وزیر اعظم عمران خان نے وزیراعظم آفس میں وزارت اطلاعات کے مختلف محکموں کے سربراہان سے ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مضبوط ، متحرک اور ذمہ دار میڈیا ملک کی تعمیر وترقی اور عوام کو باخبر رکھنے وزارت اطلاعات حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے اور اس کے مقاصد کو اجاگر کرنے اور حکومتی پالیسیوں سے متعلق میڈیا کے ذریعے عوام کو باخبر رکھنے کے لیے مزید متحرک کردار اد ا کرے۔ وزارتوں کے تعلقات عامہ کے افسران میڈیا کی معلومات تک کی رسائی اور درست انفارمیشن کی فراہمی میں کردار اد کریں۔ ملاقات میں وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین ، معاونین خصوصی افتخار درانی اور یوسف بیگ مرزا بھی موجود تھے۔ میڈیا سے متعلق حکومت کو اپنی پالیسی کا جائزہ لینا چاہئے کسی جگہ کوئی خامی ہے تو بہتری کے لئے اقدامات ہونے چاہئیں۔ حکومت اپنے رولز کے مطابق اشتہارات میڈیا کو دیتی ہے۔ اشتہارات کے نرخ سے متعلقہ تمام امورحکومت کے اپنے اختیار میں ہیں میڈیا لسٹ بھی حکومت کی اپنی تیار کردہ ہے، اشتہارات کی تقسیم 25فیصد ریجنل اور 75فیصد نیشنل یہ بھی حکومت کا اپنا مقرر کردہ ہے، اشتہار کے بدلے ادائیگی یہ حکومت کا احسان نہیں یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے جو پوری دنیا میں رائج ہے۔
اخبار چینل یا ریڈیو چلانا کتنا مشکل ہے ؟ اس کا حکومت کوخود علم ہے سرکاری سیکٹر میں شائع ہونے والے جرائد ریڈیو اور ٹی وی چینل کے کتنے اخراجات ہیں اس کا بھی حکومت کو علم ہے اور اربوں کھربوں کے اخراجات کے باوجود حکومتی میڈیا کو کتنا دیکھایا پڑھا جاتا ہے ؟اس بارے بھی سب جانتے ہیں ، پی ٹی وی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے ہر بجلی بل کے ساتھ ہر ماہ 35روپے ٹی وی ٹیکس لیا جا رہاہے۔ صرف میپکو ملتان آٹھ سے دس کروڑ پی ٹی وی کووصول کر کے دیتا ہے، اس لحاظ سے ایک ارب سے زائد پاکستانیوں سے لیا جا رہاہے ، باوجود اس کے کہ لوگ سرکاری ٹی وی نہیں دیکھتے، ان سے جبری وصولی ہورہی ہے اور لوگ جن پرائیوٹ چینلز کو دیکھتے ہیں وہ اپنے اخراجات کہاں سے پورے کریں ؟ بنیادی جمہوریت میں جو کردار دیہی علاقوں میں یونین کونسل اور شہری علاقوں میں بلدیات کا ہوتا ہے، صحافت میں وہی کردار ریجنل نیوز پیپر کا ہوتا ہے، کیا یونین کونسل کی اسمبلی کو اس بنیاد پر ختم کر دیا جائے کہ یہ قومی اسمبلی کے مقابلے میں بہت چھوٹی ہے؟ یا یہ کہ غریب طبقے کو مار دیا جائے کہ یہ خزانے پر بوجھ ہیں، اس طرح کی سوچ کو کیا نام دیا جائے گا؟ کوئی بھی حکومت ہو وہ غربت کے خاتمے اور مسائل کے حل کیلئے اقدامات کرتی ہے، موجودہ حکومت میں شامل وزراءکے اقدامات کسی اور کے خلاف نہیں عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کے خلاف خوفناک سازش ہے، میڈیا کو بالواسطہ طور پر جتنا موجودہ دور میں برباد کیا گیا ہے اتنا ظلم تو ضیاءالحق دَور میںبھی نہیں ہوا تھا، عمران خان کو فرصت ملے تو ان عیالدار صحافیوں سے پوچھیں جو ملازمتوں سے فارغ ہو کر گھر بیٹھے ہیں۔ ریجنل نیوز پیپر کے ساتھ ہونیوالی نا انصافی پر میڈیا کے سب سے بڑے ادارے نے بھی اپنے خصوصی اجلاس میں بجا طور پر احتجاج کیا، اے پی این ایس کے سیکرٹری جنرل سرمد علی نے کہا ہے کہ آل پاکستان نیو ز پیپرز سوسائٹی کی ایگز یکٹو کمیٹی نے اپنے صدر حمید ہارون کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں وفاقی حکومت کی اشتہاری پالیسی پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ملک بھرسے شرکت کرنے والے اراکین نے اس امر پر غم و غصہ کا اظہار کیا علاقائی کوٹہ بری طرح سے پامال کیا جا رہا ہے اور پی ٹی ڈی علاقائی اخبارات کے لیے مختص کوٹہ میں سے میٹرو پولیٹن اخبارات کو اشتہارات جاری کر رہی ہے جس کے باعث وفاقی اشتہارات میں علاقائی اخبارات کو جائز حصہ سے محروم کیا جا رہا ہے۔ آمرانہ مزاج ہمیشہ میڈیا کے خلاف رہا ہے اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو 1857ءکی جنگ کے بعد انگریز حکمرانوں نے میڈیا کی آزادی پر حملے کئے، 1841ءمیں مغل حکمرانوں سے ایک فارسی اخبار بھی برداشت نہ ہوا، ایوب خان کی طرف سے 1964ءمیں بننے والا نیشنل پریس ٹرسٹ بھی پریس کی آزادی کے خلاف ایک وار تھا، سرکاری سطح پر نیشنل پریس ٹرسٹ کی طرف سے سرکاری سطح پر ہونیوالے اخبارات اور جرائد کا حشر سب کے سامنے ہے اور اس کا بھی حکومت کو بخوبی علم ہے کہ اس پر کتنے اخراجات آتے ہیں، ضیاءالحق دور میں پریس پرسنسر اور صحافیوں کو کوڑوں کی سزائیں نہ بھولنے والے واقعات ہیں، اسی بناءپر عمران خان کو دوسروں پر بھروسہ کرنے کی بجائے میڈیا سے متعلق امور اپنے ہاتھ میں لینے چاہئیں اور میڈیا کو کمزور کرنے کی بجائے مضبوط بنانے کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں۔
(بشکریہ:روزنامہ92نیوز)
فیس بک کمینٹ