاصد کی بطریق احسن آگہی دے سکیں ، تاکہ وہ اپنے فرئض منصبی کے ساتھ انصاف کر سکیں، جو زمہ داری انہیں سونپی گئی ہے اس میں دلچسپی کی طرف مائل اور قائل ہوسکیں۔
بعض ادارے کچھ حد تک اس کا حل یوں نکالتے ہیں کہ بہترین اور اعلی پیشہ ور لوگوں کا انتخاب بہت ہی مسابقتی مشاہروں پر کر لیتے ہیں۔ اور پھر مناسب تربیت کے ذریعے انہیں ادارے کیلئے کارآمد بنا لیا جاتا ہے۔ اسطرح ملازمین کو ادارے سے خوشگوار ہم آہنگی اور احساس تحفظ بھی محسوس ہوتا ہے۔
جو ملازمین کو ادارے کا انسانی سرمایہ Human Capital بننے اور ادارے کے ساتھ خلوص کے ساتھ جوڑے رکھنے میں معاون و مددگار ہوتا ہے ۔ بہرحال ادارے کی ساری سرمایہ کاری اس وقت ڈوبتی نظر آتی ہے جب ادارہ اپنے ملازمین کو خلوص، لگن ، ایمانداری اور محنت سے کام کرنے کی صحیح سمت دینے میں ناکام رہے۔ اگر ادارہ ملازمین کو یہ یقین دلانے میں ناکام رہے کہ وہ ایک گھر کے فرد کی طرح اہم اور باعزت ہے، اور جو ذمہ داری اسے سونپی گئی ہے وہ ادارے اور ملازم دونوں کیلئے نہایت اہم ہے اور ادارے نے ملازم کی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے خاص اس کا انتخاب کیا گیا ہے۔ مندرجہ بالا بات کے تناظر میں ہمارے لئے یہ جان لینا نہایت ضروری ہے کہ کیا تنخواہ یا مشاہرہ ملازمین کو حقیقی معنوں میں دل سے کام کرنے کی لگن اور جذبہ فراہم کر سکتا ہے ؟
ؓبلاشبہ پیسہ آج کے دور میں انسان کی نہایت اہم اور بنیادی ضرورت بن چکا ہے، کیونکہ اسی سے ہم بنیادی ضروریات سے لیکر ہر قسم کی آسائش خریدیتے ہیں۔ اور پیسے کا پاس ہونا نہ صرف اطمینان و سکون کا سبب ہوتا ہے بلکہ معاشرے میں عزت و تکریم کا باعث بھی ہوتا ہے۔ عام بات ہے کہ جو جتنا پیسہ والا ہے وہ معاشرے میں اتنا ہی کامیاب مانا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جیسے جیسے پیسہ آتا ہے اپنے ساتھ ڈھیر ساری خوشیاں بھی لاتا ہے، جیسے جیسے لوگ پیسہ کماتے جاتے ہیں ویسے ویسے خوشیاں ان کے گھر کی باندی بنتی جاتی ہے۔ کبھی ہم پیسے کے بل پر شاہانہ طرز رہائش حاصل کر کے اپنے خوابوں میں رنگ بھرتے ہیں تو کبھی لمبی لمبی گاڑیاں ہمارے رعب و دبدبہ کا سبب بنتی ہیں، جو یقینا پیسے ہی کا برہون منت ہے۔ اور یہ سب مل ملا کے خوشیوں، راحتوں اور تسکین کا سبب بنتی ہیں۔ پیسہ ہی معاشرے میں آپ کا مقام طے کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، پیسے کی وجہ سے لوگ پراعتماد با وقار نظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود متعدد تحقیق کے نتیجے میں پتہ چلا ہے کہ ملازمین کو محض پیسے کے ذریعے ایمانداری، اخلاص، اور دل جمعی سے کام پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا۔ (Herzberg) ہرزبرگ مشہور نفسیات دان اور دو نقاطی نظریہ کے خالق پہلے ہی اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ پیسے سے کام کا بہتر طور پر مکمل ہونے کا اطمینان نہیں خریدا جاسکتا۔ پیسہ ضرورتوں کو تو پورا کر دیتا ہے مگر کام کی اعلی معیار پر تکمیل کے قلبی اطمینان دلانے میں ناکام رہتا ہے۔ ہرزبرگ اطمینان اور بے اطمینانی کو دو مختلف کیفیات بتاتے ہیں۔ اور پیسے کو عنصر سلامتی گردانتے ہیں نہ کے عنصر مائل بہ کارکردگی۔ یہ عمومی ملازمین کی کارکردگی کو ایک خاص حد تک محدود رکھتی ہے نہ کہ کارکردگی کے اعلی درجات تک پہنچا سکے۔ حیرت انگیز طور پر اگر ادارے کی نگاہ سے دیکھیں تو یہ امر مسلّم ہے کہ پیسے سے ملازمین کی دیانتداری، اخلاص اور کام سے لگاﺅ کو نہیں خریدا جاسکتا۔ پیسے سے ملازم کی ادارے میں ایک خاص وقت موجودگی کو تو یقینی بنایا جاسکتا ہے مگر کمال ہنر و کمال فن کی منزلیں پیسے سے طے نہیں کرائی جاسکتیں۔ بالکل اسی طرح پیسے کے زور پر کسی بھی ملازم کو اسٹار پرفارمر یا اعلی ترین کارکردگی کا حامل نہیں بنایا جاسکتا۔ نہ ہی پیسے کے ذریعے ملازمین میں احساس ، ذمہ داری ، دیانتداری، محنت کشی ، ادارے کا وفادار، اور کام کرنے پر دل سے مائل کیا جاسکتا ہے، اور نہ ہی شاندار کارکردگی پر مائل و متفق کیا جاسکتا ہے۔ نہ ہی پیسہ ملازمین میں جوش و جذبہ اور کام کرنے کی لگن اور اس سے پیدا ہونے والی ذہنی اور نفسیاتی آسودگی پیدا کرسکتا ہے۔ مختصراً بھاری مشاہروں اور دیگر فوائد کے ذریعے کسی بھی ملازم کو مخلص، محنتی، ایماندار یا باکمال ٹیم ممبر نہیں بنایا جاسکتا۔ بلکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ بڑے بڑے مشاہروں اور فوائد سے عمومی طور پر ذاتی خواہشات و ضروریات کا حصول و تسکین تو ہو رہی ہوتی ہے مگر کارکرگی میں بڑھاوا ، بنیادی رویوں میں مثبت تبدیلی اور دل سے بہترین کام کرنے کی لگن اجاگر نہیں ہو رہی ہوتی اور عمومی طور پر یہ ملازمین کی ذاتی خواہشات و ضروریات کے حصول کا سبب بن کر رہ جاتا ہے، جسے انگریزی میں ©Personal Gratification Cyndrome, (PGS) کہا جاتا ہے۔
( جاری )
فیس بک کمینٹ