یاد سمندر میں کتنے ہی چہرے، آوازیں اور نام ابھرتے ہیں اور ڈوب جاتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک یاد شہر ڈھاکا کی ہے ۔ وہ سفر جو اس وقت ہوا جب ہمارے اور بنگالی دوستوں کے درمیان خون کے کتنے ہی دھبے تھے جو ندامت کے آنسوؤں سے تو دُھل سکتے تھے لیکن برسات انھیں کبھی نہیں دھوسکتی تھی ۔
اس وقت بہت سی باتیں ذہن میں ابھر رہی ہیں۔ برصغیر کی ایک سنہری آواز جسے الجزیرہ ٹیلی ویژن جنوبی ایشیا کی بے مثال آواز کہہ رہا ہے، وہ فنا کے سمندر میں اتر گئی ہے ۔ شہناز بیگم جس کی گائیکی 60 اور 70کی دہائی میں ہماری سماعتوں کو سکون بخشتی تھی ، وہ ابدی نیند سوگئی ہے۔
1952میں پیدا ہونے والی اور مارچ 2019 میں جان سے گزر جانے والی شہناز بیگم ڈھاکا میں زمین کا پیوند ہوئی ۔ اس نے گیارہ برس کی عمر میں ڈھاکا ریڈیو سے اپنی گلوکاری کا آغاز کیا تھا ، کراچی اور اسلام آباد میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچی، ذوالفقار علی بھٹو کی فرمایش پر ’’سوہنی دھرتی‘‘ جیسے سوہنے گیت کی تان اڑائی اور کروڑوں دلوں کو اپنی مٹھی میں لے لیا ، بنگلہ دیش وجود میں آیا تو شہناز بیگم واپس چلی گئی ۔ وہ ڈھاکا میں پیدا ہوئی تھی ، وہ آزاد ہوا تو وہ کہیں اور کیسے رہ سکتی تھی۔رونا لیلیٰ نے بھی لوٹ جانے کا فیصلہ کیا۔
ہماری صف اول کی اداکارہ اور اس کے موسیقار شوہر روبن گھوش پاکستان میں ہی رہنا چاہتے تھے لیکن کرنے والوں نے ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جو دشمنوں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا ۔ وہ بھی ڈھاکا چلی گئیں ، گزرے ہوئے برسوں میں وہ کئی مرتبہ پاکستان آئی ہیں۔ میں نے ان کی سرخ اشکبار آنکھیں اور آنسوؤں سے تر چہرہ دیکھا ہے ، جو بھلایا نہیں جاتا۔ وہ جس ادبی میلے میں آئی تھیں لوگوں نے ان کے گرد ہجوم کر رکھا تھا اور ان کی فلموں کو یاد کررہے تھے ۔
خلیج بنگال میں سانس لیتی ہوئی، مسجدوں، مزاروں، پیروں، فقیروں، سنیاسیوں، گائیکوں، شاعروں اور فن کاروں کی سرزمین پر سات سو دریا لہریں لیتے ہیں ۔ سندر بن کا جنگل دنیا کا سب سے بڑا تمر کا جنگل ہے جہاں دن میں رات کا اندھیرا ہوتا ہے اور بنگال ٹائیگر دھاڑتے ہیں۔ مغل سلطنت کے دور میں بنگلہ دست کاروں کے بنائے ہوئے اعلیٰ ململ پر چام دانی کے بنائے ہوئے نقش و نگار ، ایرانی گل بوٹوں کی ہم سری کرتے تھے۔ آج بھی ان کے مچھیرے جب اپنی ناؤ اور جال لے کر روپہلی مچھلیوں کی تلاش میں نکلتے ہیں تو ان کے سینے سے نکلے ہوئے بھٹیالی گیت دریا کی لہروں اور دلوں کو موہ لیتے ہیں۔ بنگال فقیروں کا دیس ہے ۔ ان کے صوفیانہ گیت دین دھرم کا فرق مٹاکر انسانوں کی یکجائی کی بات کرتے ہیں۔ ٹیگور کے گیت اور نذرل گیتی ، بنگال کا ثقافتی ورثہ ہیں۔ ٹیگور جس نے لکھا تھا ’’دن بیتا، اندھیارا چھایا۔ پنیاں بھرن چلوں میں۔ بھر آنکھوں میں تارے۔ بے کل ہوا سنے لہروں سے ۔ دکھ کے گیت نیارے ۔ مجھ کو شام پکارے ‘‘۔
ایک ایسے دیس میں شہناز بیگم کی پیدائش کوئی حیرت کی بات تو نہ تھی ۔
آج کتنے ہی لوگوں کو وہ سنہرے دن یاد آئے ہوں گے جب ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن سے شہناز بیگم کی آواز کانوں میں رس گھولتی تھی۔ وہ ڈھاکا سے کراچی آئی تو اس نے کلاسیکی موسیقی میں مہدی حسن کو اپنا استاد بنایا اور پھر رشید عطرے اور سہیل رعنا سے گائیکی کے رموز و نکات سیکھے ۔ وہ جب تان اڑاتی تو در و دیوار اس کی آواز پر وجد کرتے ، انسانوں کا تو کہنا ہی کیا تھا۔ شہناز بیگم کی یاد کے ساتھ ہمیں یہ بھی یاد آیا کہ ڈھاکا مسجدوں کا شہر کہلاتا ہے جس کی سب سے پرانی مسجد جو اس وقت بھی موجود ہے ، وہ بنت بی بی مسجد کہلاتی ہے اور 1454میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس کے 100برس بعد پرتگالی مورخ جوا دی باروس نے اپنی کتاب ’’ایشیا میں کئی عشرے‘‘ میں ڈھاکا کو شامل کیا ۔ کام روپ سلطنت اور سین سلطنت کے بعد کچھ دنوں دہلی سلطنت کا ڈھاکا پر اقتدار رہا جس کے بعد مغلوں کا عروج ہوا جس میں یکے بعد دیگرے شاندار مساجد تعمیر ہوئیں۔ ست گنبد مسجد ، چوک مسجد ، بابو بازار مسجد اور دوسری ان گنت مسجدیں ، مقبرے ۔
بنگال ایک امیر صوبہ تھا۔ پرتگیزی یہاں سے چاول ، ریشمی پارچہ جات اور دوسری اشیاء برآمد کرتے تھے۔ انھوں نے یہاں گرجا گھر بنائے۔ ان کی تقلید میں آرمینیوں نے بھی اپنے چرچ بنائے ۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں یورپین امراء کا یہاں اتنا عروج ہوا کہ ڈھاکا میں 6یورپی زمیندار تھے جن میں سے 5آرمینین تھے۔ آرمینی چرچ کے آخری وارڈن نے گزشتہ برس یعنی 2018 میں ڈھاکا چھوڑا ہے ۔
بنگال کے شہر پلاسی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں اور نواب سراج الدولہ کی فوجوں کا ٹکراؤ ہوا جس میں نواب سراج الدولہ کو شکست ہوئی اور کمپنی کا ستارہ اوجِ ثریا پر چمکا۔ اس کے ساتھ ہی ڈھاکا اور بنگال کے دوسرے شہروںمیں جدید تعلیم کا چلن ہوا۔ نئے کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔ 1904 میں لارڈ کرزن کی آمد پر1905 میں کرزن ہال قائم ہوا۔ کرزن ہال سے بہت سی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں اور ساتھ ہی ان بنگالی ادیبوں، دانشوروں اور اساتذہ کی سوگوار یادیں بھی جن کا بے گناہ خون بھی جو وہاں بہایا گیا۔
یہ تھا وہ تاریخی اور سیاسی پس منظر جس کے بعد شہناز بیگم یا رونا لیلیٰ کو پاکستان سے جانا ہی تھا۔ 1992میں شہناز کو بنگلہ دیش کے دوسرے سب سے بڑے شہری ایوارڈ سے نوازا گیا اور2006 میں اس کے 4گیتوں کو بی بی سی نے بنگلہ دیش کے 20 مقبو ل ترین گیتوں میں شامل کیا۔ انھیں بہترین پلے بیک گلوکارہ کا بنگلہ دیش نیشنل فلم ایوارڈ بھی دیا گیا ۔
شہناز نے میجر (ر) ابو البشر رحمت اللہ سے شادی کی اور سوگواروں میں شوہر کے علاوہ ان کے دو بچے بھی شامل ہیں ۔ وہ ڈھاکا میں پیدا ہوئی اور اسی کی مٹی میں دفن ہوئی ۔ پاکستان میں وہ اپنے دو نغموں سے پہچانی جاتی ہے۔ دونوں نغمے جمیل الدین عالی کے لکھے ہوئے ہیں۔ ’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے ‘‘ اور ’’جیوے جیوے پاکستان ‘‘ ۔ 70 کی دہائی میں شہناز کا یہ گیت بھی بہت مقبول ہوا تھا کہ ’’کہاں ہو تم چلے آؤ ، محبت کا تقاضہ ہے ‘‘ ۔ اس کے اور ہمارے درمیان اب لگ بھگ 40 برس کا فاصلہ ہے۔ اس دوران ہم نے شہناز کے فنی سفر پر نظر نہ رکھی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہاں سے جانے کے بعد وہ بنگلہ میں گاتی تھی اور ہم بنگلہ سے واقف نہیں ۔ اس کے باوجود شہناز کے گائے ہوئے پرانے گیت آج بھی لوگوں کو یاد آتے ہیں ۔ ’’وہ صبح کو آئیں تو‘‘ ، ’’مجھے تم نظر سے گرا تو نہ دو گے‘‘ ۔ ’’ندیا اور پتوار‘‘ ، ’’بندھن تو یہی ہے ‘‘ ۔
شہناز 57 یا 58 برس کی عمر میں حج کے لیے گئی اور وہاں سے واپس آکر اس نے گلوکاری کو خیرباد کہہ دیا ، اس کے ساتھ ہی لباس بھی عربی ہوگیا ۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہمیں بتایا نہ جاتا کہ یہ شہناز کی تصویر ہے تو ہم میں سے بیشتر بلکہ شاید کوئی بھی اسے پہچان نہ پاتا۔ کہاں ساڑی میں ملبوس بندی لگائے اور ترنگ میں گاتی ہوئی شہناز اور کہاں وہ شہناز جو تازہ ترین تصویروں میں نظر آرہی تھی ۔ ہم سب اس کی آواز کے دیوانے تھے۔ ’’بے کل ہوا سنے لہروں سے۔ دُکھ کے گیت نیارے ۔ مجھ کو شام پکارے ‘‘ ۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ