ابھی چند ماہ پہلے وسیب کے جاگیرداروں نے جس طرح صوبے کا نعرہ لگایا اور وفاداریاں تبدیل کر کے تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور ووٹ حاصل کرنے کے بعد اقتدار حاصل کر لیا اور آج وہ بھولے سے بھی وسیب کو یاد نہیں کر رہے تو آج مجھے ڈاکٹر امجد بخاری کی کتاب یاد آ رہی ہے ‘ کتاب کا نام ’’ معرکہ 1857ء اور جنوبی پنجاب‘‘ ہے۔ اس کتاب میں انگریز کے وفاداروں کی طرف سے جنگ آزادی کے موقع پر وسیب کے جاگیرداروں کی ’’ خدمات ‘‘ کا ذکر ہے ۔ اس موضوع پر بہت سی کتابوں کی ضرورت ہے ، انگریزوں کیلئے سرداروں ، جاگیرداروں اور تمنداروں کے سول و فوجی اشرافیہ کی بہت خدمات ہیں ،سب کا تذکرہ ہونا چاہئے تاکہ ہماری آنیوالی نسل تاریخ کے مطالعے سے اپنی آئندہ کی راہ متعین کر سکے ۔ کتاب کا جو درست نام بنتا ہے وہ غدر اور غدار ہے ، ویسے بھی1857ء کی جنگ آزادی ’’ غدر ‘‘ کے نام سے یاد کی جاتی ہے ۔جیسا کہ میں نے عرض کیا امجد بخاری کی یہ کتاب انگریز کے وفادار سرداروں ‘ جاگیرداروں ‘ تمنداروں ‘ گدی نشینوں اور انگریز کے سول و ملٹری بیورو کریسی میں شامل ’’ غلاموں‘‘ کے اس کردار کو ظاہر کرتی ہے جو کہ وسیب کے زمین زادوں اور حریت پسندوں کے خلاف ادا کیا گیا ۔ یہ کردار آج بھی جاری ہے ‘ پہلے یہ گوروں کے غلام اور ایجنٹ تھے آج گوروں کی میراث کے وارث‘‘ کالے انگریزوں ‘‘ کے حاشیہ بردار بنے ہوئے ہیں۔ مقصد کرسی اقتدار اور عہدہ ہے ‘ آج بھی ان کا طواف اقتدار کے قبلے کی طرف ہے ‘ اپنی دھرتی ‘ اپنی مٹی ‘ اپنے وسیب ‘ اپنی زبان ‘ اپنے کلچر اور وسیب کے لوگوں سے ان کا تعلق محض ووٹ کی حد تک ہے ۔ امجد بخاری نے اپنی اس کتاب کا نام ’’معرکہ 1857ء اور جنوبی پنجاب‘‘ رکھا ہے ۔ حالانکہ سرائیکی وسیب کیلئے لفظ جنوبی پنجاب ’’چِڑ‘‘ کے علاوہ لغوی اور جغرافیائی لحاظ سے بھی درست نہیں ، جیسا کہ امجدبخاری کی اس کتاب میں 1857 ء کے ڈویژنوں کا ذکر ہے ۔اس میں آج کا ضلع لیہ ڈویژن ہے اور اس میں ضلع خانگڑھ ‘ ضلع ڈیرہ غازی خان اور ضلع ڈیرہ اسماعیل خان شامل ہیں ۔ اس سے جہاں یہ بات ثابت ہوئی کہ ڈیرہ اسماعیل خان ہمیشہ سے وسیب کا حصہ ہے وہاں یہ بھی حقیقت واضح ہوئی کہ ڈیرہ اسماعیل خان ‘میانوالی ‘ بھکر ‘ خوشاب اورٹانک وغیرہ سرائیکی وسیب کے ایسے اضلاع ہیں جو پنجاب کے جنوب میں نہیں آتے ۔ اس کتاب سے بہت سے حالات و اقعات کا پتہ چلتا ہے جیسا کہ رنجیت سنگھ کے قبضے سے پہلے ملتان کی طرح پشاور بھی الگ صوبہ تھا ‘ رنجیت سنگھ نے صوبہ ملتان اور صوبہ پشاور پر بھی قبضہ کیا اور اسے پنجاب میں شامل کیا ۔بخاری صاحب کی کتاب کے مطابق 1857ء کے پنجاب میں پشاور ڈویژن کا ایک ضلع پشاور ‘ دوسرا ضلع کوہاٹ اور تیسرا ضلع ہزارہ شامل ہے۔ انگریزوں سے پہلے پشتون اتنی زیادہ تعداد میں ان علاقوں میں نہیں آئے تھے ‘ اس وقت پشاور اور ہزارہ کی زبان ہندکو تھی جو کہ معمولی سے فرق کے ساتھ سرائیکی ہی ہے ‘ کوہاٹ ضلع تو خالص سرائیکی تھا ‘ پھر پشتون ‘ افغانستان سے آنا شروع ہو گئے ‘ کچھ نے انگریزوں کے خلاف مسئلے پیدا کئے تو پشتونوں اور انگریزوں نے آگے چل کر سودے بازی کرلی اور 9نومبر 1901ء کووائسرئے لارڈ کرزن نے سرائیکی خطے کی سر زمین جس میں ڈیرہ اسماعیل خان ‘ کوہاٹ اور ٹانک ریاست وغیرہ شامل تھی، پشتونوں کے حوالے کر دی اور ان کیلئے ایک نیا صوبہ سرحد بنا دیا، سرائیکی قوم کا صوبہ ملتان محض اس وجہ سے واپس نہ کیا کہ سرائیکی وسیب کے منافق جاگیرداروں اور گدی نشینوں کو چھوڑ کر باقی کسی نے انگریز کو پسند نہ کیا ۔
مذکورہ کتاب میں دو اور باتیں بھی قابل توجہ ہیں ایک یہ کہ 1857ء کے پنجاب ‘‘کی جو تفصیل دی گئی ہے اس میں ملتان ڈویژن کے تین ضلعے ہیں ایک ضلع ملتان دوسرا ضلع جھنگ اور تیسرا گوگیرا ‘ اس وقت لائل پور جھنگ کی تحصیل اور ملتان کمشنری کاحصہ تھی اور تمام علاقہ سرائیکی تھا جسے انگریزوں نے سرائیکی قوم سے چھین کر آبادکاری کے نام پر اپنے وفاداروں کو دیدیا اور مقامی لوگوں کو ’’جانگلی‘‘ کا نام دیکر تیسرے درجے کا شہری بنا دیا۔گوگیرہ کا علاقہ اوکاڑہ سے آگے تک کا ہے۔ تحریک آزادی کے سلسلے میں تحریک ترک موالات جسے تحریک عدم تعاون کا بھی نام دیا جاتا ہے ، 1919ء جلیانوالہ باغ کے واقعے کے رد عمل میں 1920ء میں شروع ہوئی ۔ تحریک آزادی کے ہندو مسلم رہنماؤں نے ملکر کہا کہ انگریزوں کی طرف سے دیئے گئے تمام اعزازی عہدے اور خطابات واپس کیے جائیں ، سرکاری و غیر سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کیا جائے ، فوج ، عدلیہ ،بیورو کریسی کے عہدے چھوڑ دیئے جائیں ۔ پارلیمنٹ اور بلدیاتی اداروں سے استعفے دیے جائیں ، اس پر توجہ نہ دی گئی کہ سب انگریز کے وفادار تھے ۔اس سے قبل تحریک آزادی کے سلسلے میں 9جولائی 1916ء کو ریشمی رومال پر لکھے گئے ایک خط کو تاریخی اہمیت حاصل ہوئی جس پر لکھا تھا کہ کابل میں آزاد ہند کی عارضی حکومت بناد دی گئی اور اس کے صدر راجہ مہندر پرتاب ہیں ، اس ریشمی رومال تحریک کے بانی عالمی حریت پسند مولانا عبید اللہ سندھی ہیں ، انہوں نے اس مقصد کیلئے کابل ،روس اور دوسری جگہوں کے دورے کیے ۔ اس تحریک کا مرکز دین پور شریف ( خانپور ) تھا ۔ مولانا عبید اللہ سندھی جو بہت بڑے حریت پسند ہونے کے علاوہ عالم دین بھی تھے نے خبردار کیا کہ ہندوستان کو مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ زبان اور ثقافت کی بنیاد پر اسے صوبائی حد بندوں کی شکل میں تقسیم کرنا چاہئے ۔ مولانا عبید اللہ سندھی نے 1939ء میں جلا وطنی کے بعد کراچی میں جو تقریر کی اس میں بھی انہوں نے یہ بات دہرائی کہ انگریز مکار ہندوستان سے بھاگ رہا ہے ، ہوشیار رہنا ، یہ مذہب کے نام پر لڑا کر آزادی کا بدلہ لے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ