کچھ عرصہ قبل یونیورسٹی میں حاضر ہوا تھا ، آپ سے ملاقات نہ ہو سکی ۔ البتہ ایڈمن اور اکیڈمک سٹاف سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ سرائیکی شعبے کے قیام کے سلسلے میں درخواست جمع کرائی ، چند دن قبل آپ کا بیان اخبارات میں دیکھنے کو ملا جس میں آپ نے کہا کہ خواجہ فرید یونیورسٹی میں ایم اے اور پی ایچ ڈی سرائیکی شروع کرائی جا سکتی ہے ۔ آج کے اخبارات میں سابقہ بیان سے ہٹ کر یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ خواجہ فرید آئی ٹی یونیورسٹی میں نیشنل سنٹر آف صوفی ازم بنایا جائے گا جہاں خواجہ فرید اور مخدوم حمید الدین حاکم کی تعلیمات کے فروغ کیلئے کام ہوگا ۔ اچھی بات ہے کہ خواجہ فرید ، مخدوم حمید الدین حاکم ، مولوی لطف علی ، پتن منارا ، جیٹھہ بھٹہ اور ڈسٹرکٹ رحیم یارخان کی بزرگ شخصیات ، مقامات و آثار پر تحقیق ہو ، مگر یونیورسٹی کو سرائیکی تعلیم کے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے ۔ اب جب کہ آرٹس کے دیگر مضامین شروع ہو چکے ہیں تو اولیت خطے کی زبان اور اس زبان کو حاصل ہونی چاہئے جس کے نام پر یونیورسٹی قائم ہے ۔ میری درخواست آپ کے ریکارڈ میں موجود ہے ۔ آپ مہربانی کریں ، اسے شرف قبولیت عطا کرتے ہوئے بلا تاخیر سرائیکی شعبے کے قیام کا اعلان کریں ۔ اس سے یونیورسٹی کی نیک نامی اور آمدنی میں اضافہ ہوگا۔
ڈاکٹر سلیمان طاہر صاحب!
ہماری نہ کسی سے رشتہ داری ہے اور نہ ذاتی مخالفت ۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سرائیکی شعبہ 30 سال کامیابی سے چل رہا ہے ۔ وہاں شعبے کو سہولتیں بھی مہیا کی جا رہی ہیں ، اب ہماری درخواست پر اسلامیہ یونیورسٹی نے رحیم یارخان کیمپس میں بھی سرائیکی شعبہ قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔یہ فطری امر ہے کہ وسیب کی بہتری اور وسیب کی زبان کے فروغ کیلئے جو بھی قدم اٹھائے گا ، اس کی تعریف ہوگی اور جہاں سرائیکی زبان کی تعلیم میں روڑے اٹکائے جائیں گے تو لوگ اس پر ناگواری ظاہر کریں گے اور روڑے اٹکانے والوں پر ناپسندیدگی کا اظہار ہوگا ۔ آپ کے مخالف کبھی نہیں چاہیں گے کہ آپ کے ہاتھوں کوئی اچھا اور یادگار کام ہو اور یونیورسٹی کے ساتھ آپ کی نیک نامی میں اضافہ ہو۔ میں ایمانداری سے کہوں گا کہ آپ کے نادان دوست جو کہ آپ کو سرائیکی شعبہ نہ کھولنے کا مشورہ دے رہے ہیں ، در اصل وہ آپ کا تعارف اس حوالے سے کرا رہے ہیں کہ آپ وسیب کی زبان ، ثقافت اور وسیب کے لوگوں کو ناپسند کرتے ہیں
میں کہتا ہوں کہ آپ کسی کی نہ مانیے ، میرٹ پر فیصلہ کیجئے اور سوچیئے کہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اگر پنجابی شعبہ نہ ہو تو کتنی غلط بات ہوگی، اسی طرح سندھ کی یونیورسٹیوں کو دیکھیں جو کہ رحیم یار خان کا ملحقہ علاقہ ہے ، وہاں کے سندھی شعبے سندھی کے فروغ کیلئے کتنا کام کر رہے ہیں ۔ اگر خواجہ فرید یونیورسٹی میں سرائیکی شعبہ نہیں ہوگا تو پھر میں جو گزارشات پیش کر رہا ہوں ، یقینا ان میں تلخی آئے گی اور جھگڑے کا ماحول بنے گا جو کہ کسی بھی مادر علمی اور کسی بھی وسیب کیلئے سود مند نہ ہے ۔ لہٰذا وسیب کی گزارشات کو ہر گز مسترد نہ کیجئے ۔ اس کے ساتھ میں یہ بھی کہوں گا کہ وسیب کے جن ملازمین کو تعصب کی بناء پر ملازمتوں سے برطرف کیا گیا ہے ان کو بحال کریں کہ آپ ایک ریسرچ اسکالر ہیں ، یہ بات آپ کے علم میں ہوگی کہ کسی بھی شخص کا معاشی قتل جسمانی قتل سے بھی زیادہ مضر سمجھا جاتا ہے ۔
ڈاکٹر صاحب!
آج 21ویں صدی ہے ، ہر بات کی حقیقت کو ہر شخص سمجھتا ہے ، صوفی سنٹر کے قیام کا اعلان در اصل سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کی ڈیمانڈ سے پہلو تہی کا ایک طریقہ ہے ۔ اور اس سے قبل آپ کا یہ بیان کہ اگر سرائیکی شعبے میں طلباء داخلہ لینا چاہیں تو ہم شعبہ قائم کر کے ایم اے اور پی ایچ ڈی سرائیکی کرا سکتے ہیں ۔ شاید آپ کو ادراک نہ ہو ، آپ کی ’’ اگر ‘‘ سے وسیب کے کتنے لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہے، کیا یونیورسٹی میں پہلے سے کھولے گئے شعبے طلباء سے داخلے کی شرائط منوانے کے بعد کھولے گئے تھے ؟ اگر آپ کو گارنٹی چاہئے تو آپ جتنا چاہیں مجھ سے بانڈ لکھ دینے کو تیار ہوں کہ داخلے ہونگے لیکن میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ یونیورسٹی کے کچھ شعبے ایسے ہیں جہاں طلباء نہیں ہیں ، جبکہ یونیورسٹی سے اساتذہ و دیگر سٹاف کو تنخواہیں چلت کی جا رہی ہیں ۔ کوٹ مٹھن لائبریری کی بہتری کیجئے مگر سرائیکی شعبے کے منصوبے کو زیر التوا رکھنے کی شرط پر نہیں ۔ سرائیکی شعبے کو الٹا لٹکانے کیلئے ہر طرح کی تحریف ، لالچ اور رشوت کی مخالفت کی جائے گی ۔ خواجہ فرید سرائیکی کا قومی شاعر ہے اور پوری سرائیکی قوم اس کی وارث ہے ۔
جناب ڈاکٹر صاحب!
سرائیکی وسیب اور سرائیکی زبان و ادب کا مسئلہ بہت حساس ہے ، یہ سرائیکی خطہ ہے ، وسیب کے لوگ ہزار ہا سالوں سے اس خطے میں رہ رہے ہیں ، ان کا اپنا وطن ،اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت ہے ۔ پاکستان کے لئے ہمارے خطے اور ہمارے بزرگوں کی عظیم خدمات ہیں ۔ سرائیکی شعبے کا مطالبہ ہر لحاظ سے جائز ہے اور سرائیکی انڈیا یا اسرائیل کی زبان نہیں ہے ، پاکستان کی زبا ن ہے اور پاکستان کی دیگر یونیورسٹیوں میں سرائیکی پڑھائی جا رہی ہے ۔ رحیم یارخان کے کالجوں میں بھی سرائیکی پڑھائی جا رہی ہے، جو زبان کالجوں میں پڑھائی جا رہی ہو ، اسے یونیورسٹی کی تعلیم کیلئے لازم شامل کیا جاتا ہے کہ کالج کی تعلیم ہی در اصل یونیورسٹی کی تعلیم ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یونیورسٹی میں سرائیکی کو کون روک سکتا ہے ؟ یہ اس خطے کی اصل زبان ہے اور اس کی جڑیں دھرتی میں پیوسط ہیں ۔ یہ کوئی مصنوعی زبان نہیں اور نہ ہی باہر سے آئی ہے ۔ جناب والا ! تاریخی ، ثقافتی اور جغرافیائی حقائق کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ میں واضح کہتا ہوں کہ کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا مقصد مقامی زبان و ادب کے فروغ اور اس کے آثار پر تحقیق ہوتا ہے ، علمی اور زمینی حقائق کے مطابق خواجہ فرید یونیورسٹی نے سرائیکی شعبہ قائم کرنا ہے ۔ اگر یہ آپ کے ہاتھوں سے ہو جائے تو یہ قدم آپ کی نیک نامی کا باعث بنے گا ، ورنہ وسیب کے لوگوں نے ہر صورت شعبہ قائم کرانا ہے ، پیار سے ہو یا تکرار سے ۔ بارِ دیگر کہوں گا کہ بلا تاخیر سرائیکی شعبے کا قیام عمل میں لائیں ، یہ میری درخواست بھی ہے اور آپ کے نام کھلا خط بھی ۔ امید ہے کہ آپ مایوس نہیں کریں گے ۔
فیس بک کمینٹ