کالم کے موضوع پر بات کرنے سے پہلے سانحہ ساہیوال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ اس واقعہ کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے پولیس کو بے لگام کیا اور اسے لا محدود اختیارات دے کر سر پر چڑھایا لیکن اتنے اختیارات کے باوجود اختیارات سے تجاوز کرنا اور انسانوں پر حملہ آور ہو کر انہیں ماورائے عدالت قتل کر دینا پولیس دہشت گردی ہے، نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوج نے دہشت گردی پر تو کسی حد تک قابو پا لیا ہے لیکن اس کھلی دہشت گردی کو کون روکے گا؟ اس واقعہ سے مجھے اپنے ہوم ڈسٹرکٹ رحیم یار خان کے ایک سابق ڈی پی او کی طرف سے ماورائے عدالت مارے گئے وہ سینکڑوں افراد یاد آئے جن کو مختلف جیلوں سے نکال کر جعلی پولیس مقابلوں میں مارا گیا۔ ساہیوال کا واقعہ انہیں واقعات کا تسلسل ہے اور حملہ مارے جانے والے افراد نہیں دراصل تحریک انصاف کی حکومت اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان کی اس سوچ اور فکر کے خلاف ہے جو کہ وہ اپنی تقریروں میں سابقہ حکومت کو حد سے تنقید بناتے رہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ معاملہ محض سب پولیس افسروں و اہلکاروں کی معطلی تک محدود رکھا جاتا ہے یا ظلم کے نظام کو تبدیل کرنے کیلئے کوئی اقدامات ہوتے ہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ سندھی پاکستان کی واحد زبان ہے جو سندھ کے تعلیمی اداروں میں رائج ہے اور سندھی بچے خوش قسمت ہیں کہ وہ اپنی ماں بولی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔جبکہ سرائیکی ‘ پنجابی ‘ پشتو ‘ بلوچی اور دوسری زبانیں بولنے والے ماں بولی میں تعلیم کے بنیادی حق سے ابھی تک محروم ہیں۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے مورخہ 18 اپریل 2018ء کو پنجاب میں پنجابی تعلیم رائج کرنے کے بارے میں چیف سیکرٹری پنجاب اور سپیکر پنجاب اسمبلی کو نوٹس جاری کر دیئے۔ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست گزارمحترم احمد رضا خان ( صدر پنجابی پرچار سوسائٹی ) نے استدعا کی کہ پنجاب میں پنجابی زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ اس سلسلے میں خود بھی میں لاہور ہائی کورٹ کے سینئر قانون دان سید نثار صفدر کے توسط سے اس کیس کا فریق بنا ہوں اور اپنی معروضات میں لکھا کہ پنجاب میں پنجابی کے ساتھ سرائیکی بولنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور پنجاب کے نصف سے زائد اضلاع کی مادری زبان سرائیکی ہے۔ میری استدعا ہے کہ پنجابی بولنے والے اضلاع میں پنجابی زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے اور سرائیکی بولنے والے اضلاع میں سرائیکی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کا حکم جاری فرمایا جائے۔ پوری دنیا کے ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صرف ماں بولی میں تعلیم کے ذریعے ہی بچے کی ذہنی نشوونما کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے کہ بچے کی ذہنی و جسمانی ساخت پر اس کی ماں بولی کے اثرت ماں کے پیٹ میں ہی مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ طالبعلم کی تخلیقی صلاحیتیں ماں بولی سے ہی پیدا ہوتی ہیں ، دوسری کسی بھی زبان میں آپ اسے پڑھائیں گے وہ محض رٹا ہوگا۔ کسی بھی زبان کو آﺅٹ کرنے کا مقصد کسی بھی خطے کی تہذیب و ثقافت کو قتل کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے کہ زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کی تاریخ ، تہذیب و ثقافت اس میں بند ہوتی ہے اور زبان ہی پورے تمدن کا اظہار سمجھی جاتی ہے۔ اگر آپ کسی سے اس کی ماں بولی چھین رہے ہیں تو گویا ماں دھرتی اور ماں بولی کے علم سے دور رکھنے کی کوشش بہت بڑا جرم ہے۔ اپنے ادب، اپنے فوک، اپنی موسیقی سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے اس کی لوک دانش کا اثاثہ چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں بولی جانیوالی زبانوں میں سب سے زیادہ کتب سرائیکی زبان میں شائع ہو رہی ہیں اور حکومت پاکستان کاادارہ اکادمی ادبیات ہر سال بہترین سرائیکی کتاب پر ایوارڈ دیتا آ رہا ہے۔ سرائیکی زبان میں کتابوں کے ساتھ ساتھ رسائل اور سرائیکی اخبار بھی شائع ہو رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کی خبر رساں ایجنسی اے پی پی میں الگ سرائیکی سیکشن اور سرائیکی نیوز سروس موجود ہے۔ علاوہ ازیں پرائیوٹ چینل کے علاوہ پی ٹی وی ملتان سنٹر سرائیکی میں پروگرام دیتا ہے اور ریڈیو پاکستان ملتان ‘ بہاولپور ‘ ڈی آئی خان ‘ سرگودھا ‘ میانوالی نہ صرف سرائیکی پروگرام نشر کرتے ہیں بلکہ سرائیکی میں خبریں بھی نشر کی جاتی ہیں۔ سرائیکی بہت قدیم زبان ہے ‘ اس کا ادبی ورثہ پاکستان کا سرمایہ افتخار ہے۔ سرائیکی ہی پاکستان کے مختلف علاقوں میں بولی جانیوالی قدیم زبان ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سرائیکی واحد زبان ہے جو صوبہ پنجاب کے علاوہ ملک کے چاروں صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ سرائیکی زبان بولنے والوں کا اپنا الگ خطہ ‘ الگ تہذیب اورالگ ثقافت ہے۔ اندریں حالات مودبانہ گزارش ہے کہ پنجاب کے ان اضلاع میں جہاں عرصہ قدیم سے پنجابی بولی جاتی ہے ‘ پنجابی پڑھائی جائے اور سرائیکی اضلاع میں پرائمری سطح پر سرائیکی پڑھائے جانے کے احکامات جاری کئے جائیں۔ میں نے اپنی معروضات میں مزید لکھا کہ درج ذیل وجوہات کی بناء پر درخواست ہے کہ میری استدعا کو قبول فرمایا جائے۔بلوچستان حکومت نے اپنے نوٹیفکیشن نمبر 27 (3 فروری 2014 )کے مطابق اپنے صوبے میں بلوچی ، پشتو ، براہوی ، سندھی ، فارسی ،پنجابی اور سرائیکی کو پرائمری سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے کا حکم جاری کیا۔ اسی طرح خیبرپختونخواہ حکومت نے بھی بشمول سرائیکی صوبے میں بولی جانیوالی مختلف زبانوں کو پرائمری سطح پر ذریعہ تعلیم بنایا ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباداور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سرائیکی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کرائی جا رہی ہے ‘ بہاﺅ الدین زکریا یونیورسٹی اور اسلامیہ یونیورسٹی میں سرائیکی ڈیپارٹمنٹ موجود ہیں۔ اس وقت سرائیکی میں پی ایچ ڈی ، ایم فل ، ایم اے ، بی اے ، ایف اے اور میٹرک پڑھائی جا رہی ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ پرائمری سطح پر سرائیکی تعلیم کا آغاز کیا جائے تاکہ اپر کلاسوں کے سلسلے میں سرائیکی تعلیم کی مدد ہو سکے۔ ایک گزارش یہ بھی ہے کہ سی ایس ایس میں جس طرح پنجابی ‘ سندھی ‘ بلوچی ‘ پشتو وغیرہ کے پیپرز شامل ہیں ‘ اسی طرح سرائیکی کا بھی شامل کیا جائے کہ ایک سرائیکی ماسٹر ہولڈر سی ایس ایس کے امتحان میں کسی ایسی زبان کا پیپر کس طرح حل کرے گا جو کہ اس نے پڑھی ہی نہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ